• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم مسلمان ہیں، ہمارا آخرت پر ایمان ہے، ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ دنیا جائے امتحان ہے، موت ایک وقفہ ہے عارضی اور دائمی زندگی کے درمیان۔ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، جب یہ وقت آتا ہے تو ملک الموت روح قبض کر لیتا ہے، پھر انسان کو قبر میں لٹا دیا جاتا ہے جہاں دو فرشتے منکر نکیر ایمان کے بارے میں سوالات کرتے ہیں، اہل ایمان ان سوالوں کا صحیح جواب دیتے ہیں اور سکھ پاتے ہیں جبکہ بدکار لوگ اس امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں اور سزا کا انتظار کرتے ہیں۔ موت اور قیامت کے درمیان کا وقت مقام برزخ ہے۔ ہمارے ایمان کے مطابق خدا کو اس زندگی میں ہمارا امتحان مقصود ہے، جو لوگ نیک اعمال کرتے ہیں، بدی سے دور رہتے ہیں، صالح اور متقی کہلاتے ہیں ان کے لئے اللہ نے موت کے بعد جنت کا وعدہ کیا ہے اور جو لوگ دنیا میں اللہ اور اس کے رسول ﷺکی نافرمانی کرتے ہیں، برے کام کرتے ہیں، شیطانی اعمال کرتے ہیں، ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ مسلمان کے عقیدہ آخرت میں کوئی اختلاف نہیں، موت، آخرت اور قیامت کے بارے میں جابجا قران میں ارشادات موجود ہیں، اللہ تعالی ٰ فرماتا ہے’’ہر جان کو موت کا مزا چکھنا ہے اور تم اپنا پورا اجر تو بس قیامت ہی کے دن پائو گے۔ پس جو دوزخ سے بچایا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا، وہ کامیاب رہا اور یہ دنیا کی زندگی تو بس دھوکے کا سودا ہے۔‘‘(آل عمران، آیت 185)۔’’وہ کہیں گے،ہائے ہماری بدبختی! ہم کو ہماری قبر سے کس نے اٹھا کھڑا کیا؟ یہ تو وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں کی بات سچی نکلی۔‘‘ (یٰسین، آیت 52)۔ ’’اس جنت کی مثال، جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اس میں نہریں ہوں گی پانی کی جس میں ذرا بھی تغیر نہ ہوا ہوگا اور نہریں ہوں گی دودھ کی جس کا ذائقہ تبدیل نہ ہوا ہوگا اور نہریں ہوں گی شراب کی جو پینے والوں کے لئے یکسر لذت ہوں گی اور نہریں ہوں گی صاف شفاف شہد کی اور اس میں ان کے لئے ہر قسم کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت بھی ۔ (کیا یہ لوگ جن کو یہ نعمتیں حاصل ہوں گی) ان لوگوں کی مانند ہوں گے جو ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے ہیں اور جن کو اس میں گرم پانی پلایا جائے گا، پس وہ ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا؟‘‘ (محمد، آیت 15)۔

پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے، قریباً ستانوے فیصد مسلمان ہیں، ان مسلمانوں کے فرقوں میں بیسیوں اختلافات ہیں مگر زندگی بعدازموت، قیامت، آخرت اور عذاب ِجہنم کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں، اب جبکہ ہمارا ایمان ہے آخرت پر، ہمارا ایمان ہے جنت پر، ہمارا ایمان ہے دوزخ پر اور ہمارا ایمان ہے روزِ جزا اور سزا پر اور ہم یہ اصرار بھی کرتے ہیں کہ ہم سے زیادہ سچا عاشق رسول ﷺ کوئی نہیں تو پھر بائیس کروڑ مسلمانوں کے اس ملک میں ہمیں ایک دوسرے سے خوف کیوں آتا ہے، کیوں ہم ایک دوسرے کو جھوٹا اور مکار سمجھتے ہیں، کیوں ہمیں قدم قدم پر فراڈ کا اندیشہ ہوتا ہے، کیوں یہاں خالص اشیاء نہیں ملتیں، کیوں لوگ سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں، کیوں یہاں کمسن بچوں پر تشدد ہوتا ہے، کیوں یہاں مزدور کو اجرت پوری نہیں ملتی، کیوں یہاں بدعنوانی کے شور سے کانوں کے پردے پھٹے جاتے ہیں، کیوں یہاں لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں، کیوں یہاں غلاظت کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں، کیوں یہاں مسائل کے انبار نظر آتے ہیں، اگر ہم سب صدق دل سے آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر ایک دوسرے سے جھوٹ کیسے بول لیتے ہیں، اگر ہمیں یقین ہے کہ قبر میں منکر نکیر ہم سے سوال جواب کریں گے تو پھر ہم یتیموں کی جائیداد پر قبضہ کیسے کر لیتے ہیں، اگر یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ برے اعمال کے نتیجے میں ہمیں جہنم کی آگ میں گُرز مارے جائیں گے تو پھر ہم اپنے ہی مسلمان بھائیو ں کے ساتھ فراڈ کیسے کر لیتے ہیں!

دراصل واعظ نے ہمیں ایک بات اچھی طرح سمجھا دی ہے کہ مسلمان جتنے بھی گنہگار ہوجائیں انہیں تین قسم کی سہولتیں ہمیشہ حاصل رہیں گی، توبہ، شفاعت اور دائمی جنت کا وعدہ، توبہ کے بارے میں واعظ ہمیں بتاتا رہتا ہے کہ خدا تعالیٰ بڑا غفور الرحیم ہے، وہ اپنے بندوں کو بہت پیار کرتا ہے، جب اس کا کوئی بندہ توبہ کرکے رجوع کرتا ہے تو وہ اس کے گناہ معاف کرکے اسے اپنی آغوش میں لے لیتا ہے ۔ اس بیانئے نے مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ پیدا کر دیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہر گناہ کے بعد توبہ کا دروازہ کھلا ہے، ان کے خیال میں چار دن کا ایک وی آئی پی حج عمر بھر کے گناہوں کو دھونے کے لئے کافی ہے، لہٰذا وہ اطمینان سے اپنی فیکٹریوں میں پچاس ڈگری میں کام کرنے والے مزدوروں کو پندرہ ہزار تنخواہ دیتے ہیں اور اگر کوئی بیمار ہوجائے تو نکال باہر کرتے ہیں، کوئی بھانجا، بھتیجا، یتیم ہوجائے تو اس کی کروڑوں کی جائیداد پر قبضہ کرکے دس ہزار کا چندہ مسجد میں بھجوا دیتے ہیں اور دو نمبر مال کو اللہ کی قسم کھا کر جینوئن کہہ کر بیچتے ہیں اور اس کے ’’عوض‘‘ چند روپے زکوٰۃ کی مد میں نکال کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ ’’تمہیں اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں ۔ ممکن ہے خدا ان کی توبہ قبول کرے یا انہیں عذاب دے، کیونکہ وہ ظالم ہیں ۔‘‘ (آل عمران، آیت 128)۔ ’’اور ان لوگوں کی توبہ نہیں ہے جو برابر برائی کرتے رہے یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہوئی تو بولا کہ اب میں نے توبہ کرلی۔ اور نہ ان لوگوں کی توبہ ہے جو کفر ہی پر مر جاتے ہیں۔ ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘(النسا ء، آیت 18)۔

دوسری بات واعظ نے یہ سمجھائی ہے کہ قیامت کے روز مسلمانوں کو اللہ کے رسول ﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی اور ہم چونکہ امتی ہیں اس لئے بخشے جائیں گے ۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ قیامت کے روز رسول اللہ ﷺ ہماری شفاعت کریں گے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ شفاعت ہر قسم کے گنہگاروں کے لئے ہوگی، کیا وہ لوگ جو معصوموں کا قتل عام کرتے رہے، کیا وہ لوگ جو دوسروں کی دولت پر ڈاکے ڈالتے رہے یا بچوں کو ہلاک کرتے رہے، اس شفاعت کے حقدار ہوں گے؟ اس بات کا جواب خود اللہ نے قران میں یوں دیا ہے’’یہ لوگ بس اس حقیقت کے مشاہدے کے منتظر ہیں، جس روز اس کی حقیقت سامنے آئے گی، وہ لوگ جنہوں نے اس کو پہلے نظر انداز کئے رکھا، بول اٹھیں گے کہ بیشک ہمارے رب کے رسول بالکل سچی بات لے کر آئے تھے، تو ہیں کوئی ہمارے سفارشی کہ ہماری سفارش کریں یا ہے کوئی صورت کہ ہم دوبارہ لوٹائے جائیں کہ اس سے مختلف عمل کریں جو پہلے کرتے رہے ہیں؟ انہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا اور جو کچھ وہ گھڑتے رہے تھے، سب ہوا ہو گیا۔‘‘(الاعراف، آیت 53)۔

تیسری بات ہمارے دماغ میں یہ بیٹھی ہے کہ مسلمانوں نے بالآخر جنت میں جانا ہے چاہے وہ جتنے بھی گناہ کرلیں، گویا دائمی جنت ہمارے لئے اور دائمی دوزخ غیر مسلموں کے لئے۔ یہ بھی ایک غلط فہمی ہے۔ اللہ نے جزا اور سزا کے اصول قران میں کھول کر بیان کر دئیے ہیں اور اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں۔ اب اگر کوئی آخرت پر ایمان کا دعوی بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی جھوٹ، دھوکہ دہی اور فریب کا کاروبار بھی جاری رکھتا ہے تو اصل بات یہ ہے کہ اس کا کسی بات پر کوئی ایمان نہیں، ایسے شخص نے مسلمانیت کا فقط لبادہ اوڑھ رکھا ہے، ایسا شخص جنت میں کیسے جا سکتا ہے؟

تازہ ترین