• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس شخص کو دن میں کئی بار اپنے گھر کے سامنے والی سڑک پر دیکھتا تھا۔ وہ نہایت سنجیدگی سے سامنے نظریں جمائے کبھی فٹ پاتھ پر چلتا نظر آتا تو کبھی ایک پرانی، نہایت پرانی سی سائیکل پر زور سے پیڈل مارتا نظر آتا۔ سائیکل کی پچھلی سیٹ پر عام طور پر ایک خاکی سا تھیلا پڑا ہوتا تھا جس میں پلمبر اور الیکٹریشن اپنے اوزار رکھتے ہیں۔ یوں تو اس سڑک پہ بہت سے لوگ چلتے پھرتے نظر آتے تھے لیکن مجھے وقت گزرنے کے ساتھ اس شخص میں تھوڑی سی کشش محسوس ہونے لگی۔ کبھی کبھی یوں لگتا جیسے یہ کوئی پُراسرار قسم کی شخصیت ہے۔ شاید اس کشش کی وجہ اس کی شخصیت، لباس، انداز اور نظریں جھکا کر چلنا تھا۔ چہرے پر سفید اور کالے بالوں والی درمیانی ریش مبارک، کرتا شلوار عام طور پر سبز رنگ کا اور سر پر ڈھیلی سی پگڑی پائوں میں گرگابی جس پر مہینوں کی جمی ہوئی گرد اور بظاہر صحت مند مضبوط جسم اس کی ’’پُراسراریت‘‘ میں اضافہ کر دیتا تھا۔ ایک روز میں اپنے محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے گیا۔ نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ وہ بھی میرے پیچھے پیچھے مسجد سے نکل رہا تھا۔ اس سے مجھے فوراً خیال آیا کہ یقیناً یہ شخص پکا نمازی ہے بلکہ ’’مسیتل‘‘ ہے جو مجھے ہر نماز سے پہلے سڑک کے فٹ پاتھ پر نظر آتا ہے۔ پنجابی میں مسجد کو ’’مسیت‘‘ کہتے ہیں اور مسجد میں باقاعدگی سے باجماعت نماز ادا کرنے والے کو ’’مسیتل‘‘ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ مجھے چونکہ اس شخص میں تھوڑی سی کشش محسوس ہوتی تھی اس لئے جی چاہا کہ اس سے کسی بہانے بات چیت کروں۔ مسجد سے نکل کر میں اپنی کار کے پاس کھڑا ہو گیا تاکہ نمازی حضرات اپنے اپنے گھر کی راہ لیں تو دیکھوں کہ یہ شخص کدھر جاتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں پتہ چل گیا کہ وہ پیدل سڑک کے فٹ پاتھ پر بازار کی جانب جا رہا تھا اور یہی وہ سڑک تھی جو میرے گھر کے سامنے سے گزرتی تھی۔ چنانچہ میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور اس شخص کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا۔ میں نے شیشہ نیچے اتارا، اُسے متوجہ کرنے کے لئے معمولی سا ہارن بجایا اس نے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا ’’آیئے میں آپ کو پہنچا دوں۔‘‘ اس نے منہ سے کچھ کہے بغیر ہاتھ سے اشارہ کیا کہ شکریہ آپ چلیں میں پیدل ہی بھلا۔ میں نے دوسری بار دعوت دی تو اس نے ہاتھ سے مجھے چلنے کا اشارہ کیا اور فٹ پاتھ پہ چلتا رہا۔ اس سے اُس کی ’’پُراسراریت‘‘ میں مزید اضافہ ہوا۔ خیال آیا تم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ اگر وہ صاحب لفٹ لینے کو تیار نہیں تو انہیں مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہ تقریباً معمول بن گیا کہ میں کبھی اسے سائیکل پر جانب ِمسجد جاتے دیکھتا اور کبھی پیدل۔ وہ پیدل جا رہا ہوتا تو میں کار پہ اس کے قریب پہنچ کر لفٹ کی پیشکش کرتا لیکن وہ حسب ِ معمول ہاتھ کے اشارے سے مجھے چلتا کرتا اور شانِ بے نیازی سے سفر جاری رکھتا۔ کئی ماہ گزر گئے۔ ایک روز شدید بارش برس رہی تھی۔ میں کار پہ مسجد جانے کے لئے گھر سے نکلا تو وہ مجھے فٹ پاتھ پر چلتا نظر آیا۔ میں حسب روایت اس کے قریب پہنچ کر رکا، شیشہ اتارا اور کہا بارش ہے، آ جائیں، میں نے بھی مسجد ہی جانا ہے۔ اس شخص نے معمول کے مطابق مجھے چلنے کا اشارہ کیا لیکن میں نے اصرار کیا تو وہ کار کا دروازہ کھول کر میرے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کوئی دو منٹوں میں ہم مسجد پہنچ گئے۔ میں نے اسے مسجد کے دروازے پہ اتارا اور خود کار پارک کرنے کے لئے جگہ ڈھونڈنے لگا۔ کار پارک کر کے مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ شخص نظریں بچا کر نمازیوں کی جوتیاں سیدھی کر رہا ہے اور جو بارش میں پڑی تھیں انہیں بارش سے بچانے کے لئے ادھر ادھر رکھ رہا ہے۔ نماز سے فارغ ہو کر میں نکلا تو وہ شخص حسب ِمعمول بارش میں بھیگتا فٹ پاتھ پر چلتا نظر آیا۔ میں نے اس کے پاس جا کر کار روکی اور اسے لفٹ کی پیشکش کی تو وہ میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ میرا گھر آیا تو اس نے ضد کی وہ یہیں اترے گا اور باقی فاصلہ پیدل طے کرے گا لیکن میں نے کہا کہ میں آپ کو آپ کی جگہ پر ہی پہنچا کر دم لوں گا۔ مارکیٹ میں بجلی کی دکان کے سامنے اسے اتارا تو اندازہ ہوا کہ وہ شخص یا تو اس دکان پر ملازمت کرتا ہے یا پھر الیکٹریشن ہو گا جو بجلی کی دکانوں پر مزدوری کے منتظر بیٹھے رہتے ہیں۔ اب اُس سے اکثر ملاقات ہونے لگی۔ اگر وہ سائیکل سوار نہ ہوتا تو میری پیشکش قبول کر کے کار میں بیٹھ جاتا۔ شناسائی ہوئی، مانوس ہوئے تو باتوں ہی باتوں میں میں نے پوچھا کہ آپ ہمیشہ سبز رنگ کے کپڑے پہنتے ہیں؟ میں نے سوال کے انداز میں بات کی اور وہ ٹال گیا۔ کچھ عرصے کے بعد بڑی مشکل سے یہ راز کھلا کہ اُس کے سبز لباس کی نسبت گنبد ِ خضرا سے ہے جس کے سبب اسے سبز رنگ سے ’’عشق‘‘ ہے۔ وسائل نے اجازت نہیں دی اس لئے عمرہ یا حج تو نہیں کر سکا لیکن تصور ہی تصور میں گنبد ِ خضرا پر ہمہ وقت نظریں جمائے سبز رنگ کی محبت میں گرفتار ہو چکا ہے اور سبز لباس پہننے لگا ہے۔ ایک روز میں نے جھجکتے بلکہ ڈرتے ہوئے کہا کہ آپ عمرہ کر آئیں۔ جواب ملا ابھی وسائل اجازت نہیں دیتے، جب اللہ کو منظور ہوا تو ان شاء اللہ جائوں گا۔ میں نے دھیمے سے کہا کہ آپ کے عمرے کا انتظام کر دیتے ہیں۔ جواب ملا عمرہ ہو یا حج صرف اپنے وسائل سے جائز ہے۔ میں جواب سن کر خاموش ہو گیا۔

اسی طرح دو تین ماہ گزر گئے۔ ہم کبھی کبھار خاموشی سے سفر کرتے اور جدا ہو جاتے۔ وہ اکثر اپنی نہایت پرانی سائیکل کو کھینچتے ہوئے مسجد آتاچنانچہ ملاقات نہ ہوتی۔ لیکن کبھی کبھار جب وہ پیدل مارچ کر رہا ہوتا تو ملاقات ہو جاتی تھی۔ ایک دن میں نے کہا کہ آپ اپنی پرانی سائیکل مجھے دے دیں میں آپ کو نئی سائیکل لے دیتا ہوں۔ جواب ملا میری سائیکل ٹھیک ٹھاک ہے مجھے نئی سائیکل کی ضرورت نہیں۔ میرا جی چاہتا تھا کہ پھٹیچر سائیکل سے اس کو نجات دلائوں چنانچہ میں نے بار بار ضد کرنا شروع کر دی۔ پھر میں نے نوٹ کیا کہ اب وہ شخص نظر نہیں آتا، نہ سڑک پر نہ مسجد میں۔ کچھ روز میں تشویش اور پھر پریشانی میں مبتلا رہا اور پھر بات آئی گئی ہو گئی۔ ایک روز مجھے علاقے کی دوسری مسجد میں جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ وہ حضرت سائیکل چلاتے آ رہے ہیں۔ میں نے آگے بڑھ کر استقبال کیا ، گرم جوشی سے ہاتھ ملائے اور پوچھا اب آپ نزدیک والی مسجد میں نہیں آتے؟ وہ ہلکا سا مسکرایا اور جواب دیا آپ کی نئی سائیکل کی آفر نے مجھے مسجد بدلنے پر مجبور کر دیا۔ یہ سن کر مجھے یوں لگا جیسے کسی نے مجھ پر گھڑوں پانی ڈال دیا ہے۔

تازہ ترین