• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اور کچھ روز کی بات ہے، جب کراچی کی ایمپریس مارکیٹ کی عمارت دھل دھلا کر، صاف ستھری ہوکر اور نکھر کر نکلے گی تو دنیا دیکھ کر حیران رہ جائے گی کہ انگریز لوگ شہر کراچی کے تاج میں کیسا نگینہ جڑ کر گئے تھے۔قیام پاکستان کے بعد جب شہر کراچی پر دنیا زمانے کے لوگوں کی یلغار ہوئی تو شہر کا نقشہ ہی بدل گیا۔ خاص طور پر صدر کے علاقے کو چونکہ شہر میں مرکزی مقام حاصل تھا، ہر ایک نے اپنا کاروبار اسی علاقے میں جما لیا۔ پھر تو ایمپریس مارکیٹ کے اندر، باہر، اطراف میں اور چاروں جانب اتنی دکانیں بنیں اور اتنا کاروبار پھیلا کہ ایمپریس مارکیٹ کی عالیشان عمارت اس میں دب کر اور کچل کر رہ گئی۔ یہ سلسلہ ایک روز بھی نہ رکا اور صدر کا یہ علاقہ جسے صدر مقام کہنا غلط نہ ہوگا، کچرے کا انبار نظر آنے لگا۔ پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ کسی نے لاہور کو دیکھا جہاں عظیم الشان مال روڈ پر انگریزوں کے زمانے کی ایک خوب صورت مارکیٹ کو لاہور والوں نے جی لگا کر نکھارا اور سنوار کر یوں کردیا کہ عمارت نئی نکور نظر آنے لگی۔ شاید اسی سے متاثر ہوکر کسی نے سوچا ہوگا کہ کراچی کی ایمپریس مارکیٹ کے آگے وہ لاہور کی عمارت کچھ بھی نہیں۔ اگر اس کو ایک بار جی کڑا کرکے پاک صاف کرلیا جائے تو اندر سے اس کی اصل اور پرانی خوبیاں ابھر کر نکلیں گی اور دنیا کو حیران کریں گی۔ یہی ہوا۔ فیصلہ سخت تھا مگر ہونا طے تھا، عمارت کے گرد تجاوزات کے چھتّے کو مسمار کرنے کی بظاہر بے رحمانہ کارروائی کرنا پڑی۔ کئی سو دکانیں، اسٹال، چھابڑیاں اور ٹھیلے ٹھکانے لگائے گئے۔ایک بار تو یوں لگا جیسے ایمپریس مارکیٹ کے علاقے میں بمباری ہوئی ہے۔ لیکن پھر وہی ہوا جس کا یقین تھا،مسمار کرنے کی کارروائی کی گرد بیٹھی تو اندر سے وہی جیمز اسٹریچن کا بنایا ہوا نقشہ نمودار ہونے لگا۔کیسا دل لگاکر انہوں نے پہلے ذہن میں اس کی تصویر بنائی ہوگی، پھر اسے نقشے میں ڈھالا ہوگا۔ اس کے بعد اے جے ایٹ فیلڈ نے اس کی بنیادیں رکھی ہوں گی اور اس کے بعد اصل عمارت کی دیواریں اٹھائی گئی ہوں گی۔ اب تو کسے یاد ہوگا کہ عمارت سازی کا فرض ایک دیسی کمپنی کو دیا گیا جس کے کرتا دھرتا شہر کے دو ٹھیکے دار تھے: محمد نِوان اور ڈلّو کھیجو۔یہ کام سنہ اٹھارہ سو چوراسی میں شروع ہو کر اٹھارہ سو نواسی میں ختم ہوا۔میں نے یہ عمارت اپنی تعمیر کے ساٹھ سال بعد دیکھی۔ ٹھوس چٹان کی طرح کھڑی تھی۔ پھر جب بھی اسے دیکھا صورتِ جبل ہی دیکھا۔ مجھے خوب یاد ہے، اپنے اخبار کے زمانے میں ہم لوگ رات ڈھائی تین بجے کام ختم کر کے گھروں کو لوٹ رہے ہوتے تھے، اس وقت ایمپریس مارکیٹ میں گوشت اور مچھلی کا بازار لگ رہا ہوتا تھا۔ ہم تازہ بہ تازہ اور پسند کا گوشت خریدنے کے لئے جاتے تو دیکھتے کہ شہر کے بنگلوں کوٹھیوں کے ملازم گوشت کے بہترین حصے خریدنے کے لئے اپنے اپنے تھیلے اُٹھائے وہاں پہنچے ہوتے تھے۔ اس وقت یہ عمارت اسّی سال پرانی ہوچکی تھی مگر اس کو مکھیوں سے محفوظ رکھنے کا ایسا عمدہ نظام کام کررہا تھا کہ کیا مجال جو کوئی مکھی مچھر وہاں نظر آجائے۔ اس نظام کی خاص بات جو مجھے یاد ہے وہ یہ کہ اس کے دروازوں میں اتنے سخت اسپرنگ لگے ہوئے تھے کہ اندر داخل ہونے کی خاطر وہ دروازے کھولنے کے لئے پوری قوت لگانا پڑتی تھی اور پھر وہ اتنی توانائی کے ساتھ خود ہی بند ہوتے تھے کہ آپ ان کی زد میں آجائیں تو مارے جائیں۔ ابھی حال ہی تک میں جب بھی کراچی جاتا، چلغوزے خریدنے کے لئے اسی ایمپریس مارکیٹ جانا ہوتا۔ سچ کہتا ہوں، سوا سو سال بعد عمارت کی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ سے نہیں سرکی تھی حالانکہ جانتا ہوں، لوگوں نے اس میں کیسی کیسی میخیں نہیں گاڑی ہوں گی۔ خدا جانے اس کے معمار محمد نِوان اور ڈلّو کھیجو پھر کدھر کو سدھارے مگر آج ان کو توصیف کا خراج پیش کرنے کو دل بے چین ہے کہ ٹھیکے داری جیسے بدنام زمانہ کاروبار میں وہ شہر کراچی کو کیسا مستحکم اور مضبوط تحفہ دے کر گئے۔ جہاں بھی ہوں، خوش ہوں۔

اس عمار ت کے بیچ دالان ہے، ایک سو تیس فٹ لمبا اور ایک سو فٹ چوڑا۔ اس کی چاروں طرف چھیالیس چھیالیس فٹ چوڑی گیلریاں بنی ہیں جن میں دو سو اسی دکانوں کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ شہر کراچی میں اس وقت بولٹن مارکیٹ سمیت سات مارکیٹیں تھیں لیکن ایمپریس مارکیٹ کے آگے ماند تھیں۔ کچھ بھی ہو، یہ مارکیٹ اس وقت کی قیصرِ ہند، ملکہ عالیہ، وکٹوریہ کے نام پر تعمیر ہورہی تھی۔ اس وقت ان کی حکمرانی عروج پر تھی۔ ان کی تصویر والا سکہ مائیں اپنے بچوں کے گلے میں ڈالتی تھیں تاکہ بچے بہت جئیں۔ سبی بلوچستان کے قیدیوں نے برطانیہ میں ملکہ کے محل کے لئے اس کے بڑے ہال کے سائز کا قالین بنا کر بھیجا تھا جس میں کوئی جو ڑ نہ تھا۔ ملکہ کو ہندوستان سے اتنا لگاؤ تھا کہ اردو میں اپنا نام لکھتیں تو اس کے آگے قیصرِ ہند ضرور لکھتی تھیں۔وائسرائے کو ہدایت کی تھی کہ مسلمان عورتیں زچگی کے دوران زیادہ تعداد میں مرجاتی ہیں، ان کی مناسب دیکھ بھال کی جائے۔ اسی طرح حکم دیا تھا کہ برصغیر کے مسلمان کوئی بڑی درس گاہ بنا نا چاہتے ہیں، ان کی مدد کی جائے۔ خود ہندوستان کا دورہ کرنے کی بڑی خواہش مند تھیں مگر جانہ سکیں تو شاہی مصوروں کو ہندوستان بھیجا کہ وہاں کے منظر تصویروں میں ڈھال کرلائیں۔انہوں نے ہمارے گاؤں دیہات کی ایسی عمدہ تصویر کشی کی کہ آج کا کیمرہ بھی شرما جائے، وہ تصویریں آج تک وکٹوریہ کے محل میں لگی ہیں۔کراچی والوں نے فرئیر ہال کے شاندار چمن میں ملکہ کا سنگِ مرمر کا دلکش مجسمہ نصب کیا تھا، شہر کی وکٹوریہ روڈ اسی مجسمے تک جاتی تھی۔ہم لوگوں نے وہ مجسمہ اٹھا کر بلدیہ کے کباڑ خانے میں پھینک دیا۔ میں نے کئی بار لکھا کہ ساری سڑکوں کے نام بدل دو مگر وکٹوریہ کا نام رہنے دو۔ پر کون سنتا ہے؟

چلو، ہم نویلی ایمپریس مارکیٹ ہی کو اپنا ہیٹ اتار کر سلام کرلیا کریں گے کہ انگلستان میں معزز خواتین کو سلام یوں ہی کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین