• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر طلعت جبیں،گوجر سنگھ، لاہور

حضورِ پاکﷺآبِ زم زم بڑے شوق سے نوش فرمایا کرتے اور ہمیشہ کھڑے ہو کر پیتے تھے، اسی لیے آبِ زم زم کھڑے ہو کر پینا سنّتِ مبارکہﷺہے۔حضرت اِبن عباسؓ نے فرمایا کہ نبی کریمﷺکی خدمت میں آبِ زم زم کا ایک ڈول پیش کیا گیا، تو آپﷺنے کھڑے ہو کر نوش فرمایا۔حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سےروایت ہے کہ حضور اکرمﷺنے فرمایا ،’’اس کرۂ ارض پر سب سے بہترین، مفید اور عمدہ پانی زم زم کا ہے۔‘‘حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کی ایک اور روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’زم زم کا پانی جس مقصد کے لیے پیا جائے، اُسی کے لیے مفید ہوگا۔ اگر شفاء کی نیت سے پیا جائے، تو اللہ تعالیٰ شفا دے گا، پیاس بجھانے کے لیے پیا جائے، تو تسکین حاصل ہوگی، سیراب ہونے کے لیے پیو گے، تو اللہ تعالیٰ سیراب کردے گا۔ یہ حضرت جبرائیل ؑکا کنواں ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت اسماعیل ؑکا پیائو ہے۔‘‘(دارقطنی)۔ایک موقعےپر نبی کریمﷺنے حضرت ابوذر غفاریؓ کی کیفیت کے بارے میں فرمایا کہ ’’حضرت ابوذر ؓنے کعبہ شریف اور اس کے پردوں کے درمیان چالیس دِن رات گزارے اور ان کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ تھی۔ وہ ا س دوران زم زم پیتے رہے۔‘‘نبی کریمﷺنے فرمایا کہ ’’یہ ایک مکمل غذا تھی۔‘‘حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورِپاکﷺنے فرمایا،’’ اللہ تعالیٰ، اسماعیلؑ کی والدہ پر رحم فرمائے کہ اگر وہ زم زم کے پانی کو ویسے چھوڑ دیتیں یا اس کے اردگرد دیوار یا منڈیر نہ بناتیں ،تو زم زم ایک بڑی نہر کی صورت اختیار کر لیتا۔‘‘ آبِ زم زم ایک مقدّس اور بابرکت پانی ہے، جو بیت اللہ کے صحن میں ایک کنویں سے ملتا ہے۔ یہ کنواں بیت اللہ سے جنوب مشرق کی جانب تقریباً 50فٹ کے فاصلے پر واقع ہےاور207فٹ گہرا ہے۔ آبِ زم زم اللہ تعالیٰ کے خصوصی کرم کا مظہر ہے، جو صدیوں سے رواں دواں ہے۔ اب اس کے کنویں پر ایک ٹیوب ویل نصب ہے، جس کے ذریعے پانی نکال کر استعمال میں لایا جاتا ہے۔یہ ایسا مصفّا، معطر، شفّاف، پاکیزہ اور صحت بخش پانی ہے کہ ایسا پانی پورے کرۂ ارض پر کہیں موجود نہیں۔ آنحضورﷺ آبِ زم زم نوش فرماتے،تو یہ دُعا مانگتے،’’اے اللہ! مَیں تجھ سے مانگتا ہوں، علمِ نفاع، کشادہ رزق اور تمام بیماریوں سے شفا۔‘‘ زم زم کے حوالے سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق، اس پانی میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو اس کے سوا دُنیا کے کسی بھی پانی میں موجود نہیں اور اگر آبِ زم زم کا ایک قطرہ، عام پانی کے ہزاروں قطروں میں شامل کردیا جائے، تو اُس کی خصوصیات بھی آب زم زم جیسی ہوجاتی ہیں۔تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اس کی خصوصیات کو کسی صورت بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔کیمیائی طور پر اس پانی میںمیگنیشیم ، سوڈیم سلفیٹ،سوڈیم کلورائیڈ، کیلشیم کاربونیٹ، پوٹاشیم نائٹریٹ کے علاوہ زنک، کلورین اور دیگر ایسے اجزاء شامل ہیں،جو انسانی صحت کے لیے بہت مفید ہیں،پھر اس کی ایک اور بڑی خصوصیت یہ کہ اللہ پاک نے اس میں اپنی رحمت سے خاص شفا اور غذائیت رکھی ہے۔اگر اس میں موجود معدنی اجزاء کے خواص کا ذکر کیا جائے، تو میگنیشیم سلفیٹ، جسمانی حرارت اور گرمی دُور کرتا ہے، قے، متلی اور سَردرد میں فائدہ مند ہے۔سوڈیم سلفیٹ جوڑوں کے درد کے علاج کے لیے مؤثر ہے،تو سوڈیم کلورائیڈ خون، نظامِ تنفس کے لیے بہترین ہے۔نیز، نظامِ انہضام کی صفائی اور درستی کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔کیلشیم کاربونیٹ خوراک ہضم کرنےاور ہر قسم کی پتھری توڑنے کے لیے اکسیر ہے۔پوٹاشیم نائٹریٹ، تھکن اور لُو کے اثرات ختم کرنے کے علاوہ دمے کے عارضے میں فائدہ مند ہے۔(آبِ زم زم کو ٹھنڈا رکھنے میں اسی پوٹاشیم نائٹریٹ کا ایک اہم کردار ہے)۔

سعودی فرماں روا، شاہ فیصل کے عہد میں ایک ڈاکٹر نے دعویٰ کیا کہ آبِ زم زم صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور یہ کہ کنویں کے اندر سے ایک پائپ لائن سمندر میں جا رہی ہے۔‘‘ شاہ فیصل تک جب یہ بات پہنچی، تو انہوں نے اس کی مکمل تحقیق کروانے کا فیصلہ کیا۔ یورپ بَھر سے ماہرین کو دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک ماہر کے مطابق جب وہ اس سلسلے میں وہاں پہنچا، تو اس چھوٹے سے کنویں کو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ کس طرح ہزاروں سالوں سے کروڑوں افراد کو پانی مہیا کر رہا ہے۔ تحقیق کی غرض سے کنویں کےاندر اُتر کر دیکھا گیا، تو اس کی لمبائی اور چوڑائی بھی زیادہ نہ تھی اور نہ ہی اندر کسی پائپ لائن کا سراغ ملا۔ آخرکار،یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اس کی اصل تک پہنچنا ممکن نہیں۔ یہ پانی صحت کے لیے فائدہ مندہی نہیں، کئی بیماریوں سے نجات کا باعث بھی ہے۔مثلاً جسم کی کم زوری دُور کرتا ہے، طبیعت میں مسرت پیدا کرتا ہے۔نیز، اس پانی کی نسبت شعائر اللہ کی طرف بھی منسوب ہے،تو کھڑے ہو کر پینے میں اس کے تقدّس اور تعظیم کو بھی مدِّنظر رکھا گیا ہے۔

تازہ ترین