• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پشاور کی سرزمین سے اٹھنے والے یوسف خان المعروف دلیپ کمار نے بھارتی فلم انڈسٹری کو اپنی شخصیت کے ر وپ میں ایک لیجنڈ عطا کیا۔ اور بھارت آج تک ان سے بڑا ایکٹر نہیں پیدا کر سکا، البتہ بڑے اداکار ضرور پیدا ہوتے رہے، دلیپ کمار اب بھارتی ہیں مگر ان کی جڑیں پاکستان میں ہیں، یہ بات دونوں ملکوں میں پیار بڑھانے کیلئے ایک اچھا شگون ہے، ان کی 90 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے، وہ خود بھارت میں یہ سالگرہ کئی بھارتی اداکاروں کے سوگ میں نہیں منائینگے، لیکن انکے آبائی شہر اور جائے پیدائش پشاور میں اسکی زبردست تیاریاں کی گئیں اور کل بڑے دھوم دھام سے منائی گئی، دلیپ کمار بڑی سکرین کے بڑے اداکار ہیں، اور دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان ایک ثقافتی پل کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ سنچری مکمل کرنے سے 10 برس کے فاصلے پر بھی پوری آن بان اور شان کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کی اداکاری سے کتنے ہی لوگوں کی حقیقی زندگی کی یادیں وابستہ ہیں، مکالمہ گوئی میں ان کی دھیمی سروں میں آگ لگا دینے والے مکالمے آج بھی دلوں کو گرما دیتے ہیں، وہ بلاشبہ اداکاری کی دنیا میں رومینٹسزم کے امام ہیں، وہ شہنشاہ جذبات نہیں، ایک صحت مند پیار کے جذبوں کی پرورش کرنے والے اداکار ہیں، اور آج بھی بولتے ہیں، تو سننے والوں کو کچھ کچھ ہوتا ہے، ان پر زندگی میں کوئی ایسا دور نہیں آیا کہ وہ بھی غالب کی طرح کہتے #
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتائیں کیا
انہوں نے شریک سفر بھی فلم انڈسٹری کی ایک رنگ بھری تتلی سائرہ بانو کو بنایا اگرچہ اولاد نہیں لیکن پھر بھی دلیپ نے ا پنے پیار کا دیپ جلائے رکھا، اور آج بھی سائرہ بانو کے ساتھ زندگی کی ڈگر پر باہنوں میں باہنیں ڈالے اپنا سہانا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کو انکی 90 ویں سالگرہ مبارک ہو، وہ کبھی پشاور آئیں، لاہور آئیں، تاکہ دھوآں دھوآں فضا صاف ہو۔ باور رہے کہ متحدہ ہندوستان تقسیم ہوا مگر دلیپ کمار ناقابل تقسیم ہے۔
####
چوہدری پرویز الٰہی کہتے ہیں: مثبت سوچ رکھنے والے ہر پاکستانی کا گھر مسلم لیگ ہے۔
یہ تو 16 آنے درست بات ہے کہ مثبت سوچ رکھنا ایک بڑی مبارک بات ہے، لیکن اسے کسی ایک جماعت سے مختص کرنا مثبت سوچ نہیں۔ بانی پاکستان نے مسلم لیگ اس لئے نہیں بنائی تھی کہ اس کے علاوہ کوئی دوسری سیاسی جماعت نہ بنے، بلکہ مسلم لیگ ایک بنیاد تھی اور اس پر پاکستانی مثبت سیاست کی عمارت کھڑی کرنا ان کی دلی خواہش تھی، اب مسلم لیگ اور وہ بھی قاف لیگ کا یہ کہنا کہ مثبت سوچ صرف ان کی ملکیت ہے، قائداعظم کے آدرشوں کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہے، چاہئے تھا کہ مسلم لیگ ایک ہوتی اور بڑی پارٹی کی حیثیت سے اپنے مقابل ایک دوسری بڑی سیاسی پارٹی کو سامنے آنے کا موقع دیتی، ایسا ہوا بھی کہ پیپلز پارٹی ایک بڑی جماعت بن کر مقابل کھڑی ہو گئی اور یوں باقی ڈیمو کریٹک ورلڈ کی طرح ہمارے ہاں بھی دو پارٹی سسٹم رائج رہتا، اور جمہوریت آج ایک تناور درخت بن چکی ہوتی مگر دونوں بڑی پارٹیوں نے اپنے اپنے وجود کے کئی ٹکڑے کر ڈالے کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا، اب کس منہ سے کوئی بھی لیگی رہنما یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کی مسلم لیگ ہی مثبت سوچ رکھنے والوں کی پناہ گاہ ہے، نائب وزیراعظم کی یہ مثبت سوچ منفی ہے کہ صرف لیگی ہی مثبت سوچ رکھتے ہیں اور پھر لیگیں تو کئی ہیں، ظاہر ہے کہ وہ مسلم لیگ نون کو منفی سوچ رکھنے والوں کا کیمپ سمجھتے ہوں گے جبکہ یہ انداز فکر قطعی غیر جمہوری ہے، کیا پیپلز پارٹی میں کوئی مثبت سوچ رکھنے والا نہیں، بات کہنے کی نہیں کہ یہ بات ہے پاکستانی سیاست کی رسوائی کی، اس وقت تو تمام سیاسی جماعتوں میں منفی سوچ ہی پنپ رہی ہے، نہ مسلم لیگ اپنی وحدت قائم رکھ سکی اور نہ پیپلز پارٹی اپنی حیثیت کی حفاظت کر سکی اسی لئے اب یہاں بھان متی کا کنبہ ہی حکومت کرے گا، اور ہر رکن اقتدار کا قبلہ الگ الگ ہو گا تو کیا یہ ملک کسی ایک عوامی رفاہی ریاست کی جانب ایک قدم بھی اٹھا سکے گا، فاعتبروایا اولی الابصار۔
####
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے انتہاء پسندوں کا تنگ نظری کا ایجنڈا قبول نہیں کریں گے۔
اکبر الٰہ آبادی کے اس شعر کو سمجھا جائے تو یہ تنگ نظری اور انتہا پسندی کا پھندا ہمارے گلے سے اتر سکتا ہے #
لاٹھی ہے ہوائے دہر پانی بن جاؤ
موجوں کی طرح لڑو مگر ایک رہو
اگر دنیا کے تمام بڑے بڑے ریفارمرز کی تعلیمات کو دیکھا جائے تو یہی سبق ملتا ہے، کہ #
اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل
دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل
اللہ نے بھی کہا ہے کہ میری صفات کو اپناؤ، تو ہم کیوں اس کی بے نیازی کی صفت کو اپنا کراپنا موقف منوانے کے لئے دلیل سے کام نہیں لیتے، ہٹ دھرمی و تنگ نظری کے طرزِ عمل سے کام کیوں نہیں لیتے پیغمبر اسلام ﷺ کے موزے جب طائف میں خون سے بھر گئے اور اللہ کا عذاب آنے کو تھا تب بھی وہ سایہ دیوار میں بیٹھ کر دعا کرتے رہے خداوندا! یہ لوگ نادان ہیں حق سچ اور مہذب انداز زندگی کو نہیں سمجھتے انہیں معاف کر دو، شاید ان کی نسلوں میں کوئی راہ اعتدال پر آ جائے، حیرانی ہے یہ آج مذہب کو بندوق کی نالی کیوں بنا دیا گیا ہے، اگر پھول کی پتی سے ہیرے جیسے سخت پتھر کا جگر کٹ سکتا ہے تو یہ لفظوں بیانوں اور دہشت گردانہ حملوں کے پھاوڑے چلانے کی کیا ضرورت ہے، کائنات میں یار کا فلسفہ اتنا کاری ہے کہ اسے آزما کر دیکھیں تو میاں محمد بخش کی طرح آپ بھی پکار اٹھیں گے #
تو بیلی تے سب جگ بیلی ان بیلی وی بیلی
اس دنیا کی عمر اب اتنی زیادہ نہیں رہی جتنی یہ ایک دوسرے کے خلاف ہوتی جا رہی ہے، اب امت مرحومہ کا فرض بنتا ہے کہ اٹھے اور اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے قرآنی نعرہ محبت ”قولوا للناس حسنا“ (لوگوں سے پیار محبت سے بولو) بلند کرے، تو اس کا سر کس قدر بلند ہو جائے گا۔
####
ورلڈ کپ کبڈی سیمی فائنل میچ پاکستان اور کینیڈا کے درمیان آج ہو گا، ایران اور بھارت آمنے سامنے ہوں گے، پاکستانی کبڈی کا نئے قوانین پر احتجاج۔
آج بھی کانوں میں کبڈی کبڈی کی آوازیں گونجتی ہیں، تب بچے تھے مگر اس کھیل کو دیکھ دیکھ کر جلد جوان ہو گئے، اور جسم کسرتی ہو گیا۔ کبڈی دراصل پاک و ہند کی سرزمین کا وہ روایتی کھیل ہے، کہ جس نے کسی زمانے میں یہاں کلچر میں ایک لہر سی دوڑا دی تھی، کبڈی کے لئے کوئی مختص کھلاڑی نہیں ہوا کرتے تھے، بلکہ پنجاب کا ہر گھبرو جوان اس کا ماہر تھا، خود ہی ٹیم بن جاتی، ڈھولی آ جاتے، لوگوں کے ہجوم کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا اور فضائیں صحت مند ہو جاتیں، پھر ایک دور آیا کہ کرکٹ ہاکی پر توجہ دی گئی اور کبڈی کو سوتیلا سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا، پھر کرکٹ میں بھی کبڈی کبڈی ہونے لگی، اچھا ہے کہ کرکٹ، ہاکی، فٹ بال کو پروموٹ کیا جائے لیکن یہ جو کبڈی ہے یہ کم خرچ بالا نشین تعیش ہے، جو جسم کو مضبوط اور روح کو خوش کر دیتا ہے، اس لئے اب قوم دعا کرے کہ کینیڈا اور پاکستان کے درمیان آج کا سیمی فائنل ہماری ٹیم جیت جائے، جیت بھی ایک ٹانک ہے جو قوموں کے مورال کو بلند کرتا اور اچھے جذبات کو نمو بخشتا ہے، ہم بھارت کے ساتھ انہی کھیلوں کے ذریعے باہمی مفادات اٹھا سکتے ہیں، اور دو ملک بننے کا یہ مطلب نہیں کہ دل کے بھی دو ٹکڑے ہو گئے ایک یہاں گرا ایک وہاں گرا، ہماری جانب سے تمام کھیلوں کے بھارتی کھلاڑیوں کو صلائے عام ہے، کہ وہ آئیں ہمیں بلائیں اس عمل سے نفرتوں کے بادل چھٹ جائیں گے، اور محبتوں کا ابر نیساں برسے گا #
غالب تیرا احوال سنا دیں گے ہم ان کو
وہ سن کے بلا لیں یہ اجارا نہیں کرتے
اگر کبڈی کے نئے قوانین بنے ہیں تو چیں بجبیں نہ ہوں، کبڈی پھر بھی کبڈی ہی رہے گی، اب یہ آئین نو سے ڈرنے اور طرز کہن پر اڑنے کی عادت ترک کر دینی چاہئے۔
####
تازہ ترین