• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رستگار اینڈ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مقصود ذوالفقار سے خصوصی گفتگو

پینل انٹرویو: لیاقت علی جتوئی، رابعہ شیخ

پاکستان کے معروف صنعتی خاندانوں میں ’رستگار فیملی‘ کا شمار بھی ہوتا ہے، جو 1960ء کے عشرے سے صنعت و حرفت سے وابستہ ہیں۔رستگار گروپ کی دو کمپنیاں، ’رستگار انجینئرنگ‘ اور ’رستگار اینڈ کمپنی‘ ہیں۔ ’رستگار انجینئرنگ‘، آٹوسیکٹر میں ٹرکوں کے اسپیئر پارٹس بناتی ہے، جو کہ دنیا کے 40ملکوں کو برآمد بھی کیے جاتے ہیں،جبکہ ’رستگار اینڈ کمپنی‘، انڈسٹریل ایئر کمپریسر فراہم کرتی ہے۔ ’رستگار اینڈ کمپنی‘ کی بات کریں تو مقصود ذوالفقار اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(CEO)ہیں۔ مقصود ذوالفقار، رستگار فیملی کی دوسری جنریشن سے تعلق رکھتے ہیں، جو اپنے فیملی بزنس کو کامیابی سے آگے بڑھارہے ہیں۔ مقصود ذوالفقار کراچی یونیورسٹی کے بزنس گریجویٹ ہیں۔

جنگ: مقصود ذوالفقار صاحب، سب سے پہلے تو مختصراً اپنے خاندان کی تاریخ بتائیں کہ آپ ’رستگار‘ کیوں کہلاتے ہیں؟

مقصود ذوالفقار:بہت شکریہ۔ یہ تقسیمِ ہند سے پہلے کی بات ہے، جب یہاں کے لوگ ایران کام کرنے جاتے تھے، بالکل اسی طرح، جس طرح آج کل لوگ خلیجی ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔ میرے دادا محترم سردار علی کو ایران کی پورٹ بندر عباس میں نوکری مل گئی، جس کے لیے وہ ایران چلے گئے۔ میرے والد صاحب، محترم ذوالفقار علی، جب تعلیم حاصل کرنے کی عمر کو پہنچے تو میرے دادا محترم نے انھیں ایران کے ایک اسکول میں داخل کرانے کا فیصلہ کیا۔ ایران میں ’سرنیم‘ کی ایک روایت چلی آرہی ہے،اسکول میں میرے دادا سے بھی ان کا سر نیم دریافت کیا گیا۔ وہاں ایک بزرگ نے میرے دادا کو ’رستگار‘ کا سرنیم اپنانے کا مشورہ دیا۔ اس طرح، وہاں سے ’رستگار فیملی‘ کی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔

جنگ: جیسے کہ یہ آپ کا فیملی بزنس ہے۔ کچھ اپنے کاروباری سفر کے بارے میں بتائیں کہ یہ کب شروع ہوا اور اب تک کا سفر کیسا رہا؟

مقصود ذوالفقار: میرے دادا محترم سردارعلی اور میرے چچا محترم امتیاز علی رستگار نے 1967ء میں اسلام آباد میں فیملی بزنس کی بنیاد رکھی تھی۔ جہاں تک رستگار اینڈ کمپنی کا تعلق ہے تو بنیادی طور پر یہ ایک مشینری ڈسٹری بیوشن کمپنی ہے ، 1980ء میں اس کی رجسٹریشن ہوئی اور پھر کراچی میں ہم نے اس کا باقاعدہ آفس 1984ء میں بنایا۔ میرے چچا محترم امتیاز علی رستگار کا تعلق بنیادی طور پر اسی انڈسٹری سے ہے۔ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں وہ انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کے سربراہ بھی کرچکے ہیں۔ میرے چچا محترم امتیاز رستگار کی یہ سوچ تھی کہ ہماری کمپنی ایک ایسا ادارہ ہو، جہاں کلائنٹس کو باقاعدہ، بروقت، ہروقت اور اعلیٰ معیار کی سروس دی جاسکے۔ اس کمپنی کی بنیاد اسی ویژن کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ ہم نے دو افراد کے ساتھ اپنے کراچی آفس کا آغاز کیا، جن میں سے ایک میں تھا۔ وقت کے ساتھ کاروبار وسیع ہوتا گیا، آج تین شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ہمارے آفس ہیں اور صرف کراچی آفس میں 70لوگ کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ملک کے آٹھ صنعتی شہروں میں ہم سروس فراہم کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر حیدرآباد میں کسی کا کمپریسر خراب ہوتاہے تو اس کی سروس کے لیے ہمارا بندہ کراچی سے نہیں جائے گا، بلکہ اس کے لیے ہمارا ایک بندہ حیدرآباد میں موجود ہے۔ یہ ’ہوم انجینئرز‘ کا کانسیپٹ ہے، جس کے تحت جہاں جہاں انڈسٹری کو آپ کی ضرورت ہوتی ہے، آپ وہاں کے مقامی باشندے کو تربیت فراہم کرکے وہیں اپائنٹ کرتے ہیں۔

جنگ: ایئر کمپریسرز آپ کا بنیادی کاروبار ہے۔ ہمار ے قارئین کے لیے کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ مشینری کہاں سے درآمد کرتے ہیں؟

مقصود ذوالفقار: ہم کومپ ایئر کی مشینری فراہم کرنے والی 4Sکمپنی ہیں، جس کا شمار اس وقت دنیا میں چند بہترین مشینری بنانے والی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ یہ امریکی کمپنی گارڈنر ڈینور کی ذیلی کمپنی ہے۔ یہ کمپنی دنیا کے 70ملکوں میں موجود ہے۔ ہمارے ویژن کی طرح، کومپ ایئر بھی اعلیٰ معیار کی سروس اورینٹڈ کمپنی ہے اور وہ اپنے ہر ریجن پر انتہائی فوکسڈ ہے۔ ہم اس خطے میں، جس میں ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقا شامل ہے، گزشتہ تین سال سے، بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کمپنی ہیں، جس کے لیے ہم کئی ٹرافیاں بھی جیت چکے ہیں(انھوں نے سامنے دیوار کے ساتھ ریک پر لائن میں رکھی ٹرافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا)۔

جنگ: شروع سے ہی آپ ایئر کمپریسر کے کاروبارسے وابستہ ہیں؟

مقصود ذوالفقار: جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا کہ میرے چچا محترم امتیاز علی رستگار کا تعلق انڈسٹری سے ہے، ہم نے ابتداء آٹوموٹو پارٹس مینوفیکچرنگ سے کی اور وہ کمپنی ’رستگار انجینئرنگ‘ کے نام سے موجود ہے۔یہ کمپنی دنیا کے 40ملکوں کو گاڑیوں کے پارٹس برآمد کرتی ہے۔ آٹوموٹو پارٹس میں ہم ٹرک سیگمنٹ کو Cater (اشیا فراہم کرنا) کرتے ہیں۔ یہ ہماری گروپ کمپنیز ہیں۔

جنگ: کچھ پورٹیبل ایئر کمپریسر کے بارے میں بتائیں کہ یہ کن صنعتوں کے لیے موزوں رہتے ہیں اور اس میں آپ کا تجربہ کیسا رہا ہے؟

مقصود ذوالفقار: پورٹیبل کمپریسر کی ٹیکنالوجی تعمیرات، سڑکوں کی تعمیر اور سی پیک کے جاری مختلف منصوبوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہورہی ہے۔ کئی جاری منصوبوں جیسے موٹر ویز وغیرہ میں ہمارے ان پورٹیبل کمپریسرز کا استعمال پہلے ہی ہورہا ہے۔ عام کمپریسر کے برعکس، جوکہ بجلی پر چلتا ہے، پورٹیبل کمپریسر انجن پر چلتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جہاں آپ نے کام کرنا ہے، وہاں پورٹیبل کمپریسر لے جائیں اور انجن کو اسٹارٹ کردیں، کام ختم ہونے پر اسے واپس لے آئیں۔ پہلے یہ چھوٹا ساسیگمنٹ ہوتا تھا لیکن سی پیک آنے کے بعد ہمارے لیے یہ ایک بہت بڑا سیگمنٹ بن گیا ہے۔

جنگ: سی پیک کی بات چل نکلی ہے تو کیا آپ بتانا چاہیں گے کہ آپ پاکستانی نقطۂ نظر سے اس منصوبے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

مقصود ذوالفقار: سی پیک پر ابھی کام جاری ہے، روڈ نیٹ ورک کے علاوہ ریلوے کی لائن بھی بچھائی جائے گی، تیل کی پائپ لائن بھی آئے گی۔ ان کوریڈورز کے ساتھ چین صنعتی زون بھی ڈیویلپ کرے گا۔ جب یہ صنعتی زونز قائم ہونگے اور صنعتی سرگرمیاں زور پکڑیں گی تو یقیناً اس کا فائدہ پاکستان کو بھی ہوگا۔ جہاں تک تحفظات کا تعلق ہے تو، اگر ایک پاکستانی کمپنی، یہاں سے دنیا کے 40ملکوں کو برآمدات کرسکتی ہےاور وہاں مقابلہ کرسکتی ہے تو پاکستان میں بھی مسابقت (کامپی ٹیشن) کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ جو کمپنیاں Pro-active ہیں، انھیں کوئی خطرہ نہیں، آپ لوگوں سے بات کریں، ہر انڈسٹری میں توسیع ہورہی ہے۔ جب تک آپ گھر بیٹھے رہیں گے، آپ کو مار پڑتی رہے گی، دنیا بہت بڑی ہے، ہمیں باہر نکلنا ہوگا اور بین الاقوامی منڈیوں کو تلاش کرنا ہوگا۔ ہمیں اکانومی آف اسکیل کی طرف جانا ہوگا۔ اگر چینی یہاں آرہے ہیں، تو آپ چین چلے جائیں، آپ کو کس نے روکا ہے۔

جنگ: آپ کے پاس نائٹروجن جنریٹر کی ٹیکنالوجی بھی ہے۔ اس حوالے سے کچھ بتائیں کہ نائٹروجن ٹیکنالوجی کا کیا استعمال ہوتا ہے؟

مقصود ذوالفقار: ہم نائٹروجن اور آکسیجن ، دونوں طرح کے جنریٹرز فروخت کرتے ہیں۔آپ کو پتہ ہے کہ ہمارے ماحول میں موجود قدرتی ہوا میں 78فیصد نائٹروجن گیس شامل ہے، جبکہ 21فیصد آکسیجن گیس ہے۔ہم کمپریسر کے ذریعے ہوا کو ’را مٹیریل‘ کے طور پر جمع کرلیتے ہیں۔ اس رامٹیریل کمپریسڈ ایئر کا ایک استعمال یہ ہے کہ اس سے آپ گاڑیوں کے ٹائر بھرتے ہیں اور مختلف مشینیں چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کمپریسڈ گیس پر ڈرائر(Dryer)یعنی جنریٹر لگا کر مخصوص گیس حاصل کی جاتی ہے۔ اگر آپ نے آکسیجن گیس حاصل کرنی ہے تو آپ نائٹروجنDryerکا استعمال کرتے ہیں، جس سے ساری نائٹروجن گیس نکل جاتی ہے اور صرف آکسیجن گیس رہ جاتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ نے نائٹروجن گیس حاصل کرنی ہو تو آکسیجن ڈرائر لگایا جاتا ہے۔ فارما، بیوریجز، کیمیکلز اور آئل اینڈ گیس سیکٹر کو خالص نائٹروجن گیس کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً، آپ نے دیکھا ہوگا کہ چپس کا پیکٹ ہمیشہ پھولا ہوا ہوتا ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم لوگوں کی نیتیں ٹھیک نہیں ہیں اس لیے پیکٹ میں چپس کم اور ہوا زیادہ بھر دیتے ہیں۔ایسا نہیں ہے، درحقیقت چپس رکھنے کے بعد پیکٹ میں نائٹروجن گیس کی پرجنگ(Purging) کی جاتی ہے۔ ’پرجنگ‘ کے ذریعے پیکٹ میںسے آکسیجن گیس کو نکال دیا جاتا ہے اور اس میں صرف نائٹروجن گیس باقی رہ جاتی ہے۔ نائٹروجن گیس، چیزوں کی تازگی کو برقرار رکھتی ہے۔ کھلی ہوا میں آکسیجن گیس شامل ہوتی ہے اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہی چپس جب کھول کر تھوڑی دیر باہر رکھے جائیں تو وہ نرم پڑنا شروع ہوجاتے ہیں اور باسی ہوجاتے ہیں۔ بیرونِ ملک میں یہ رجحان بہت عام ہے۔ میں گزشتہ دنوں برطانیہ گیا ہوا تھا، وہاں سبزی بھی اسی طرح کے پیکٹس میں ملتی ہے، جن میں نائٹروجن گیس کی ’پرجنگ‘ کی ہوئی ہوتی ہے، تاکہ سبزیوں کو زیادہ عرصہ تک تازہ رکھا جاسکے۔

جنگ: آپ 4Sکمپنی ہیں، جس میں سیلز، سروس، اسپیئرز اور سولیوشنز شامل ہیں۔ 3Sکمپنی ہونا تو ایک عام بات ہے، یہ بتائیں کہ آپ اپنےکلائنٹس کو سولیوشنز کیسے فراہم کرتے ہیں؟ اور سولیوشنز فراہم کرنے کے لیے کن چیزوں کو مدنظر رکھتے ہیں؟

مقصود ذوالفقار: آپ نے بڑا اچھا پوائنٹ اُٹھایا کہ پہلے تین Sتو تقریباً ہر کمپنی دے رہی ہوتی ہے، جہاں تک چوتھے Sیعنی سولیوشنز کی بات ہے تو کمپریسڈ ایئر ایک اسپیشلائزڈ شعبہ ہے، اس میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ نے کوئی سا بھی ایک کمپریسر لیا اور اسے لگا دیا۔ جب ایک بلڈنگ بن رہی ہوتی ہے تو تعمیر کے وقت ہمیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس میں کمپریسر کو کس جگہ نصب کرنا ہے، اس کا رُخ کیا ہوگا، ہوا کو ایگزاسٹ کس طرف سے کرنا ہے۔ ہمارے سولیوشنز کا کردار ابتدائی منصوبہ بندی کے مرحلے سے شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی پائپنگ ہے، مزید برآں، سائزنگ کی بہت اہمیت ہوتی ہے کہ اگر سائز چھوٹا ہوجائے تو بھی مسئلہ اور اگر سائز بڑا ہوجائے تو اضافی توانائی ضائع ہوگی، یہ وہ پہلو ہیں، جن کے بارے میں کلائنٹ کو معلوم نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس جیسے ہی کوئی پروجیکٹ آتا ہے تو ہم ابتداء سے تکمیل تک، ہر مرحلے پر کسٹمائزڈ سروس فراہم کرتے ہیں۔

جنگ: آپ کے کلائنٹس میں فوڈ اینڈ بیوریجز انڈسٹری بھی شامل ہے۔ آپ وہاں ایئر کوالٹی کا کس طرح خیال رکھتے ہیں کہ اس میں کوئی مضر صحت اجزا نہ رہ جائیں؟

مقصود ذوالفقار: فوڈ اینڈ بیوریجز انڈسٹری میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں پہلے سے متعین کردہ ایئر اسٹینڈرڈ پر عمل درآمد کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔وہ ایئر اسٹینڈرڈ آئی ایس او 8573 ہے، جسے اب ہم آئی ایس او 12500سے بدل رہے ہیں۔ہمارے ماحول میں موجود قدرتی ہوا میں ماحولیاتی آلودگی جیسے فیول آئلز اور Dust Particlesوغیرہ موجود ہوتے ہیں۔ فارما اور فوڈ اینڈ بیوریجز انڈسٹری میں استعمال ہونے والی کمپریسڈ ایئر کو آئی ایس او اسٹینڈرڈز پر عمل کرتے ہوئے مختلف پراسیس کے ذریعے آلودگی سے پاک کیا جاتا ہے۔

جنگ: ٹریننگ پر آپ کتنا فوکس کرتے ہیں؟

مقصود ذوالفقار: ہم نہ صرف اپنی ٹیم کو سبجیکٹ Specificٹریننگ فراہم کرتے ہیں، بلکہ ہم اپنے کلائنٹس کو بھی ٹریننگ دیتے ہیں۔ مختلف سیمینارز منعقد کراتے ہیں یا کمپنیوں میں اِن ہاؤس ٹریننگ کا بندوبست کرتے ہیں، کیونکہ کلائنٹ جس قدر انڈسٹری میں آنے والی تبدیلیوں سے باخبر رہے گا، ہم اسے اس قدر بہتر سروس فراہم کرپائیں گے۔

جنگ: آج کے دور میں، ہر کمپنی جہاں دیگر چیزوں پر توجہ دیتی ہے، وہاں یہ بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کہ کمپنی کو Socially Responsibleہونا چاہیے۔ کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی (CSR) کے تحت، آپ معاشرتی ترقی میں کس طرح اپنا حصہ ڈال رہے ہیں؟

مقصود ذوالفقار: جیسا کہ ہمارا دین کہتا ہے کہ کسی بھی اچھے کام کی ابتداء گھر سے کرنی چاہیے، تو اسی فلسفے کے تحت ہم اپنے آفس اور حلقۂ احباب میں دیکھتے ہیں کہ تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں جس کی جو ضرورت ہو، اسے پورا کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد کچھ ادارے ہیں، ہم ان کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، ان میں سے ایک ادارہ ـگیراج اسکول ہے جس کا آغاز 1999میں ہوا اور2007میں تین منزلہ کرایہ دار عمارت میں ایک دوسری شاخ تک بڑھ گیا، جہاں ضرورت مند بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ہمارا بنیادی مقصد کم آمدنی کے معاشرتی ومعاشی پس منظر سے متعلق افراد کی غربت کو کم کرنا ہے۔ گراج اسکول، کمیونٹی کو مجموعی طور پر تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، غذائیت اور دیگر انعقاد فراہم کرتے ہیں۔ ہم گیراج اسکول اور ان کی مختلف سرگرمیوں میں ان کو سپورٹ کرتے ہے۔ اس اسکول کی بانی محترمہ شبینہ مصطفٰی ہیں۔ اس کے علاوہ ہم درخت لگانے پر بہت کام کرتے ہیں، جو کہ میرا ذاتی شوق بھی ہے۔ اس کے لیے ہم نے چھوٹا سا فنڈ بنایا ہوا ہے۔ ٹری پلانٹیشن کے لیے ہسپتال ، پارکس، اسکولز اور پبلک ایریاز ہمارے ترجیحی مقامات ہیں۔ اسی انیشیٹو کے تحت ، ہم نے حال ہی میں گوادر فری پورٹ اور گوادر فری زون کو نیم کے 100درخت بھیجے ہیں۔

جنگ: سی ایس آر کے بعد ایک اور اہم موضوع کی طرف آتے ہیں اور وہ ہے ماحول دوست اور پائیدار (Sustainable)انڈسٹری کا قیام۔ اس حوالے سے آپ کیا کررہے ہیں؟

مقصود ذوالفقار: جی بالکل، آج کل دنیا بھر میں اس پر بہت بات ہورہی ہے اور اچھا خاصا کام بھی ہورہا ہے کہ آپ کا تعلق کسی بھی انڈسٹری سے ہو، آپ کی کاروباری پریکٹسز ماحول دوست اور پائیدار ہونی چاہئیں۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ کس طرح اوزون تہہ کو محفوظ رکھا جائے اور آپ کس طرح کاربن کریڈٹس بچا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ہماری انڈسٹری میں بھی ٹیکنالوجی میں جدت لائی جارہی ہے۔ کومپ ایئر کے کمپریسرز کی ایک کوانٹما (Quantima)سیریز ہے، یہ اتنی زبردست اور مؤثر ٹیکنالوجی ہے کہ اس پر کاربن کریڈٹس بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ انتہائی کم توانائی خرچ ٹیکنالوجی ہے، جو IE3کیٹیگری میںآتی ہے، جبکہ جلد اس کو IE4پر لے جارہے ہیں۔

تازہ ترین