• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج انسانیت اکیسویں صدی میں اپنے سفر پر رواں دواں ہے۔ انسانی تاریخ کا جائزہ لیں تو بلاشبہ بہت سے ایسے موڑ آئے ہیں، جب انسانی تمدن شعوری بلندی کے ساتھ نمو پاتے اور نمایاں ہوتے نظر آیا لیکن سچی بات یہ ہے کہ انسانیت نے جو ہمہ گیر اور ہمہ پہلو ترقی بیسویں صدی میں کی، تاریخ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ ہوشربا ترقی محض سائنسی ایجادات تک محدود نہیں رہی بلکہ فکری و شعوری لحاظ سے زندگی کا کوئی ایک بھی پہلو ایسا نہیں جس میں انقلاب برپا نہ ہوا ہو، اقوام عالم کی سیاست، معیشت، معاشرت سب کچھ بدل گئے ہیں۔ اس اعتراف و سپاس کے باوجود اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ اخلاقی لحاظ سے کچھ بھی نہیں بدلا، ظلم کل بھی ہوتا تھا، ظلم آج بھی ہوتا ہے۔ انسانی مساوات کل بھی ایک خواب تھی، آج بھی ایک خواب ہے۔ حقوق و انصاف پر جس طرح پہلے زور آوروں اور طاقتوروں کا غلبہ و قبضہ تھا، اسی طرح آج بھی وہ قابض ہیں بلکہ دیکھا جائے تو اخلاقی نقطۂ نظر کے ایک حوالے سے آج کی دنیا، ماقبل دنیا سے قدرے پستی میں چلی گئی ہے۔ پہلے ایک انسان اپنی پوری قوت اور ہتھیاروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کتنے انسانوں کی جانیں لینے کی قدرت رکھتا تھا؟ اور اب وہی ایک انسان لمحے بھر میں کتنے انسانوں کو ہلاک و برباد کر سکتا ہے؟ یہ درمیانی فرق کیا انسانیت کی اضافی تباہی نہیں ہے؟

دورِ جدید نے جہاں انسانیت کو اتنی طاقتوں اور سہولتوں سے بہرہ ور کر دیا ہے وہیں اس پر بھاری ذمہ داریاں بھی عائد کر دی ہیں۔ یہ کائنات کی مسلمہ حقیقت ہے کہ جو جتنی بلندی سے گرتا ہے، اتنی ہی گہری چوٹ بھی کھاتا ہے۔ اگر غیر ذمہ دار ہاتھوں میں ایٹم بم جیسی طاقت آ جائے گی تو پوری دنیا ان ہاتھوں سے خوفزدہ رہے گی۔ اس تناظر میں دیکھیں تو آج کی دنیا کیلئے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ یہاں انصاف ہو، انسانی مساوات ہو، اعلیٰ انسانی اخلاقیات کی سر بلندی ہو۔ اگر ایسا نہ کیا جا سکا تو انسانیت پر کسی بھی وقت ایسی تباہی امڈ آئے گی جس کی مثال اب تک کی معلوم انسانی تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں مل سکے گی۔ ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے صدمات چھوٹے محسوس ہونے لگیں گے۔

آج کی دنیا کو درپیش انتہائی مہلک خطرہ اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ اقوامِ عالم میں ترقی کا کوئی توازن ہنوز استوار نہیں ہو پایا۔ اسی عدم توازن سے وہ چنگاریاں دہکتی اور ابھرتی محسوس ہو رہی ہیں جو ترقی یافتہ اقوام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ بلاشبہ قصور اس میں پسماندہ اقوام کا اپنا ہے، ان کی جہالت، کاہلی، بےپروائی، تنگ نظری، رجعت پسندی اور جھوٹی اکڑ کا ہے لیکن ذمہ داری سے بچ وہ اقوام بھی نہیں سکتی ہیں جو خود تو ترقی یافتہ ہیں اور دیگر اقوام کو پسماندگی سے نکالنے کیلئے سوائے ہمدردی اور معمولی جمع خرچ کے کچھ نہیں کر رہیں یا جو کچھ کر رہی ہیں وہ ان کی حیثیت، وسائل، طاقت اور صلاحیت سے مطابقت میں کم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ مشکل بھی درپیش ہے کہ اگر کچھ کرتی ہیں تو انہیں طرح طرح کے چیلنجز مخالف سمت سے آتے دکھائی دیتے ہیں جو خود ان کیلئے مسائل کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بڑا مشکل اور کٹھن سفر ہے۔ وقت نے ترقی یافتہ اقوام پر دہری ذمہ داری ڈال دی ہے، انہیں نہ صرف یہ کہ خود آگے بڑھنا ہے بلکہ پسماندہ معاشروں اور ان کے مسائل کو بھی بڑے تدبر اور حکمت کے ساتھ اپنے پہلو میں لے کر آگے چلنا ہے۔ ان کے مفاسد سے اپنے وجود کو بھی محفوظ رکھنا ہے اور اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو بھی ہمہ وقت خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ہے ورنہ ان کی اپنی ترقی ہر گزرتے لمحے رسک اور گھات میں رہے گی۔ ترقی یافتہ اقوام بالخصوص اقوامِ مغرب جتنی جلدی ان حقائق کا ادراک و اعتراف کر لیں، ان کیلئے بہتر ہے۔ اس لئے کہ آج کی دنیا کو براعظموں یا جزیروں میں مقید نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر یہ دنیا گلوبل ویلج ہے تو کسی نہ کسی توازن کے ساتھ اس کے ہر محلے کی سڑکیں بہتر ہونی چاہئیں۔ بات محض سڑکوں تک محدود نہیں ہے، سائنسی ترقی اور معاشی خوشحالی سے بھی آگے بڑھنا ہو گا۔ سیاست اور معاشرت تک میں دوئی کو پاٹنا اور کم سے کمتر کرنا ہو گا ورنہ تضادات خلفشار میں بدلیں گے اور خلفشار نفرت میں نمودار ہو کر آگ کا گولہ بن جائیں گے۔

تہذیبی تشخص، رنگا رنگی اور اختلافات اپنی جگہ، معاشی اونچ نیچ بھی بجا، سیاسی و سماجی تفاوت بھی حقیقت لیکن یہ حقیقتیں اتنی بھی نہ بڑھ جائیں کہ پہاڑ بن کر انسانیت کے درمیان حائل ہو جائیں۔ پھر منافرتوں کا الائو دہکائیں اور سب کو بھسم کر ڈالیں۔ گلوبل ویلج کی سلامتی اور ترقی کے اپنے کچھ تقاضے ہیں۔ اس میں یہ ممکن نہیں ہے کہ ’’ایک محلے میں تو ملیں حور و قصور اور دوسرے محلے میں فقط وعدۂ حور‘‘، ایسی صورتحال میں پسماندہ گلی کوچوں سے جو احساسِ محرومی ابھرے گا وہ نئے دور کے نئے ظروف میں محض نفرت اور حسد تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے گولے یہاں سے ابھر کر ترقی یافتہ کوچوں کے ایوانوں میں پھٹیں گے۔ اس وقت یہی کچھ آج کی دنیا میں ہو رہا ہے جو آگے چل کر مزید بڑھے گا۔ اسی سے مغرب کی بیشتر ترقی یافتہ مہذب اقوام سخت پریشان ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا وجود آج کی دنیا کیلئے بہت بڑی نعمت ہے، ضرورت اس پلیٹ فارم کو مزید مؤثر اور توانا بنانے کی ہے تاکہ اس کے ذریعے کچھ ایسی عملی راہیں تراشی جا سکیں جو اقوامِ عالم میں ترقی کے عدم توازن کو کم سے کمتر کر سکیں۔ بلاشبہ اس کیلئے ترقی یافتہ اقوام کو اپنے قومی وسائل میں سے قربانی دینا پڑے گی اور بہت سی ترقی پذیر اقوام کی رہنمائی بھی کرنا پڑے گی، جو اپنے قدرتی وسائل کو یا تو ضائع کر رہی ہیں یا کماحقہ‘ انہیں استعمال میں نہیں لا رہیں بلکہ اکثر اپنے ثقافتی، مذہبی، تاریخی، معاشرتی اور سیاسی تعصبات اور الجھنوں سے ہی اوپر نہیں اٹھ پا رہیں۔

تازہ ترین