باباآغا فیروز اندھوں کے شہر میں آئینے بیچتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب وہ پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس پر ذوالفقار علی بھٹواور محترمہ بے نظیر بھٹو کی تصاویر کی نمائش لگاتا ہے تو یہ توقع بھی کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے قائدین اس کی نمائش دیکھنے بھی آئیں گے۔ وہ صبح سے شام کردیتا ہے پر اپنی آس نہیں توڑتا۔ اس کی پتھرائی نگاہیں دروازے کی طرف تکتی رہتی ہیں کہ ابھی کچھ دیر پہلے تو قا ئدین الحمرا ہا ل میں بھٹو اور محترمہ کی شہادت اور ان کے فلسفے پر تا عمر عمل کرنے کی قسمیں کھا رہے تھے۔ باباآغا فیروز پیپلزپارٹی کا دیرینہ کارکن ہے جس نے بھٹو مرحوم سے لے کر آصف علی زرداری تک سب کے ساتھ کام کیا ہے اس ناطے سے وہ خود کو سینئر بھی سمجھتا ہے۔ یہ کارکن بھی کیا مخلوق ہوتی ہے ہمیشہ وفاداری اور امید کی کھونٹی پر بندھی رہتی ہے۔ جیلیں بھگتتی ہے ماریں کھاتی ہے تشدد برداشت کرتی ہے۔ طرح طرح کی بیماریوں کو اپنے جسم میں ایسے جگہ دیتی ہے جیسے اہل شہر ہجرت کرنے والوں کو خود اپنے گھر میں بساتے ہیں یہ کارکن مرتے مر جاتے ہیں لیکن وفاداری نہیں چھوڑتے بہت مایوس ہوں تو گھر بیٹھ جاتے ہیں اورکسی آہٹ کسی آواز کے منتظر رہتے ہیں کہ شاید کوئی پکارے شاید کوئی بلالے۔ قائدین سے عشق ان کی اضافی خوبی بھی ہوتی ہے۔اور قائدین ۔۔۔ وہ جونیجو لیگ میں ہوں تب بھی وزیر اعلیٰ پنجاب، نوازشریف سے جا ملیں تب بھی لیگی رہنمااور اگر آصف علی زرداری سے مل بیٹھیں تو پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر۔ کبھی پیپلز پارٹی پنجاب میں ووٹوں سے اقتدار بناتی تھی آج وہ لوٹوں سے اقتدار بنانے کے خواب دیکھتی ہے۔ آصف علی زرداری پاکستانی سیاست کے گروہیں بلکہ مہا گرو ہیں لگتا ہے ایوان صدر ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگا رہا ہے۔ ورنہ وہ ووٹوں اور لوٹوں کے فرق کو نہ بھولتے۔ باباآغا فیروز سمجھتا ہے کہ اگراس نے 40سال پیپلزپارٹی کی خدمت کی ہے تو اسے سنیارٹی کی بنیاد پر عزت بھی ملے گی۔ وہ ایک فوٹو گرافر ہے اس کے کیمرے کی آنکھ نے بھٹو مرحوم اور ان کے خاندان کے بہت سے سنہری پل ہمیشہ کے لئے محفوظ کر رکھے ہیں ۔ لیکن اب ان سنہری پلوں اور یادگار لمحوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ بھٹو اور بے نظیرکے فلسفے کی جگہ اب مصلحتوں اورجوڑ توڑ نے لے لی ہے۔نظریے کو پھانسی ہوگئی فلسفے کو بم دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ جب نظریہ ہی نہ رہے تو نظریاتی کارکنوں کی کیا اوقات۔ایک پیپلز پارٹی ہی کا کیا رونا ”جنوں بھنو اوہی لال اے“( جسکو بھی کھول کر دیکھو وہی لال ہے)۔ کہتے ہیں نظریاتی کارکن کسی بھی جماعت کے ماتھے کا جھومر ہوتا ہے لیکن جب جماعتوں کے ماتھے فوجی آقاؤں کے چوکھٹ پر رگڑ رگڑ کے خون آلود ہو جائیں تو ان پر جھومر کیسے سجائے جا سکتے ہیں۔ آج پیپلز پارٹی سے لیکر مسلم لیگ ن تک سب لمیٹڈ کمپنیاں ہیں جبکہ شےئرز صرف ان کے مالکان کے پاس ہیں باقی سب بونس پر گزارا کر رہے ہیں۔مجال ہے جو میاں برادران سے کوئی یہ پوچھے کہ مال روڈ پر ان کے لئے سینے پر گولی کھانے والے جاوید اشرف کا کیا قصور تھا ۔ انہوں نے اپنے جاوید اشرف کے خون کو بھول کر پنجاب کی حکومت پر نظر رکھنی بھی چاہے تھی اقتدار کے راستے میں نجانے کتنے جاوید اشرف کام آجاتے ہیں ۔ اب ان کے لئے اقتدارکو ٹھوکر نہیں ماری جا سکتی سو جو کام وفاق میں پیپلز پارٹی نے چودھری برادران سے مل کے کیا میاں برادران نے وہی کام پنجاب حکومت میں پیپلز پارٹی سے مل کر دیا۔کوئی سعد رفیق سے ان کے والد کی شہادت کی وجہ تو پوچھ کر دکھائے۔ اپنی زندگی کے بارہ قیمتی سال مسلم لیگ ق کو دینے والے چودھری اکرم سے تو کوئی پوچھے انہیں ان کی خدمات کا کیا صلہ ملا ؟ مصلحتوں اور مفادات کے سامنے نظریات صرف بلبلے ہیں جنہیں ایک خود غرضی اور ہوس اقتدار کی پھونک بجھا سکتی ہے۔ کچھ امید عمران خان سے پیدا ہوئی تھی لیکن انہوں نے ثابت کیا کہ وہ رہنما نہیں صرف سیاست دان ہیں
وقت تیزی سے بدل گیا اور تم وقت سے بھی تیز نکلے۔
انہوں نے اتنی پھرتی دکھائی کہ ابھی ان کے حوالے سے آنکھوں نے خوابوں کی پردہ کشائی ہی کی تھی کہ عمران اپنی اصل شکل میں سامنے آکھڑے ہوئے شکرہے کہ ان کی پھرتی کے سبب ایک طویل خواب کی شرمندگی سے بچ گئے۔
سو میرے پیارے مسٹرآغا فیروز۔ یہ جو آپ اپنے گلے میں کیمرہ لٹکائے پھرتے ہو اور اس بات پر اتراتے ہو کہ تم نے کئی دہائیاں پیپلزپارٹی کی خدمت کی ہے، خود فریبی سے باہر آجاؤ۔ وڈیروں اور لیٹروں کے فرق کو سمجھو ضروری نہیں کہ تم کینوس پر رنگ بکھرنے کے بعدیہ سمجھو کہ تمہاری زندگی میں بھی آسودگی اطمینان احترام اور توجہ کے رنگ بکھر جائیں گے۔ تم اور تم جیسے نظریاتی کارکن صرف (EPITISER) ہیں تم زندگیوں کی اپنے جان و مال کی قربانیاں دیتے ہو تاکہ اقتدار کی دیوی کی بھوک اور بڑھ سکے۔ تم آنسو گیس شیلنگ سینے پر جھیلتے ہو۔ لانگ مارچوں تحریکِ نجاتوں اور دیگر مارچ ، اپریل مئی جونوں میں سڑکوں پر احتجاج کیلئے پولیس چھاپوں سے بچنے کیلئے اپنی راتیں کالی کرتے ہو۔ سڑکوں پر پولیس کا مقابلہ کرتے ہو اور تمہارے قائدین ایک فون کال پر سب کچھ چھوڑ کر وردی والوں کے دربار پہنچ جاتے ہیں۔ تمہاری جدوجہد کا سودا کرتے ہیں تمہارے خون ہی نہیں بیچتے تمہارے خواب بھی گروی رکھ دیتے ہیں وہ تمہارے آقا تم ان کی رعایا۔ قربانی دینا تمہارا فرض قربانیوں کے سودے کرنا ان کی ادا۔ خون تھوکتے تھوکتے مرنا تمہارا مقدر۔ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر جمہوریت کے دعوے کرنا انکا سٹائل۔ وزیراعظم بہت ”جولی“‘ ہیں انہیں بہت دلچسپ جملے بھی کہنے آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کبھی بٹیرہ پیروں کے نیچے خود بخود آجاتا ہے۔ وہ سمجھ لیں بٹیرہ پیروں نیچے آئے تو حیران ضرور ہوں لیکن اگرلٹیرا سر پر بیٹھ جائے تو احتیاطاً پریشان بھی ہولیں۔ یہ جو سات ارب روپے روزانہ کی کرپشن ہو رہی ہے یہ پیپلز پارٹی کے جیالے کر رہے ہیں نہ مسلم لیگ کے متوالے یہ وہ ہی لٹیرے ہیں جو ہر شعبہ میں سینہ تان کر بیٹھتے ہیں۔ پچھلے 5سال میں دو صنعتوں نے ہی تو ترقی کی ہے ۔ ایک دہشت گردی اور دوسری رشوت خوری۔
دونوں صنعتوں میں پیسہ ہے دھن ہے دولت ہے۔ قائدین کیلئے بنگلے ہیں بنک بیلنس ہیں اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں بے پناہ عزت ہے۔ ان صنعتوں نے تو ہمارے راہنماؤں کے دن پھیر دئیے ہیں یہ تو کارکن ہیں جن کے دن کیا راتیں تک نہیں بدلیں۔تاریک راتیں ان کامقدر تھیں اور ان تاریک راتوں پر ان کا اور ان خوابوں کا قتل عام بہت عام سی بات ہے۔ شکر ہے یہ قتل رات کی تاریکی اور تاریک راہوں پر ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر اسرار شاہ سے لیکر چودھری اکرم تک۔ سب بادشاہوں کے چونچلوں اور دل پشوری موڈ بنانے کے بہانے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ان عظیم راہنماوں کے لئے لٹنے پٹنے اور زیادہ سے زیادہ مر جانے کا سلسلہ تھمنا نہیں چاہیے کیونکہ جمہوریت بہترین انتقام ہے مخالفین کیلئے بھی اور اپنے پارٹی کارکنوں کے لئے بھی۔ سو مسٹرفوٹو گرافر ۔ بڑے شوق سے بھٹو اور محترمہ کی تصاویر کی نمائش کرو۔ دونوں راہنماؤں کے بڑے بڑے پوٹریٹ بناؤ بس احتیاط رکھنا ان تصاویر کے بیک گراؤنڈ میں ان کے قاتلوں کے چہرے دھندلا دینا۔ کہیں کسی کو وہ چہرے شناسا نہ محسوس ہو جائیں۔ جمہوریت کی بقا کیلئے احتیاط بہت ضروری ہے۔