ملک میں عرصہ دراز سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں ووٹ حاصل کرنے کیلئے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں اور ان کی تکمیل کیلئے طرح طرح کے نعرے لگاتی ہیں۔ ماضی میں قرض اتاروملک سنوارو جبکہ حال میں نیا پاکستان انہی نعروں کا تسلسل ہے۔ موجودہ حکومت اپنے نعرے کو عملی جامہ پہنانے میں کس حد تک کامیاب ہوگی اس باب کوئی رائے پیش کرنا قبل از وقت ہوگا ۔ عدالت عظمیٰ نے وزیراعلیٰ پنجاب کی مداخلت پرسابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے آدھی رات کو کئے گئے مشکوک تبادلے سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریمارکس اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو ’’نیا پاکستان‘‘ کے نعرے کی پاسداری کیلئے بڑی احتیاط اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے گزشتہ روز ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ جسکے دوران چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے وزیراعظم کے اس بیان پر کہ جب تک پی ٹی آئی کی حکومت ہے پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے، ناصرف ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ حکم بھی دیا کہ وزیراعظم کو بتایا جائے کہ عدالت انکے اس بیان سے ناخوش ہے ، وزیراعلیٰ کی تقرری عدالتی احکامات کے تابع ہوگی، عدالت نے زیر سماعت کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب، خاتون اوّل کے سابق شوہر کے قریبی دوست احسن اجمل گجر اور سابق آئی جی پولیس پنجاب کی تحریری معافی قبول کرلی۔ تاہم قرار دیا ہے کہ اگر مستقبل میں حکومت پنجاب کی جانب سے انتظامی امور میں سیاسی مداخلت کا کوئی واقعہ پیش آیا تو اسی ازخود نوٹس کو دوبارہ کھول دیا جائے گا ۔ امید کی جانی چاہئے کہ موجودہ حکومت فاضل عدالت کے ان ریمارکس کے بعد اس بات کو یقینی بنائے گئی کہ انتظامی امور میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہ کی جائے ۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998