بابا رحمتے کا کردار برصغیر میں ہمیشہ سے ایک اچھی علامت کے طور پر رہا ہے۔ آج بھی پورے برصغیر کے دیہات میں یہ کردار بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ گائوں کے لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے بابا رحمتے کو ہمیشہ سے فرشتہ سمجھتے آئے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اسی کردار کے حوالے سے ایک نئی روح پھونکی ہے اور وہ کئی دفعہ اپنے اس خطاب کا ذکر کرچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بابا رحمتے کی ہر معاشرے کو ہر دور میں ضرورت رہی ہے۔ اگر یہ بابا رحمتے نہ ہو تو یقین کریں اس ملک میں پولیس سب سے بڑی بدمعاش بن جائے اور اسے کوئی نکیل نہ ڈال سکے۔ یہ بابا رحمتے کا کردار ہے کہ پولیس کچھ حد تک قابو میں ہے۔ لاہور رجسٹری میں عدالت عظمیٰ کے باہر سب سے زیادہ شکایات ہی پولیس والوں کے خلاف ہیں۔ عدالت عظمیٰ لاہور رجسٹری کے باہر سب سے زیادہ مظاہرے بھی پولیس کی کرپشن اور ناانصافی کے خلاف ہوتے ہیں۔ آپ پورے ملک کا جائزہ لیں کسی نہ کسی پریس کلب کے باہر، چاروں اسمبلیوں کے باہر آپ کو لوگ پولیس کے خلاف شکایات کرتے نظر آئیں گے۔
سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف پورے دس سال سے یہ راگ الاپتے رہے کہ تھانہ کلچر تبدیل کر دیا۔ پتہ نہیں تھانہ کلچر کس تھانے اور کس شہر کا تبدیل ہوا۔ جب ٹریفک وارڈنز کے نظام کو لے کر آئے تھے تو اس وقت کہا گیا تھا عام ٹریفک پولیس سے بہتر ہوگی، آج وہ بھی ماضی کی ٹریفک پولیس جیسی ہو چکی ہے۔ وہی بدتمیزی، وہی گالم گلوچ، وہی مارپیٹ۔
نئے آئی جی امجد جاوید سلیمی نے بھی حسب روایت ماضی کے تمام سابق آئی جیز کی طر ح فرمایا کہ شکایت پر کسی اہلکار کو معافی نہیں ملے گی۔ارے بھائی سب سے زیادہ شکایات ہی ایس ایچ اوز کے خلاف ہیں۔ کیا دلچسپ بیان دیا محترم آئی جی نے کہ انسپکٹر تھانے کے انچارج اور پولیس کا اصل چہرہ ہیں۔ تھوڑی دیر کے لئے ہر تھانے دار کا حسن سلوک تو اپنی نگاہوں کے سامنے لائیں تو پولیس کا اصل چہرہ سامنے آجائے گا۔ پچھلے آئی جی مشتاق سکھیرا نے یونیفارم تبدیل کردی اور پتہ نہیں کس کس کی دیہاڑی لگ گئی۔ اب نئے آئی جی نے بھی یونیفارم تبدیل کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ جو پہلے اربوں روپے ضائع ہوئے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اور اب پھر جواربوں روپے کی نئی یونیفارم بنائی جائے گی۔ پچھلے آئی جی نے جو یونیفارم تبدیل کرائی تھی جس سے پنجاب کے خزانے کواربوں روپے کا ٹیکہ لگایا گیا تھا اس کا حساب تو لیا جائے اور پہلے یونیفارم کس کے کہنے پر تبدیل ہوئی تھی اور جس کو اس کا ٹھیکہ دیا گیا تھا وہ کسی سے چھپی ہوئی بات نہیں اور اب کس کو ٹھیکہ دیا جائے گا اس کو بھی عوام کے سامنے لایا جائے۔ پی ٹی آئی کی حکومت ہر وقت شور مچاتی رہتی ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ جب پیسے نہ ہوں تو ایک ایک روپے کی بچت کی جاتی ہے۔ ابھی نئی یونیفارم کو اپنائے ہوئے تین سال بھی نہیں ہوئے، اب پھر یونیفارم تبدیل کی جا رہی ہے۔ ارے بھائی پولیس کی ذہنیت تبدیل کرو، کیا یونیفارم تبدیل کرنے سے پولیس کا رویہ اچھا ہو جائے گا؟ کیا پولیس عوام دوست بن جائے گی؟
ہمارے معاشرے میں دو کردار ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ ایک بابا رحمتے اور دوسرا منشا بم و گلو بٹ، دونوں کے درمیان جنگ جاری رہے گی۔ لیکن ایک بات تو طے شدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں منشا بم اور گلو بٹ ہی بااثر ہیں لیکن جس طرح ہر فرعون کیلئے ایک موسیٰ ہوتا ہے، اسی طرح بابا رحمتے بھی ہر منشا بم اور گلو بٹ کے لئے ہے اور بابا رحمتے کو رہنا چاہئے۔ منشا کو منشا بم کس نے بنایا؟ اس کے خلاف 85مقدمات درج ہیں۔ اس نے لاہور کے علاقے جوہر ٹائون میں اربوں روپے کی زمینوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ اس کو ان زمینوں سے ڈیڑھ دو کروڑ روپے کرایہ ملتا تھا۔ آج ہر سرکاری محکمے میں ایک منشا بم ہے۔ منشا بم ایک علامت ہے ہر غیر قانونی کام کی اور بابا رحمتے علامت ہے ہر برائی کے خلاف جنگ کی۔ ہمارے سیاستدان، بیوروکریسی اور خاص طور پر پولیس منشا بم اور گلو بٹ بنانے میں ہمیشہ سے سرگرم رہی ہے تاکہ اپنے مفادات حاصل کرسکے۔
حالات یہ ہیں کہ حال ہی میں پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کا بورڈ آف گورنر بنایا گیا ہے۔ بورڈ میں ایسے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جن کی ہمدردیاں پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ جب بھی کسی ادارے کا بورڈ بنایا جاتا ہے تو اس میں صرف اور صرف غیر جانبدار افراد کو رکھا جاتا ہے تاکہ وہ بہتر انداز میں کام کر سکیں اور کسی کا اثر قبول نہ کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک این جی او کے کرتا دھرتا جو کل تک (ن) لیگ سے اپنے قریب ترین تعلقات بتاتے نہیں تھکتے تھے۔ آج پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ وہ اپنے تعلقات بیوروکریسی کے ذریعے بنانے میں سرگرم ہیں۔ دوسری طرف (ن) لیگ کی حکومت کا ایک ایسا وفادار جو پی ٹی آئی کے جلسوں اور دھرنوں کی جاسوسی کرتا رہا ہے اب اس کی وفاداری پی ٹی آئی کے ساتھ ہوتی ہے یا (ن) لیگ کے ساتھ دیرینہ تعلقات کی پاسداری کرے گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
حکومت نے ڈاکٹر کرن خورشید جیسی دبنگ آفیسر کو پنجاب کوآپریٹو کا رجسٹرار مقرر کیا ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس کو ہائوسنگ سوسائٹیز کے ریکارڈ کے بارے میں لگنے والی آگ کی رپورٹ جس اچھے انداز میں پیش کی اس پر ان کی خدمات کو سراہا گیا ہے۔ حکومت کو اسی قسم کی آفیسر کا انتخاب مختلف محکموں کے لئے کرنا چاہئے۔
پی ٹی آئی حکومت کے بیوروکریسی اور پولیس میں تعلقات بہت کمزور ہیں حالانکہ الیکشن جیتنے کے بعد پی ٹی آئی کو بیوروکریسی اور پولیس میں اپنے وفاداروں کو تلاش کرنا چاہئے تھا جبکہ آج بھی بیوروکریسی، پولیس اور کئی اہم شعبوں میں (ن) لیگ کے وفادار براجمان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو مشکلات اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے کہنے پر پرائیویٹ اسپتالوں نے اپنے نرخوں میں کمی تو کر دی مگر یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ اب ہونا کیا ہے ان پرائیویٹ اسپتالوں نے لیبارٹری اور دیگر غیر ضروری ٹیسٹوں کی تعداد بڑھا دی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بل بنے۔ جن بڑے پرائیویٹ اسپتالوں کی آمدنی کروڑوں میں ہے ان کی ایمرجنسی فری ہونی چاہئے۔
چیف جسٹس نے کہا سستا اور معیاری علاج ہر غریب کا حق ہے۔ دوسری طرف پرائیویٹ اسپتالوں نے چیف جسٹس کو جو اپنے ریٹ دیئے ہیں ہمیں اس سے اختلاف ہے۔ پہلے کئی پرائیویٹ اسپتالز ایمرجنسی میں برائے نام پیسے لے رہے تھے اب ان کی ایمرجنسی میں فیس پانچ سو روپے اور اگر ایمرجنسی میں مریض کا قیام چھ گھنٹے تک کا ہوگا تو فیس دو ہزار روپے ہوگی۔ اب یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر مریض کا قیام چھ گھنٹے سے بڑھ جاتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایمرجنسی میں لیبارٹری ٹیسٹ اور ادویات فری نہیں ہوں گی۔ کمروں کے کرایہ میں صرف 10فیصد کمی کی گئی۔ اب پندرہ ہزار روپے/ بیس ہزار روپے کمرے کے کرایہ میں صرف دس فیصد کمی کیا معنی رکھتی ہے۔ پندرہ ہزار روپے کمرے میں صرف پندرہ سو روپے رعایت، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ کم از کم کمروں کے کرایہ میں بیس فیصد کمی اور ایمرجنسی مکمل طور پر فری ہونی چاہئے تھی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)