• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مہذب معاشروں میں قیادت کا انتخاب جمہور کی اکثریت کی بنیاد پر ہوتا ہے اور یہی نظام کی کامیابی کی ایک روشن دلیل ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے پینسٹھ سالوں میں جہاں بہت کچھ پیدا ہوا، وہیں سیاسی قیادت بھی پیدا کی گئی۔ اس کی پرورش کی گئی اور اسے اقتدار تک پہنچایا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جمہوری سیاسی قیادت کے اندر بھی بعض صحافی فوج کا عمل دخل تلاش کرتے ہیں اور یہاں تک کہہ بیٹھتے ہیں کہ شہر کراچی کی قیادت تبدیل کی جانے والی ہے۔ ہاں اگر وہ یہ لکھتے کہ اگر آئندہ انتخابات میں عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے کراچی کی قیادت کو تبدیل کرسکتے ہیں تو یہ بات قیاس میں آسکتی تھی۔ سماجی تعلقات کی ویب سائٹ ٹویٹر پر خفت اٹھانے کے بعد چند روز قبل روزنامہ جنگ میں ایک مضمون بعنوان ”سوالات، سوالات، سوالات“ جو شاہین صہبائی صاحب کے قلم سے لکھا گیا تھا، پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی آئی ایس آئی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ موجودہ آئی ایس آئی کے سربراہ کور کمانڈر کراچی رہ چکے ہیں جبکہ موجودہ کور کمانڈر رینجرز کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں ۔ تو یہ فوجی قیادت لندن میں ہونے والے کسی متوقع فیصلے (جو فاضل کالم نگار کے ذہن کی اختراع ہے) اس کے بعد کراچی میں جنگ کے حالات پیدا ہوجائیں گے اور یہ فوجی قیادت جو مختلف جگہوں پر تعینات ہے، حالات کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔
یہ وہ نکتہ ہے جس پر ایک عام قاری کی حیثیت سے مجھے حیرت ہوئی کہ آج اکیسویں صدی کے بارہویں سال کو ہم عبور کر رہے ہیں اور بعض کہنہ مشق صحافی آج بھی ایسی باتیں کررہے ہیں جن سے آمرانہ دور کی بو آتی ہے ۔جب ایک سابق فوجی جرنیل کے فرزند رشید نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ 6/اگست 1990ء کو اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی اور وہ ہو بھی گئیں۔ آج جمہوری ادارے فروغ پا رہے ہیں، ملک ایک ایسے تاریخی دور سے گزر رہا ہے جہاں ایک طرف ملک دہشت گردی اور لاقانونیت کا شکار ہے تو دوسری جانب امید کی کرن یہ ہے کہ ادارے مستحکم ہو رہے ہیں اور پہلی بار اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر رہی ہیں۔ ایسے میں کوئی اگر اس بات کا چلہ کھینچے کہ فوج آکر سب کچھ تلپٹ کردے تو اس سوچ کو نہ تو جمہوری کہنا چاہئے اور نہ یہ ایسا سوچنا صحافتی اصولوں کے مطابق ہے۔ گورنر کی رخصتی،گھر گھر فوج کے ذریعے ووٹرز کی تصدیق کے وقت ہی اسلحے کی تلاش سے محسوس ایسا ہوتا ہے فاضل کالم نگار یا تو خواہشات کے طلسم میں ہیں یا کسی اور کی زبان بول رہے ہیں یا ان کے کوئی سیاسی مقاصد ہیں۔
اس مضمون کو رقم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صحافتی اصول ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ہم اقتدار میں موجود جماعتوں اور اپوزیشن میں شامل جماعتوں کی پالیسیوں پر بات کریں۔ ان کی پالیسی میں موجود نقائص حقائق کی بنیاد پر ثابت کریں نہ کہ تخیل کی بنیاد پر ہم یہ حاشیہ نگاری کر بیٹھیں کہ لندن میں جب اسکاٹ لینڈ یارڈ عمران فاروق قتل کیس کے نتیجے پر پہنچے گی اور اس کے اثرات کراچی میں نظر آئیں گے تو اس پر خاطر جمع رکھیں کہ اسکاٹ لینڈ کی پولیس نہ تو پاکستان کی پولیس ہے اور نہ ہی جنوبی ایشیاء کی، جہاں ہاتھی کو بھی ہرن بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ جلد یا بدیر عمران فاروق کے بہیمانہ قتل کے اسباب تک پہنچ جائے گی اور یہ حقیقت بھی آشکار ہوکر رہے گی کہ ان کے قتل کے کیا محرکات تھے۔ لندن کے کاروباری پتے پر ہونے والی تلاشی کو بنیاد بنا کر یہ حاشیہ نگاری کی گئی ہے۔ یہ بات بھی ہمارے اذہان میں واضح رہنی چاہئے کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ ہر سطح پر اور ہر زاویئے سے اس قتل کی تحقیقات کرے گی کہ آیا یہ کوئی مگنگ کا واقعہ ہے یا اس قتل کے کوئی سیاسی محرکات ہیں یا اس میں وہاں کے مقامی اسباب کارفرما ہیں۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ ہر نقطہ نظر سے اس کی تحقیقات کر رہی ہے اور کرے گی۔ مہذب طریقہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ ہم اس قتل کے اسباب واضح ہونے کے بعد رائے زنی کرتے، نہ کہ قتل کا الزام پاکستان کی کسی سیاسی جماعت پر عائد کرکے ہم مستقبل کی صورتحال کا نقشہ کھینچیں۔
اگر کسی وجہ سے فاضل کالم نگار کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے کیونکہ ٹویٹر پر جس انداز میں وہ الجھ رہے تھے، اس پر انہیں اسی قسم کے رویّے کا سامنا کرنا تھا جیسا کہ ان کے ساتھ ہوا۔ آخر میں انتہائی احترام کے ساتھ یہ استدعا ہے کہ ہم اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے کوشاں ضرور رہیں لیکن اسے کالموں کی زینت نہ بنائیں اور اگر کسی سیاسی جماعت سے اختلاف رکھتے ہیں تو اس کا اظہار صحافتی اور جمہوری انداز میں کریں نہ کہ خواب و خیال کی بنیاد پر کوئی واضح فیصلہ سنا دیں۔ صحافت فیصلہ نہیں سنایا کرتی بلکہ وہ فریقین کے موٴقف کو سامنے رکھ دیتی ہے اور فیصلہ یا تو عوام پر چھوڑتی ہے یا پھر اگر کسی پر الزام عائد کر رہی ہوتی ہے تو اس کے لئے مضبوط دلائل اور ثبوت کے ساتھ اپنی تحریر کو ترتیب دیا جاتا ہے۔
تازہ ترین