کسی ملک وقوم کی ترقی کے لیے اس کے باشندوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے ۔قوم کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والی ہستی ’اُستاد‘ کہلاتی ہے۔استاد سے مراد ہر وہ انسان ہے، جس نے ہمیں کچھ سکھایا یاجس سے ہم نے خود کچھ سیکھا ہو،چاہے وہ کوئی ہنر ہو یا پھر علم۔
کہتے ہیں، استاد کا درجہ ماں باپ جیسا ہوتا ہے۔ والدین، بچوں کی پرورش اور اساتذہ ان کی ذہنی پرورش کرکے انہیں مستقبل کا کار آمد شہری بناتے ہیں۔ ان ہی شفیق ہستیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہر سال5اکتوبر کو ’عالمی یوم اساتذہ‘ (World Teachers' Day) منایا جاتا ہے ۔جس کا مقصد معاشرے میں اساتذہ کے اہم کردار کو اجاگر کرنا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 5 اکتوبر کو اساتذہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔
عالمی یوم اساتذہ 2018ء، یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس1948ء کی 70ویں سالگرہ کے طور پر منایا جارہا ہے، جس میں تعلیم کو انسان کا بنیادی حق تسلیم کرتے ہوئے، بنیادی لازمی تعلیم تک بلامعاوضہ، شراکت دارانہ اور منصفانہ رسائی کو ہر بچے کا استحقاق قرار دیا گیا تھا۔
اس سال عالمی یوم اساتذہ کا خیالیہ یا موضوع ’حقِ تعلیم کا مطلب حقِ قابل استاد‘ (The right to education means the right to a qualified teacher)ہے۔ یہ موضوع منتخب کرنے کا مقصد عالمی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ ’تعلیم سب کے لیے‘ کا حصول، تربیت یافتہ اور اہل اساتذہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آج بھی، دُنیا میں ایک طرف جہاں اساتذہ کی کمی ہے تو ساتھ ہی تربیت یافتہ اور قابل اساتذہ کی قلت اور بھی شدید ہے۔ آج بھی انسان جب پوری کائنات کو تسخیر کرنے کی جستجو میںمگن ہے، اس کی اپنی زمین پر تقریباً 26کروڑ 40لاکھ بچوں اور نوجوانوں نے کبھی اسکول نہیں دیکھا۔
اساتذہ کو اپنے شاگردوں پر مسلسل توجہ، ان کی ہر وقت نگہداشت اور جذبۂ ایثار کے ساتھ نرم و شائستہ انداز میں رہنمائی کرنا ہوتی ہے۔ اس لیے یہ شعبہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کے لیے زیادہ موزوں ہوتا ہے۔ بالخصوص ابتدائی(پرائمری) سطح کی تعلیم کا، اور اگر پورے نظامِ میں صحت مند، ذہین اور محنتی خواتین اساتذہ کو بھرپور مواقع دیے جائیں تو زیادہ مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اکثر خواتین اساتذہ اپنے پیشے سے انصاف کرتے ہوئے اور تدریس سے جڑے مختلف لوازمات (جس میں تحقیق کرنا، پڑھانے کے نئے طریقے آزمانا اور جدید اقتباس کو کورس کا حصہ بنانا شامل ہے) پورے کرتی نظر آتی ہیں۔ان کے اندر آگے بڑھنے کی جستجو ہوتی ہے اور یہی جذبہ وہ اپنے طلباء میں بھی منتقل کرتی ہیں۔
پاکستان میں تعلیم صوبائی معاملات میں شامل ہے اور بیشتر صوبائی حکومتیں تعلیم کے لیے کئی ترغیبات بھی دیتی ہیں مگر مطلوبہ نتائج نہیں ملتے۔ معیارِ تعلیم ہے کہ دن بدن پست ہوتا جا رہا ہے۔ سرکاری اسکول اور کالج کے کلاس روم ویران کیوں ہیں؟ استاد کے کام کو ’پیغمبری پیشہ‘ کہنے کی روایت بھی تسلیم لیکن کیا اساتذہ، بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ان مقولوں اور روایتوں پر عمل کر رہے ہیں یا معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح استحصال کے عمل میں حصہ دار بن رہے ہیں۔
قومی اور بین الاقوامی ادارے کئی عشروں سے کلاس روم میں اساتذہ کی تدریس کو مؤثر بنانے کے عمل میں مصروف ہیں۔ اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے، ورکشاپ منعقد کیے جاتے ہیں، ان سے مشاورت کی جاتی ہے اور آیندہ رہنمائی کے لیے کتابچے تیار کیے جاتے ہیں۔ اساتذہ کے فرسودہ تربیتی کورسز کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا گیا ہے اور تدریسی رہنمائی کے لیے کئی مواقع اور وسائل فراہم کیے گئے ہیں۔ ایسی تمام سرگرمیوں کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ تدریس کے عمل کو بامقصد بنایا جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ طلبا کو کس طرح ایک دوستانہ ماحول فراہم کیا جائے اور والدین کو بچوں کی تعلیم کے عمل میں کیسے متحرک کیا جائے۔ کثیر سرمایہ، وقت اور افرادی قوت سے روبہ عمل لائی جانے والی ان مشقوں کے نتائج میں کچھ رکاوٹیں ضرور حائل ہوں گی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اساتذہ کی اکثریت کو تربیت کے ان مواقع سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ ایسے اساتذہ کی تعداد ہزاروں میں ہو گی لیکن کیا کبھی انھوں نے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان میں آج بھی کم از کم 2کروڑ 40لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ مردم شماری 2017ءکے مطابق، پاکستان کی تقریباً 49فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسکول جانے کی عمر کی حامل تقریباً 1کروڑ20لاکھ سے زائد لڑکیاں بھی اسکول سے باہر ہیں۔نپولین نے کہا تھا کہ، ’مجھے لکھی پڑھی مائیں دو، میں آپ کو ایک مہذب، تعلیم یافتہ قوم دوں گا‘۔
ہم ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز(MDGs)کے تحت 2015ء تک اپنے تمام بچوں کو بنیادی تعلیم دینے کے ہدف کے حصول میںبُری طرح ناکام رہے ہیں، تاہم اب بھی وقت ہے کہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs)کے تحت 2030ء تک اپنے ہر بچے اور بچی کوبنیادی تعلیم (مفت اور معیاری)دینے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کریں۔ پاکستان میں لڑکوں میں خواندگی کی شرح 70فیصد ہے، جبکہ اس کے برعکس صرف 48فیصد لڑکیاں خواندہ ہیں۔ایسے میں لڑکیوں کو لڑکوں کے برابر لانے اور2030ء کے اہداف حاصل کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کو اپنی کوششوں میں دُگنی تیزی لانا ہوگی۔ اس ہدف کے حصول میں خواتین اساتذہ کا کردار بھی کلیدی ہوگا۔