• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ ملک میں تبدیلی آئے مگر جب اس طرف قدم اٹھانے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی ہے توپتہ چلتا ہے کوئی اپنی خو نہیں بدلنا چاہتا ۔ہم سب نہیں تو کم ازکم بیشتر لوگ اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ اسلامی نظام آئے مگرکبھی عملدرآمد نہیں ہوپاتاکیونکہ کوئی بھی شخص بلاتفریق اس نظام کی زد میں نہیں آنا چاہتا ،سب چاہتے ہیں کہ دوسروں پر اس کا اطلاق ہو۔ہم سب کی فرمائش ہے کہ سخت اور کڑا احتساب ہو لیکن یہ عمل ہمارے سیاسی مخالفین تک محدود رہے۔کون نہیں چاہتا کہ ملک میں قانون کی عملداری ہو؟ ہاں البتہ ہم سب کی منشا یہ ہے کہ ہمیں استثنا حاصل رہے۔ ٹریفک قوانین کی پاسداری ہونی چاہئے لیکن ہمیں چھوٹ دیدی جائے ۔اگر ہم مدعی ہیں تو پولیس ملزموں کو حوالات میں الٹا لٹکا کر چھترول کرے لیکن اگر ہم ملزم ہیں تو انسانی حقوق اور عزت نفس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تفتیش کی جائے ۔ہم چاہتے ہیں کہ سیاست سے جاگیرداروں اور وڈیروں کا اثر و رسوخ ختم ہو ،متوسط طبقے کے لوگ سامنے آئیں لیکن کوئی عام آدمی الیکشن میں کھڑا ہو جائے تو ہم اسے یہ سوچ کر گھاس نہیں ڈالتے کہ یہ تو ہمارے جیسا ہے ،اس کے پاس بڑی گاڑی ہے نہ بینک بیلنس ،ہمیں اس سے کیا ملے گا ؟

برسہا برس سے قبضہ گروپ دندناتا پھر رہا تھا ،ایسی اندھیر نگری کہ جب جہاں چاہا زمین ہتھیا لی ،پہلے ڈھابہ اور جھگی بنتی ہے ،پھر دکان اور کچامکان مگر قبضے کے فطری مراحل طے ہوتے ہی پلازے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کتنی ہی حکومتیں آئیں اور چلی گئیںمگر ان قبضہ گروپوں کے خلاف کارروائی نہ کی جا سکی کیونکہ سیاسی مفادات اور مصلحتیں آڑے آتی رہیں ۔لاہور میں قبضہ گروپ کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ لاری اڈے کے پاس بادامی باغ اوور ہیڈ برج کے نیچے پختہ دکانوں کی تعمیر کے بعد فارورڈنگ اڈہ بنالیا گیا ہے ۔ہر حکومت ان کے خلاف آپریشن سے گریز کرتی رہی کیونکہ یہ ناپسندیدہ ترین کام ہے ،اس طرح کے اقدامات سے عوام میں مقبولیت کم ہوتی ہے ،ووٹر ناراض ہوتے ہیں اور پھر ہر سیاسی جماعت میں بعض لوگ ان قبضہ گروپوں کی پتھارے داری کرتے ہیں ۔پنجاب حکومت نے ان قبضہ گروپوں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا ۔سیاسی اعتبار سے اس فیصلے کو حماقت ہی سمجھا جائے گا لیکن تبدیلی لانے کے لئےایسی حماقتیں کرنا پڑتی ہیں ۔حسب توقع اس ایشو پر سیاست کی گئی تو حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔غربت اور بے گھری کا علم اٹھا کر ماتم کرنے والے نہایت دردمندی سے سوال کرتے ہیں کہ یہ لوگ کدھر جائیں؟کوئی ان سے پوچھے ،اگر آپ کی زندگی بھر کی جمع پونجی سے خریدے گئے پانچ مرلے کے پلاٹ پر کوئی جھگی نشین قبضہ کرلے اور بیدخل کرنے پر مظلومیت سے کہے ،صاحب! میں غریب آدمی ہوں اپنے بچوں کو لیکر کدھر جائوں ؟تو آپ اس پر ترس کھائیں گے ؟قبضہ گروپوں کی بھی کئی اقسام ہیں اور ان میں سے ہر ایک سے الگ طرح سے نمٹنا چاہئے ۔ایک وہ ہیں جنہوں نے سرکاری یا نجی زمین پر تسلط جما رکھا ہے اور یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ایک وہ ہیں جن کی زمین اپنی ہے مگر مکان یا پلازہ بناتے وقت نقشہ منظور نہیں کروایا گیا ،این او سی نہیں لیا گیا یا اسی طرح کا کوئی اور سقم ہے ،انہیں وزیراعظم کی بنی گالہ والی رہائشگاہ کی طرح ریگولرائز کیا جائے ۔تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنہوں نے سرکاری زمین پر گھر بنا رکھے ہیں یا وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ مکان فلاں شخص سے خریدا مگر درحقیقت اس کے مالکانہ حقوق حکومت کے پاس ہیں۔یہ لوگ بھی اتنے بھولے اور سادہ نہیں کہ انہیں سچائی کا علم نہ تھا ۔جب کوئی پلاٹ یاگھر خریدنے جاتے ہیں اور وہ مارکیٹ ریٹ سے کئی گنا سستا مل رہا ہوتا ہے ،رجسٹری نہیں ہوتی تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ناجائز قبضہ کیا گیا ہوتا ہے مگر یہ لوگ اس امید پر خرید لیتے ہیں کہ ایک دن مالکانہ حقوق مل ہی جائیں گے ۔البتہ ملک میں بے گھری کے عذاب کو مد نظر رکھتے ہوئے ان لوگوں سے رعایت برتنا چاہئے ۔

اسی طرح جب ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کا آغاز ہوا ،ای چالان کا سلسلہ شروع ہوا ،ہیلمٹ نہ پہننے والوں کے خلاف کارروائی ہونے لگی ،جرمانے کی رقم بڑھائی گئی تو ایک بار پھر غربت کو ہتھیار بنالیا گیا ۔کوئی ان کو سمجھائے ،یہ غریبی یا امیری کا مسئلہ نہیں ،قانون کی عملداری کا معاملہ ہے ۔موٹر سائیکل ہو یا رکشہ ،ان کا شمار بھی ٹریفک میں ہوتا ہے۔جو شخص مبلغ تیس ہزار روپے کی موٹر سائیکل خرید سکتا ہے وہ ڈرائیونگ لائسنس بھی بنوا سکتا ہے ،اسے اشارے اور بیک ویو مرر بھی لگوانا چاہئے اور ہیلمٹ بھی پہننا چاہئے ۔کسی شخص کو اس کی مالی حیثیت کی بنیاد پر اپنی اور دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔لیکن وہی ڈھاک کے تین پات ،تبدیلی آئے مگر دوسرو ں کے رویوں میں ،ٹریفک قوانین کا اطلاق ہومگر ہمیں استثنیٰ ملے ،ہم موٹرسائیکل جلا دیں گے مگر ہیلمٹ نہیں خریدیں گے ،رکشہ نذر آتش کر دیں گے مگر لائن اور لین کی پابندی نہیں کریں گے ۔

آپ قبضہ گروپوں کے خلاف کارروائی اور ٹریفک قوانین پر عملدر آمد کی مہم کے خلاف ہونے والی مزاحمت کو چھوڑیں ،وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے متعلق ہونے والے مضحکہ خیز تبصرے ہی دیکھ لیں۔کیسے کیسے لطیفے گھڑے جاتے ہیں ،کبھی شکل و صورت کا مذاق اڑایا جاتا ہے، کبھی کہتے ہیں بات کرنی نہیں آتی،کبھی کوئی کہتا ہے فائل نہیں پڑھ سکتے ۔ایک ایساشخص جس نے ایم اے ایل ایل بی کیا ہو ،کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ فائل نہ پڑھ سکتا ہو؟اگر محض بول چال کی بنیاد پر قیادت کا انتخاب کرنا ہے تو کسی اداکار کو وزیراعلیٰ بنالیں ۔عثمان بزدار کا قصور یہ ہے کہ وہ ایک عام آدمی ہے۔ عثمان بزدار،ــ’’بارتھی‘‘ کا سردار ضرور ہے مگر اس کے پاس جاگیرداروں کی طرح بے حد و حساب دولت نہیں ۔اگرچہ میری ملاقات تو نہیں ہوئی مگر جو بھی دوست احباب ملنے گئے ،عثمان بزدار کی عاجزی و انکساری اور سادگی سے ضرور متاثر ہوئے ۔اب ایک ایسا شخص جس کی گردن میں سریا نہ ہو ،جو شاہی دبدبے ،کروفر اور طنطنے پر یقین نہ رکھتا ہو اور عام آدمی کی سی زندگی بسر کرتا ہو ،وہ ہمیں کیسے قبول ہو سکتا ہے ۔کئی برس ہوتے ہیں ایک دوست نے ڈپٹی کمشنر سرگودھا کا قصہ سنایا ،نیک نیت ڈپٹی کمشنر نے دفتر کا دروازہ کھول دیا اور دربان ہٹا دیا گیا تاکہ سائل بلا حیل وحجت آسکیں۔ایک بزرگ تشریف لائے اپنا مسئلہ بیان کیا ،ڈپٹی کمشنر نے ادب واحترام سے بات سنی اور موزوں احکامات صادر کر دیئے ۔اب جب وہ بزرگ باہر نکلے تو اندر آنے کے منتظر کسی اور شخص نے پوچھا :’’نئے صاحب کیسے ہیں؟ ‘‘۔اس بزرگ نے طنزیہ انداز میں کہا ’’ڈھیلا ہے ،رعب داب نہیں ہے‘‘یعنی اگر دفتر میں جاتے ہی اسے جھڑک دیا جاتا تو پھر ٹھیک تھا ۔عثمان بزدار بھی اگر یہ کام کرلے اورسرائیکی وسیب کے ادب و آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے روایتی وزیر اعلیٰ بن جائے تو اس کی ـ’’ریٹنگ ‘‘ بہتر ہو سکتی ہے ۔

تازہ ترین