• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوں جوں وقت گزر رہا ہے مہنگائی کاجن بوتل سے باہر آرہا ہے۔ڈالر تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ملکی معیشت ہردن کے ساتھ ہچکولے کھارہی ہے۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔اطلاعات آرہی تھیں کہ حکومت بجلی کی قیمتوں میں 3.50روپے فی یونٹ اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نئی قیمتوں کا اطلاق سال 2016سے کرنے کی تجویز تھی۔یعنی اگر کوئی کرائے دار کسی گھر میں اسی مہینے منتقل ہوا ہے تو اسے آئندہ ماہ کے بل میں پچھلے دو سال کی بجلی کی اضافی رقم بھی ادا کرنا ہوگی۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں فوری اضافہ موخر کردیا گیا ہے۔مگر وزیراعظم عمران خان کو نوٹس لینا چاہئے کہ ایسی سمر ی کس نے تیار کی ہے۔جس میں ریٹ آج بڑھایا جارہا ہے اور وصولی دو سال پہلے سے ہوگی۔جبکہ دوسری جانب ڈالر کی اونچی اڑان تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ماہرین معاشیات کی رائے ہے کہ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو آئندہ چند ہفتوں میں ڈالر 150کی حد عبور کرجائے گا۔اگر ایسا ہوا تو یہ بہت خوفناک ہو گا۔اسٹاک ایکسچینج ایک ہفتے میں دو مرتبہ کریش کرچکی ہے۔چھوٹے بزنس مین کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے،بڑے بڑے سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب چکے ہیں۔آج ملکی معیشت کو سہارا دینے کی اشد ضرورت ہے۔اپوزیشن اور حکومت مل کر ہی ملک کو حالیہ بحران سے نکال سکتی ہیں۔اگر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان رسہ کشی یونہی جاری رہی تو کوئی بعید نہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جائے۔یہ وقت نہیں ہے کہ اس بحث میں الجھا جائے کہ حالیہ بحران نگراں حکومت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے یا پھر موجودہ حکومت کا پیدا کردہ ہے۔آج وطن عزیز معاشی استحکام کا طلب گار ہے اور معاشی استحکام تب ہی ممکن ہوگا جب سیاسی استحکام آئے گا۔

منگل کے روز پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا،مجھے اس پر شدید تکلیف پہنچی۔بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن بنچوں کی طرف سے تمام روایات کو پامال کردیا گیا۔دنیا میں اس سے کوئی اچھا تاثر نہیں گیا۔جب اتنے اہم ایوان میں ایسی صورتحال ہوگی تو پھر سرمایہ کار اور نجی بینک سسٹم پر کیسے اعتماد کریں گے۔سیاست اور تاریخ کے طالبعلم ہونے کے ناطے میں ایسے اقدامات کی مذمت کروں گا۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اپوزیشن کو ایسا کرنے کی نوبت ہی کیوں آئی؟ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے مینڈیٹ کا احترام نہ کیا جانا،آزاد اراکین کی مدد سے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بننا۔یہ سب ایک علیحدہ بحث ہے۔جب مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بن گئی تو اسے چلنے دینا چاہئے۔مگر ایوان کو ہمیشہ حکومت چلاتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ حکومت سب کو دیوار سے لگانے کی کوشش کرے اور پھر توقع کی جائے کہ سیاسی استحکام برقرار رہے گا۔ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔حکومت کو دل بڑا کرنا پڑتا ہے۔اقتدار ملنا بڑی بات نہیں ہوتی بلکہ اقتدار کو سنبھالنا اور چلانا بڑی کامیابی ہوتی ہے۔تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالنے کے بعد مزید فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ایسی اعتماد کی فضا قائم کی جاتی کہ سرمایہ کار حکومت پر اندھا اعتماد کرتےمگر افسوس ایسا نہیں کیا گیا۔آج احتساب سے انتقام کی بو آتی ہے۔ کوئی ذی شعور شخص حکومت سے پوچھے کہ بھلا اپوزیشن لیڈر کو گرفتار کرکے بھی سیاسی استحکام لایا جاسکتا ہے؟ آج اگر حکومتی بنچوں پر 170سے زائد اراکین موجود ہیں تو اپوزیشن بنچوں پر ان کی تعداد 150سے زائد ہے۔گزشتہ دور حکومت میں اپوزیشن بنچوں کی تعداد مشکل سے 80کے قریب تھی۔مسلم لیگ ن کے اندر ایک مضبوط حلقے کی رائے تھی کہ پیپلزپارٹی کے خلاف احتسابی عمل کا آغاز کیا جائے۔سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی جانب سے 65ہزار سے زائد ملازمین کو مستقل کرنے کی گونج بار بار سنائی دی۔نوازشریف کے قریبی ترین رفقاء نے مشورہ دیا کہ اپوزیشن لیڈر کے خلاف احتساب کا آغاز کیا جائے۔مگر سردارایاز صادق جیسے مفاہمت پسند اور دور اندیش دوستوں نے نواز شریف کو ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا ۔سردار ایاز صادق کی رائے تھی کہ یہ سب باتیں اپوزیشن لیڈر پر صرف الزامات کی حد تک ہیں۔کرپشن کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے۔اگر اپوزیشن لیڈر کے خلاف ایسے اقدامات کریں گے تو پھر حکومت کا اللہ ہی حافظ۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں ہوں یا پھر مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف،پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ہوں۔یہ سب وطن سے محبت کرنے والے ہیں۔کسی کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جاسکتا۔آج وطن عزیز حکومت اور اپوزیشن سے مل کر چلنے کی درخواست کررہا ہے۔وزیراعظم عمران خان صاحب کو علم ہونا چاہئے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔معاشی استحکام براہ راست سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے۔شاہ محمود قریشی پرانے پارلیمنٹرین اور جمہوریت کے داعی ہیں۔ مشرف آمریت میں انہوں نے دیگر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ جدوجہد کی ہے۔وہ جمہوریت کی اہمیت اور اس کے ثمرات سے بخوبی آگاہ ہیں۔انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اپوزیشن کے بغیر ایوان بالا،ایوان زیریں او ر پنجاب اسمبلی میں استحکام نہیں آسکتااور سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔شاہ محمود قریشی جیسے پرانے سیاستدانوں کو موجودہ حالات میں حکومت کے لئے مشکل کشا کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان فاصلوں کو کم کریںتاکہ دنیا پاکستان میں سیاسی استحکام دیکھ سکے۔عمران خان اس وقت سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں اور سب سے زیادہ نقصان بھی انہی کا ہورہا ہے۔وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں اور عوام سے کئے گئے اپنے وعدوں پر توجہ دینا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین