• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ ضمنی انتخابات میں مسلم (ن) نے پنجاب فتح کرلیا ہے نئی محبتوں کے تازہ کھیل میں پیپلز پارٹی اور ق لیگ مل کر بھی ہار گئیں ، پاکستان تحریک انصاف نے خود کو ضمنی سیاست سے دور رکھا ، اس کامیابی پر مسلم لیگ (ن) کو بجا طور پر خوش ہونا چاہئے مگر ن لیگ کے کارکنوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ الیکشن کمیشن کے ضابطہٴ اخلاق کو روند کر خوشی کے ڈونگرے برسائیں ۔ پیپلز پارٹی اور ق لیگ کو اپنی خامیوں کی نشاندہی کیلئے یہ انتخابات بڑے معاون ثابت ہوں گے ۔اگر دو روز پیشتر ہونے والے ضمنی انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سوائے سندھ کی ایک صوبائی نشست کے پورا الیکشن ہی پنجاب میں تھا، الیکشن کے اکثریتی حلقے وسطی پنجاب کے تھے ۔ اگر ایک ایک حلقے کو سیاست کی آنکھ سے دیکھا جائے تو نئے رجحان کا اندازہ ہوجائے گا ۔ نو شہروفیروز سے سندھ اسمبلی کی جو نشست پیپلز پارٹی نے جیتی ہے وہ پورا زور لگا کے جیتی ہے کیونکہ وہاں این پی پی کے امیدوار نے خاصی دشواریاں پیدا کر رکھی تھیں جن کے لئے غلام مصطفی جتوئی مرحوم کے صاحبزادے بڑے جوش وخروش سے کام دکھا رہے تھے مگر آخری دن ان کا جادو نہ چل سکا ۔ ساہیوال سے پیپلز پارٹی کی ہار نے نئے سوالات کو جنم دے دیا ہے کیونکہ ساہیوال کی نشستیں ہمیشہ ہی سے جنوبی پنجاب کے زیر اثر رہی ہیں۔ ویسے سیاست کی جادو نگری بھی عجیب ہے کہ ساہیوال سے قومی اسمبلی کے نو منتخب رکن زاہد اقبال تین ماہ پیشتر پیپلز پارٹی کے ایم این اے تھے انہوں نے اپنا نظریہ تبدیل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ انہوں نے بڑی برق رفتاری سے نظریات کا پل پار کیا اور ن لیگ نے بھی کلمہ شکر ادا کرتے ہوئے لوٹے کو قبول کر لیا ۔ نظریات کی تبدیلی کی مسافت میں ڈھائی تین ماہ کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔ اصل حیثیت تو اقتدار کی ہے اور نظریہٴ اقتدار کے سامنے تمام نظریات ہیچ ہیں ۔ موجودہ سیاست میں نعرے بھی قریباً ایک جیسے ہیں بس تھوڑا سا ناموں کا ہیر پھیر کرنا پڑتا ہے ۔ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ شہر سے ن لیگ نے جیتنا ہی تھا کہ شہر ن لیگ کے گڑھ تصور کئے جاتے ہیں ۔ نارووال سے ن لیگ کی شکست کی واحد وجہ غلط امیدوار کا انتخاب تھا لوٹا کریسی کے ہاتھوں مجبور میاں برادران نے وہاں یو نیفکیشن گروپ کو ٹکٹ دے دیا تھا۔ اس کا پھل ہار کی صورت میں ن لیگ کو مل چکا ہے وہاں سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے طارق انیس کے بھتیجے ق لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ہیں ۔ گجرات سے قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ ن کے ملک حنیف اعوان نے بھاری اکثریت حاصل کی اس حلقے میں چوہدری برادران اور پیپلز پارٹی ناکام ہوئی ۔ خفت مٹانے کیلئے کہا جارہا ہے کہ یہ نشست مسلم لیگ ن نے خالی کی تھی۔ رہی بات جہلم کی تو وہاں سے چوہدری خادم آزاد حیثیت میں جیت کر ن لیگ کا حصہ بن گئے ہیں ۔ یہاں سے ن لیگ نے کسی کو ٹکٹ نہیں دیا تھا کیونکہ چوہدری نثار علی خان آڑے آگئے تھے ۔ جہلم میں شکست سے دوچار ہونے والے راجہ افضل سب سے زیادہ پریشان ہیں کہ ان کے دو ایم این اے صاحبزادے انہیں شکست سے نہ بچا سکے، عوام نے بھی ان کے بڑھاپے کو نظر انداز کیا ۔ راجہ افضل کی شکست پر چوہدری فرخ الطاف کا گھرانہ خوش ہو گا۔ چوہدری شہباز حسین بیرون ملک سے آکر بیٹھے ہوئے تھے یقیناً انہوں نے بھی کاریگری دکھائی ہوگی وہ بظاہر چوہدری عارف کی مہم چلاتے رہے مگر ان کا اصل ٹارگٹ راجہ افضل ہی تھا ۔ دھڑے بندیوں اور برادریوں کی آئینہ دار سیاست میں کئی لوگوں نے کئی لوگوں سے انتقام لیا۔
بحیثیت مجموعی ن لیگ نے تازہ معرکہ سر کرلیا ہے پتہ نہیں یہ شہباز شریف کی زباں بندی کا اثر ہے یا پنجاب کی انتظامیہ کی جادوگری ہے یا ہوا کا رخ ہے کہ ن لیگ جیت گئی ہے آج کل شہباز شریف ہر جلسے میں اپنی زباں بندی کا رونا روتے ہیں حالانکہ صدر زرداری کے بارے میں زباں بندی ہے ، گلوکاری پر کوئی قدغن نہیں۔
حالیہ الیکشن کے نتائج کو مدنظر رکھا جائے تو پیپلز پارٹی کو چاہئے کہ وہ پنجاب میں اتاری گئی اپنی نئی نویلی ٹیم کو حکمت عملی کے تعویز بھی دے۔بلاول بھٹو زرداری نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کرکے سچا علم بلند کیا ہے مگر انہیں ایک بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہئے کہ پاکستان میں عورتوں کے حقوق بھی پامال ہوتے ہیں، عورتوں کے حقوق کیلئے اس وقت سب سے زیادہ کام پاکستان تحریک انصاف کر رہی ہے ۔ تحریک انصاف کی مرکزی رہنما اور قومی اسمبلی کی سابق رکن عائلہ ملک اس سلسلے میں پیش پیش ہیں انہوں نے پچھلے دنوں ایک جرگے کے ذریعے ایسے علاقوں میں خواتین کو ووٹ کا حق دلوایا جہاں عورتیں پچھلے پچاس برس سے ووٹ کے حق سے محروم تھیں انہوں نے یہ کام پائی خیل اور چکڑالہ کے دور افتادہ علاقوں میں کیا ۔ عائلہ ملک پاکستان کے ایسے دوسرے حصوں میں بھی خواتین کو ووٹ کا حق دلوانا چاہتی ہیں جہاں قبائل نے خواتین کا راستہ روک رکھا ہے ۔ تحریک انصاف نے خواتین اور نوجوانوں کو ٹارگٹ کر رکھا ہے بلکہ عمران خان کا خیال یہی ہے کہ یہ دونوں ہی مستقبل کی سیاست کو بدل کر رکھ دیں گے۔ جہاں پارٹی الیکشن کرواکے عمران خان نئی تاریخ رقم کررہے ہیں وہاں مولانا فضل الرحمن پرانے مذہبی اتحاد کو بحال کرکے سیاست بچانے کے چکر میں ہیں ۔ اس دوران ایم کیو ایم نے خوبصورتی کے ساتھ اپنے ممبران سے استعفے دلوا کر انہیں نااہلی سے بچا لیا ہے ۔ اب سیاست میں شاید نیا نظریہ آگیا ہے کہ بچ جاوٴ تو کچھ پاوٴ“۔
سننے میں آرہا ہے کہ پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کرنے والے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا کو فیڈرل پبلک سروسز کمیشن کا نیا چیئرمین بنایا جارہا ہے۔ پتہ نہیں نئے چیئرمین کو کن سیاسی حملوں سے بچنا پڑے گا کہ
آئے کسی کے نام سندیسے جو پیار کے
ہم کو وطن کی یاد رلا کر چلی گئی
تازہ ترین