• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی ممالک، خصوصاً مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں کچھ اندرونی لڑائی جھگڑوں اورکچھ بیرونی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں چھڑنے والی پراکسی وار نے اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ مسلم دنیا کے اتحاد و یکجہتی کا جو خواب ستر کے عشرے میں اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے قیام کے وقت دیکھا گیا تھا وہ آج بکھرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ عراق، شام اور لیبیا میں تباہی پھیلانے کے بعد مسلم دشمن قوتوں نے یمن میں خانہ جنگی کے بیج بوئے اور عالم اسلام کے دو اہم ترین ملکوں سعودی عرب اور ایران کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا۔ انڈونیشیا اور سوڈان میں تقسیم کی راہیں ہموار کرنے، افغانستان کو میدان جنگ بنانے، پاکستان میں دہشت گردی کے مسائل پیدا کرنے اور ترکی کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں اس کے علاوہ ہیں۔ یمن کا تنازع فی الوقت ساری اسلامی دنیا کی توجہ اور تشویش کا مرکز بنا ہوا ہے کیونکہ اس میں ایران اور سعودی عرب کے فریق بننے کی وجہ سے اس کی حساسیت ہر مسلمان کے دل و دماغ کو متاثر کر رہی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں پاکستان نے اس کے حل کے لئے پیش قدمی کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایران نے رضا مندی کا اشارہ دے دیا تھا مگر سعودی عرب چونکہ خود یمن کی سرحدوں سے حملوں کی زد میں تھا، اس لئے اس کی جانب سے مثبت جواب نہ ملا۔ وزیر اعظم عمران خان نے معاملے کی نزاکت کے پیش نظر اس کے حل کے لئے فریقین کو ثالثی کی جو پیشکش کی ہے وہ پاکستان کی اس پالیسی کی سمت میں ایک جرات مندانہ پیش رفت ہے جس کے تحت وہ اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر عالمی امن و آشتی اور تنازعات کے پرامن حل کیلئے آواز اٹھاتا رہا ہے۔ بدھ کو ایک ملاقات کے دوران یمنی سفیر مطاہر الشعبی سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے یمن میں خانہ جنگی اور ایران سعودی عرب مناقشہ ختم کرانے کے لئے پاکستان کی جانب سےباقاعدہ ثالثی کی پیشکش کی۔ انہوں نے تنازع کے جلد حل اور پائیدار امن کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ یمن کے تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے تمام فریق سیاسی مذاکرات کی طرف آئیں۔ پاکستان اس ضمن میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔ صدر عارف علوی بھی اس تنازع کو اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قرار دادوں کے مطاق حل کرنے پرز وردیتے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان کی حمایت کا اظہار کر چکے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بدھ کو سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے عمران خان کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کودور اندیشانہ قرار دیا۔ ا ن کا کہنا تھا کہ یمن حالت جنگ میں ہے پراکسی وار ہور ہی ہے ، لانچنگ پیڈ بن چکے ہیں جہاں سے سعودی عرب پر حملے ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران میں محاذ آرائی سنگین صورت اختیار کرچکی ہے جو پورے علاقے کو متاثر کر سکتی ہے۔ پاکستان اس معاملے میں اپنی غیر جانبداری برقرار رکھے گا اور حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی زیر قیادت اتحادی فوج کی مدد کے لئے اپنی فوج نہیں بھیجے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ایران اور سعودی عرب دونوں پاکستان کے برادر ملک ہیں اور اسے اہمیت دیتے ہیں۔ ماضی کے برعکس یمن کے معاملے پر سعودی عرب کی سوچ میں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے بھی حالیہ دورہ پاکستان میں عندیہ ظاہر کیا تھاکہ پاکستان اس مسئلے پر کوئی کردارا دا کرنا چاہتا ہے تو ایران اس کا مثبت جواب دے گا۔ صدر مملکت، وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی جانب سے یمن کی خانہ جنگی ختم کرانے کے لئے ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی غرض سے پاکستان کے کردار کا بیانیہ خوش آئند پیش رفت ہے یہ بات بھی دور اندیشانہ ہے کہ پاکستان یمن کے تنازع کا حصہ بنے بغیر اس مسئلہ کو حل کرائے گا۔ یمن میں بہت خون بہہ چکا ہے یہ تنازع نہ صرف ایران اور سعودی عرب کے مفاد میں نہیں بلکہ اس سے عالمی امن کوبھی خطرہ لاحق ہے پاکستان اس تنازع سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ عمران خان حکومت کی جانب سے اسے حل کرانے کے لئے ثالثی کی پیشکش عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہے اللہ کرے، اپنی کوششوں میں اسے کامیابی ملے۔

تازہ ترین