دنیائےاہل سنت کا ایک معروف علمی نام علامہ غلام رسول سعیدی 80برس کی عمر میں انتقال کرگئے ۔ایک عالم دین کی موت جہان کی موت کے مترادف تصور کی جاتی ہے،ان ہی نابغہ روزگار علمی شخصیات میں سے ایک علامہ غلام رسول سعیدی تھے جنہوں نے زندگی کے آٹھ عشرے قال اللہ و قال الرسول کے ساتھ دین خداوندی کی پیروی میں صرف کئے۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن اپنے دینی کارناموں کے سبب صدقہ جاریہ کے کارہائے نمایاں جن میں ایک محقق، مفسر قرآن محدث کبیر، فقیہہ، فقید المثال مدرس، شارح صحیح بخاری، صحیح مسلم، مفسر تبیان القرآن، تبیان الفرقان، شیخ الحدیث جیسےزندہ جاوید کارناموں کے باعث ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تابندہ درخشندہ رہیںگے۔ تشنگان علوم دینیہ اپنی علمی پیاس بجھاتے رہیں گے۔دنیا میں جب تک اہل علم موجود ہونگے آپ کی تصنیفات سے استفادہ کرتے رہیں گے۔مرحوم کی یاد میں تعزیتی نشست نورہال کی انتظامیہ نے گوشہ صدیقیہ کے لائبریری میں منعقد کی۔ جس میںبرطانیہ بھر کے چیدہ چیدہ اہل دانش کو مدعو کیا گیا تاکہ علامہ غلام رسول سعیدی کی علمی، تدریسی، تحقیقی،تصنیفی خدمات پر سیرحاصل گفتگو کرسکیں تاکہ علمی ذوق و شوق اور مطالعہ رکھنے والے نوجوان طلباءاستفادہ کرسکیں۔اس مکالماتی نشست میں اہلسنت کےمایہ ناز محقق علماء ناظمین مساجد اور کمیونٹی کی مقتدر شخصیات نے اظہار خیال کیا۔ اس مکالماتی تعزیتی نشست کی صدارت پیرنورالعافین صدیقی نے کی جبکہ پیرزادہ ظہیرالدین صدیقی نے علماء ومشائخ کا تعارف کرایا۔تقریب کے مہمانوں میں پیرنورالعافین صدیقی، پیرزادہ ظہیرالدین صدیقی، مفتی عبدالرسول الازہری، مفتی گل رحمٰن قادری، علامہ غلام ربانی افغانی، مفتی یارمحمد، پروفیسر رسول بخش سعیدی، قاری محمد سلیم نقشبندی، قاری عبدالمجید، پیرطیب الرحمٰن قادری، احسن المنصور اور محمد شبیر شامل تھے۔صاحبان فکرونظر علم و فن نے مرحومکی دینی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ مرحوم کی علمی تحقیق کا اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 1990ء میں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن کی عدالت میں سود اور اس کے جزئیات کے حوالہ سے بحث طلب مسئلہ پیش ہوا تو عدالت میں موجود ایک وکیل نے مقالات سعیدی کے حوالہ سے دلائل کے انبار لگادیئے۔ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن ورطہ حیرت میں پڑگئے۔ علامہ سعید ی کے کام اور تحقیق سے ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن ازحد متاثر ہوئے۔ دینی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے آپ کو تمغہ امتیاز تفویض کیا۔ آپ نے 1990ء میں پہلا دورہ برطانیہ کیا اور دوسرا 1993ء میں۔ان کی موت ایک ایسے وقت میں ہوئی جبکہ وطن عزیز پاکستان کو رہنمائی کی شدید ضرورت ہے۔مرحوم 10رمضان المبارک 1356 بمطابق 14نومبر 1937ء کو دہلی انڈیا میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ پاکستان میں مختلف دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے مفتی محمد حسین نعیمی، مفتی عزیز احمد بدایونی اور دیگر اساتذہ سے بھرپور اکتساب کیا۔ تفسیر، حدیث، فقہ، منطق اور حکمت کی کتب پڑھنے کے بعد معروف عالم دین علامہ عطامحمد بندیایوی سے منطق و فلسفہ کی معروف کتابیں پڑھیں۔ علم حدیث اور علم تفسیر میں آپ کو حد درجہ کمال تھا۔ 1986ء میں صحیح مسلم شریف کی شرح لکھنا شروع کی اور 1994ء میں سات جلدوں میں اسے مکمل کیا اس کے آٹھ ہزار صفحات ہیں اور اس کے ابھی تک انیس ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں آپ نے قرآن پاک کی تفسیر تبیان القرآن کے نام سے 1994ء اس تفسیر کے لکھنے کا آغاز اور 2006ء میں بارہ ضخیم جلدوں میں اسے مکمل کیا۔2006ء اور 2014ء کے دوران بخاری شریف کی شرح سولہ جلدوں میں مکمل کی پہلی سات جلدیں نعمتہ الباری شرح صحیح بخاری کے نام سے جب کہ بعد کی نو جلدیں نعم الباری شرح صحیح بخاری کے نام سے شائع ہوئیں۔ اس طرح یہ کتاب سولہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ علاوہ ازیں توضیح البیان، تذکرہ المحدثین، مقالات سعیدی، مقام ولایت و نبوت، اعلیٰ حضرت کا فقہی مقام ذکر بالجہر حیات استاذ العلماء اوردیگر تصانیف شامل ہیں ۔معاشرے کے ناسور اور شان الوہیت بھی آپ کی مشہور تصنیفات ہیں ۔قرآن پاک کی ایک اور تفسیر تبیان الفرقان کا آغاز کیا تھا ابھی وہ نامکمل تھی کہ زندگی نے وفا نہ کی۔ آپ کی ان تمام علمی تحقیقی کاوشوں کے پس پردہ چیئرمین روئیت ہلال کمیٹی پاکستان مفتی منیب الرحمٰن کا قابل تحسین کردار ہے انہوں نے علامہ سعیدی کو 32سال تک اپنے ادارہ جامعہ نعیمیہ کراچی میں رکھا اور ہر طرح کی سہولیات مہیا کرتے رہے۔ محتاط اندازے کے مطابق علامہ غلام رسول سعیدی نے 48ہزار صفحات پر مشتمل ریکارڈ چھوڑا ہے۔آپ اعلیٰ حضرت محدث بریلوی مولانا احمد رضا کے خلیفہ مجاز تھے کبھی پیری یا خلافت چمکانے کا خیال نہیں آیا۔ مولانا نعیم الدین مرادآبادی رحمتہ اللہ کے نام سے موسوم جامعہ نعیمیہ کے گوشہ عافیت کے حفظ و امان رہ کر سفرآخرت کیا۔ پیرانہسالی کے باوجود آقا دوجہاںؐ کے دین کے فروغ و اشاعت کیلئے زندگی وقف کررکھی تھی۔ اس میدان میں وہ رنگ بکھیرے کہ خزاں رسیدہ بوستان میں بہار ہی بہار ہے۔
نہ ہو باد خزاں کا ڈر تیرے گلشن کے پھولوں کو
رہے شاداب یارب بوستان غازی قلندر کا