• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی تفتیشی ادارے سی آئی اے نے اپنی تحقیقات کے بعد اندازہ لگایا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نےسعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تھا۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گذشتہ ماہ ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل کر دیا گیا تھا ۔ سعودی حکومت کا اس بارے میں کہنا تھا کہ اس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ملوث نہیں ہیںلیکن بعد ازاں سعودی حکام نے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ صحافی کی موت استنبول میں واقع قونصل خانے میں لڑائی کے دوران ہوئی تاہم ان کی لاش اب تک برآمد نہیں کی جاسکی۔

امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کی تحقیقات کے مطابق جمال خاشقجی کے قتل سے قبل اور بعد میں کی جانے والی محمد بن سلمان کی فون کالز اور قتل کے بعد ترکی میں سعودی سفارت خانے میں سعودی ایجنٹس کی کالز کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔

تحقیقات کے مطابق 15 سعودی ایجنٹس پر مشتمل ایک ٹیم اکتوبر میں حکومتی طیارے میں استنبول آئی اور سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو قتل کیا جو وہاں اپنی ترک منگیتر سے شادی کے لیے درکار ضروری کاغذات وصول کرنے کے لیے آئے تھے۔

اپنی تحقیقات میں سی آئی اے نے بہت سے انٹیلی جنس ذرائع کا جائزہ لیاجن میں وہ فون کال بھی شامل ہےجس میں امریکا میں تعینات سعودی سفیر اور ولی عہد محمد بن سلمان کے بھائی خالد بن سلمان کی مقتول صحافی جمال خاشقجی سے گفتگو ہوئی تھی۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے سی آئی اے کے حوالے سے کہا ہے کہ اس معاملے سے آگاہ افراد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خالد بن سلمان نے جمال خاشقجی کو کہا تھا کہ وہ دستاویزات لینے کے لیے استنبول میں سعودی قونصل خانے جائیں اور انھیں یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ محفوظ رہیں گے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اسی حوالے سے لکھا ہے کہ سی آئی اے کو کئی ہفتوں سے یقین تھا کہ ولی عہد محمد بن سلمان جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں لیکن وہ یہ اس نتیجے پر پہنچنے پر ہچکچا رہے کہ کیا واقعی ولی عہد نے قتل کا حکم دیا تھا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کے سوچ میں اس وقت تبدیلی آئی جب نئی معلومات سامنے آئیں۔ ان میں وہ کال بھی شامل تھی جس میں ایجنٹوں کی ٹیم کا ایک رکن محمد بن سلمان کے ایک مشیر کو کال کر کے کہتا ہے کہ 'اپنے باس کو بتا دو کہ مشن مکمل ہو چکا ہے۔

اخبار کے مطابق سی آئی اے نے اپنا تجزیہ ٹرمپ انتظامیہ اور قانون سازوں کو پیش کر دیا ہے۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انٹیلی جنس معاملہ ہے۔اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بھی رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا گیا۔

خالد بن سلمان نے واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے جانے کی تجویز دینے کی تردید کردی۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں انہوں نے بتایا کہ ان کی سعودی صحافی سے آخری مرتبہ بات ان کے قتل سے ایک سال قبل 26 اکتوبر 2017 کو ایک ٹیسکٹ میسج کے ذریعے ہوئی تھی۔


اپنے دوسری ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ بدقسمتی سے واشنگٹن پوسٹ نے اس معاملے پر ان کا مکمل جواب شائع نہیں کیا۔


واضح رہے خاشقجی سعودی حکمرانوں کے بڑے ناقدین میں سے ایک تھے۔ سعودی عرب کا موقف ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم ولی عہد محمد بن سلمان نے نہیں، بلکہ ایک سینئیر انٹیلی جنس اہلکار نے دیا تھا۔

سعودی عرب نے ان خبروں کی بھی تردید کی ہے جن میں کہا گیا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کسی امریکہ اہلکار کو بتایا تھا کہ جمال خاشقجی خطرناک اسلامی شدت پسند تھے۔


تازہ ترین