نئی دہلی (جنگ نیوز)بھارتی فوج کے ایک سابق جنرل نے انکشاف کیا ہے کہ گجرات میں مسلم کش فسادات کے دوران مودی کی ریاستی حکومت نے فوج کو بروقت متاثرہ علاقوں میں داخل ہونے کا موقع نہیں دیا ۔ اپنی کتاب’’دی سرکاری مسلمان‘‘ میں لیفٹیننٹ جنرل ضمیرالدین شاہ کا کہنا ہے کہ گجرات کی ریاستی انتظامیہ نے ہمارے سپاہیوں کو فسادات کے علاقوں تک جانے کیلئے ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں کیا تھا۔ ہم نے پورا دن گنوا دیا اور اس دوران سیکڑوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، ان میں سے کئی افراد کو زندہ جلادیا گیا اور کئی خواتین کی عصمت ریزی کی گئی۔ گجرات مسلم کش فسادات کو روکنے کیلئے فوج کو بروقت موقع نہیں دیا گیا۔ 28 فبروری اور یکم ؍ مارچ 2002ء کی درمیانی شب جب گجرات کے مسلمانوں کو زندہ جلایا جارہا تھا، انہیں بچانے کیلئے فوج کو وقت پر پہنچنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ لیفٹننٹ جنرل ضمیرالدین شاہ نے اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی سے اس وقت کے وزیردفاع جارج فرنانڈیز کی موجودگی میں احمدآباد میں 2 بجے دوپہر ملاقات کی اور انہیں فوجی کالمس کو لا اینڈ آرڈر کی بحالی کی اجازت دینے کیلئے فوری مطلوب چیزوں کی فہرست پیش کی لیکن یکم ؍ مارچ کو صبح 7 بجے سے احمدآباد کی فضائی پٹی پر اترنے والے 3000 سپاہیوں کو وہاں سے فسادات کے علاقوں تک پہنچنے نہیں دیا گیا۔حکومت نے ان اہم وقت ضائع کیا۔جنرل شاہ کی کتاب کا اجراء نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر پر 13 اکتوبر کو سابق نائب صدرحامد انصاری انجام دیں گے۔ جنرل شاہ نے لکھا کہ گجرات حکومت نے اگرچہ کہ مرکزی وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کو 28 فبروری 2002ء کو ہی فوج کی تعیناتی کیلئے درخواست کی تھی۔ اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ایس پدمنابھن نے ان سے (ضمیرالدین شاہ) کہا کہ وہ فوری آج رات گجرات کیلئے روانہ ہوجائیں اور فسادات کو روک دیں۔ میں نے جواب دیا کہ سڑک کے ذریعہ جائیں تو دو دن لگ جائیں گے انہوں نے فوری پلٹ کر کہا کہ ائیرفورس تمہیں جودھپور سے وہاں پہنچا دے گی۔