• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جاری احتساب کے عمل کے نتیجے میں ایک ایسا حادثہ رونما ہوا ہے، جس نے نہ صرف پوری پاکستانی قوم کو گہرے صدمے سے دوچار کیا ہے بلکہ دنیا میں بھی پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور چھ سینئر اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر قومی احتساب بیورو (نیب) کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ یہ حادثہ لاہور میں رونما ہوا میں اسے ایک واقعے کی بجائے ایک حادثہ قرار دیتا ہوں، جس میں قومی وقار پر ایسے گھاؤ اور زخم آئے ہیں، جن کے مندمل ہونے میں شاید بہت زیادہ وقت درکار ہو گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار کا یہ اقدام خوش آئند ہے کہ انہوں نے بروقت اس حادثےیا سانحے کا ازخود نوٹس لیا اور ڈی جی نیب لاہور اور ڈی آئی جی آپریشنز پولیس کو عدالت میں طلب کرکے نہ صرف ان سینئر اساتذہ سے معافی مانگنے کا حکم دیا بلکہ یہ بھی فرمان جاری کیا کہ ڈی جی نیب پوری قوم سے تحریری معافی مانگیں۔ جناب چیف جسٹس نے ڈی جی نیب کی سخت سرزنش کی اور کہا کہ وہ استاد کی بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتے۔ ڈی جی نیب لاہور چیف جسٹس کی برہمی پر آبدیدہ ہو گئے تو جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ میں نے آپ کو ہتھکڑیاں لگانے کی بات کی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ڈی جی نیب نے اپنے اقدام پر عدالت میں معافی بھی مانگ لی۔ چیف جسٹس کی اس کارروائی سے دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ پاکستان میں اساتذہ کا احترام کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ نے اس سانحہ کا نوٹس لیا ہے لیکن جو کچھ ہوا ہے، اسے دنیا آسانی سے نہیں بھلا سکے گی۔ یہ سانحہ پاکستان کیلئے ایک تاریخی حوالہ بن جائے گا۔

ڈاکٹر مجاہد کامران اور دیگر 6پروفیسرز کا شمار سینئر ترین اساتذہ میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہزاروں طلباء کی تدریس کا عظیم فریضہ انجام دیا ہو گا۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران ایک ایسی درس گاہ کے سربراہ رہے ہیں، جو پاکستان کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہے۔ پوری دنیا یونیورسٹی آف پنجاب کوپاکستان کی عظیم درسگاہ تسلیم کرتی ہے۔ یہ شاید ایشیاء کی واحد یونیورسٹی ہے، جسکے فارغ التحصیل دو طلباء نے نوبیل انعام حاصل کیا ہے۔ ان میں ہرگوبند کھورانہ اور ڈاکٹر عبدالسلام شامل ہیں۔ ہرگوبند کھورانہ نے 1968ء میں میڈیسن میں اور ڈاکٹر عبدالسلام نے 1979ء میں فزکس میں نوبیل انعام حاصل کیا۔ یہ علامہ اقبال اور چوہدری رحمت علی کی مادر علمی ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم آئی کے گجرال اور پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی یہاں سے تعلیم حاصل کی۔ یہاں سے ستیش دھون، یش پال او رمحمد شریف جیسے سائنس دان پیدا ہوئے، جنہوں نے راکٹ سائنس اور اسپیس سائنس میںعظیم الشان دریافتیں کیں۔ یونیورسٹی آف پنجاب سے جاری ہونے والی ڈگری کو صرف تعلیمی اہلیت کی سند قرار نہیں دیا جاتا بلکہ ڈگری ہولڈر کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس ادارے کے سربراہ اور سینئر اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا حالانکہ ان پر الزامات ثابت ہونا ابھی باقی ہیں۔ کبھی تو سوچنا یہ تم نے کیا کیا لوگو ! اس سانحہ کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے کہ انسداد بدعنوانی اور احتساب کے اداروں کو حاصل اختیارات پر نظرثانی کی جائے۔ جناب چیف جسٹس نے ڈاکٹر مجاہد کامران اور دیگر اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگانے کے واقعہ پر ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے ڈی جی نیب سے جو سوال کیا، وہ آج کا بنیادی سوال ہے۔ چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کس قانون کے تحت اساتذہ کی تضحیک کی ؟ ڈی جی نیب نے اس سوال پر کوئی قانونی وضاحت پیش نہیں کی بلکہ معافی مانگ لی۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیئے کہ نیب نے سوائے لوگوں کی تضحیک کے کوئی کیس حل نہیں کیا۔ نیب کو لوگوں کی تذلیل کرنے اور پگڑیاں اچھالنے کا ٹھیکہ ملا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیئے کہ ہتھکڑی مجاہد کامران اور پروفیسرز کی موت ہے۔ چیف جسٹس کے ان ریمارکس سے پاکستان کے احتساب کے سب سے بڑے ادارے کے کردار کی وضاحت ہوتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس صورتحال پر نظرثانی کی جائے۔

استاد کی تضحیک اور تذلیل پورے نظام تعلیم کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ جب طلباء کا استاد پر یقین ہی نہیں رہے گا تو وہ کہاں سے علم اور اخلاقیات حاصل کرے گا۔ تعلیم و تربیت اس وقت ممکن ہوتی ہے، جب طلباء کے دلوں میں اساتذہ کا احترام ہوتا ہے کیونکہ رچرڈ ہاورڈ کے بقول اساتذہ وہ ہوتے ہیں، جو آپ کو اس مقام تک پہنچنے میں مدد دیتے ہیں، جہاں آپ جانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا اساتذہ عزت اور احترام کے مستحق ہیں۔۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ ’’جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا، وہ میرا استاد ہے اور علی پر اپنے استاد کا احترام واجب ہے‘‘۔ ان تمام دلائل کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اساتذہ پر اگر کوئی الزام ہے تو ان سے پوچھ گچھ نہ کی جائے یا ان کا احتساب نہ کیا جائے۔ مقصد یہ ہے کہ الزام کی تحقیقات میں ویسے تو کسی کی بھی تضحیک اور تذلیل نہ کی جائے اور اساتذہ کا خاص طور پر خیال رکھا جائے کیونکہ وہ ایک اچھا اور ترقی یافتہ معاشرہ بنانے اور آنے والی نسلوں کی کردار سازی کے عمل میں دیومالائی کردار تصور کئے جاتے ہیں۔ نیب کے اہلکار اس بات کا خیال رکھ کر سب کچھ کر سکتے تھے۔

پاکستان سمیت تیسری دنیا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً پولیس، انسداد بدعنوانی کے اداروں اور احتساب کے اداروں کے پاس جو اختیارات ہیں، وہ نو آبادیاتی دور کا ورثہ ہیں۔ الزامات ثابت ہونے سے پہلے ملزمان کو ایسی سزا دے دی جاتی ہے، جس کے وہ الزامات ثابت ہونے کی صورت میں بھی مستحق نہیں ہیں۔ نو آبادیاتی حکمرانوں کی غلامی میں رہنے والے تیسری دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی بے نامی درخواست پر لوگوں کو نہ صرف گرفتار کرلیا جاتا ہے بلکہ آج کل انکا میڈیا ٹرائل کرکے ان کی تذلیل اور تضحیک بھی کی جاتی ہے۔ میں ایک سیاسی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل ہوں۔ میرے سامنے ایسے سینکڑوں مقدمات ہیں، جن کے عدالتی ٹرائل کے بعد ملزمان بری ہو گئے اور ان پر الزامات ثابت نہیں ہوئے لیکن انہوں نے نہ صرف قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ میڈیا ٹرائل کے ذریعہ ان کی ایسی تضحیک ہوئی کہ وہ اپنی باقی زندگی ناکردہ گناہ کی ندامت میں گزار رہے ہیں اور اپنے بچوں، اپنے خاندان، اپنے دوستوں سمیت دنیا کا سامنا نہیں کر پا رہے۔ وہ جیتے جی مر گئے ہیں

جیسا کہ جناب چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ہتھکڑی ڈاکٹر کامران مجاہد اور پروفیسرز کی موت ہے ۔ جناب چیف جسٹس کے یہ ریمارکس بھی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ نیب نے سوائے لوگوں کی تضحیک کے کوئی کام نہیں کیا ۔ نیب کو لوگوں کی تذلیل کرنے اور پگڑیاں اچھالنے کا ٹھیکہ ملا ہوا ہے ۔ ہم پاکستان سمیت تیسری دنیا میں احتساب کے اداروں کے کردار سے بحیثیت سیاسی کارکن اچھی طرح واقف ہیں اور بحیثیت وکیل نو آبادیاتی قوانین کے قہر سے بھی آگاہ ہیں ۔ نو آبادیاتی دور میں یہ حربے آزادی کی تحریکوں کو کچلنے اور آزادی کے بعد سیاسی تحریکوں کو کچلنے کیلئے آزمائے گئے ۔ پولیس اور احتساب کے اداروں کو بے پناہ اختیارات کے باوجود تیسری دنیا کے ملکوں میں لاقانونیت اور کرپشن بھی انتہا پر ہے۔ 5 اکتوبر کو عالمی یوم اساتذہ منانے کے ایک ہفتے کے بعد 12اکتوبر کو لاہور میں جو کچھ ہوا ، وہ ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔

ہمارے احتساب کے ادارے بے گناہ کو بھی مجرم ثابت کرنے کیلئے سارے اختیارات اور وسائل جھونک دیتے ہیں لیکن وہ گنہگار کو بھی مجرم ثابت نہیں کر سکتے۔ اساتذہ کیساتھ جو کچھ ہوا، وہ ان پر الزامات ثابت ہوئے بغیر ہوا۔ آئیے! ایک مہذب قوم کی حیثیت سے ذرا سوچیں کہ کیا ہو رہا ہے اور ہم کس طرف جا رہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین