اقوامِ متحدہ کے تحت 16نومبر کو دنیا بھر میں ’رواداری اور برداشت‘ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پہلی بار یہ دن 1996ء میں منایا گیا تھا اور گزشتہ 22سال سے یہ دن باقاعدگی سے منایا جارہا ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں کو مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر عدم رواداری کے نقصانات سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ موجودہ زمانے میں رواداری صرف اخلاقی فریضہ ہی نہیں، سیاسی اور قانونی ضرورت بھی ہے۔ رواداری ایک ایساجذبہ ہے، جس میں ہم نہ کسی سے محبت کرتے ہیں نہ نفرت، بلکہ ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں رواداری کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو برداشت کریں، جنہیں آپ جسمانی، لسانی، مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر ناپسند کرتے ہیں۔ رواداری واحد ایسی خوبی ہے جو نہ صرف مختلف قوموں اور جماعتوں کو بین الاقوامی سطح پر انسانی تہذیب کی تعمیر نو اور بہتری کے ضمن میں اکٹھے مل کر کام کرنے کا موقع فراہم کر سکتی ہے بلکہ ایک ہی ملک میں مختلف نظریات رکھنے والی جماعتوں اور لوگوں کو متحد کر کے قومی مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پر مختلف شخص اس دنیا میں اپنے نظریات و عقائد پر صرف اسی صورت آزادی سے عمل پیرا ہو سکتا ہے، جب وہ دوسروں کو ان کے نظریات و عقائد پر عمل کرنے کی آزادی دے۔ عوامی اور قومی معاملات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معاملات میںرواداری کی جتنی ضروت آج ہے، شاید اس سے پہلے کبھی نہ رہی ہو۔اور شاید گزرتے وقت کے ساتھ اس کی ضرورت آج سے زیادہ محسوس کی جائے۔
اقوامِ متحدہ کی کوششوں کے باوجود،بدقسمتی سے، ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے سے برداشت ختم ہو رہی ہے ۔گزشتہ چند برسوں میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگوں کے رویوں میں عدم برداشت کا بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ اس کے اسباب جھوٹ، ناانصافی، چور بازاری، اقربا پروری، مہنگائی، بے روزگاری اور میرٹ کی خلاف ورزیاں وغیرہ ہیں۔ میڈیا پر نشر ہونے والے پر تشدد پروگرام اورفلمیں بڑوں اور بچوں پرمنفی اثرات مرتب کررہی ہیں۔ معاشرے میں اس کے منفی اثرات سامنے آرہے ہیں اور لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں۔
پاکستان میں عوام و خواص کی اکثریت عدم برداشت کی اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ کئی لوگوں سے مذاق تک برداشت نہیں ہوتا،ہلکی پھلکی باتوں کو بھی ہتک عزت سمجھا جاتا ہے ، لوگ بُری بات تو کیا کسی کی اچھی بات بھی برداشت کرنے کو تیارنہیں۔لوگ معمولی سی بات پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ،ہر شخض دوسرے کو برداشت کرنے کے بجائے کھانے کو دوڑتا ہے ۔ بالخصوص گزشتہ چندسال سے قتل و غارت گری، دہشت گردی، فرقہ واریت اور عدم برداشت کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔اس کی وجہ کرپشن، بھوک و افلاس،بے روزگاری ،جہالت ،اور قانون کا عدم نفاذ ہے ۔
ملک کے مذہبی و سیاسی رہنما ملک سے عدم برداشت کے خاتمے کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں ،کیونکہ جس طرح عدم برداشت اوپر سے نیچے کی طرف آئی ہے، اسی طرح برداشت ،میانہ روی اور رواداری بھی اوپر سے نیچے کی طرف آئے گی ۔لوگ اپنے رہنماؤں کی طرف دیکھتے ہیں، ان کا اثر قبول کرتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔
میانہ روی ، رواداری، تحمل مزاجی ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا، معاف کر دینا اور انصاف کرنا۔ یہ وہ خوبیاں ہیں، جن کی وجہ سے معاشرے میں امن و چین کا دور دورہ ہوجائے گا ۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عدم برداشت ہماری نفسیات، جسم، روح، معاشرت، معاش اور تعلقات کے لیے تباہی و بربادی ہے ۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگی میں بھی تبدیلی لائیں، اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے اور وہ کھلے دل سے اسے تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لے تو ہمیں نہ صرف اسے معاف کرنا چاہیے بلکہ اس کی تعریف اور تقلید بھی کرنی چاہیے۔
عدم برداشت ہی کی وجہ سے معاشرے میں بدنظمی، بدعنوانی، معاشرتی استحصال، لاقانونیت اور ظلم و عداوت جیسے ناسور پنپ رہے ہیں، عدم برداشت ہی کی بناء پر آج کا انسان بے چینی، جلد بازی، حسد، احساس کمتری اور ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ یہ صبر و تحمل کی ہی کمی ہے، جس کا خمیازہ ہم آج دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
انسانی معاشرہ ایک گلدستے کی طرح ہے، جس طرح گلدستے میں مختلف رنگ کے پھول، حسن و خوبصورتی کا باعث ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح انسانی معاشرہ بھی مختلف الخیال، مختلف المذاہب اور مختلف النسل افراد سے مل کر ترتیب پاتا ہے اور اس کا یہی تنوع اس کی خوبصورتی کا سبب بنتا ہے۔ چناں چہ میانہ روی ، رواداری، تحمل مزاجی، عفو و درگزر اور ایک دوسرے کو برداشت کرنےکا جذبہ، یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے سماج امن و امان کا گہوارہ بنتا ہے اور اس طرح ایک صالح معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔