24سال کی عمر میں کوئی شاعری کی دنیا میں داخل ہو اور44سال کی عمر میں جہانِ فانی سے کوچ کر جائے لیکن جانے کے بعد بھی اپنی گہری چھاپ چھوڑ جائے۔ پروین شاکر اردو شاعری میں ایک ایسا ہی نام ہے۔ کچھ لوگوں کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ان پر یہ شعر صادق آتا ہے:
عمر چھوٹی ہے تو کیا
جذبوں کی لو تیز کرو
24نومبر 1952ء،پیر کی سرد رات اور رِم جھم برستی بارش میں جونہی مؤذن نے صدا ئے اذان بلند کی، کراچی کے ایک ہسپتال میں ایک ننھی سی کلکاری گونجی اور افضل النساء اور سید ثاقب حسین زیدی کے ہاں ایک پری کا جنم ہوا، جسے دنیا پروین شاکر کے نام سے جانتی ہے۔
ان کے اسلاف کا وطن ہندوستان کے صوبہ بہار میں ہیرپا سرائی دربھنگہ کے نزدیک محلہ چندن پٹی تھا۔ جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ گھرانہ علم و ادب کے ساتھ وابستہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی شعرا ء اور ادباء پیدا ہوئے، اس لیے بچپن سے ہی انھیں علم دوست ماحول میسر آیا اور وہ بہت سے شعرا ء اور ادبا ء سے واقف ہوئیں۔ ان کے والد سید ثاقب حسین خود بھی شاعر تھے اور شاکر تخلص کرتے تھے، اس نسبت سے پروین شاکر اپنے نام کے ساتھ شاکر لکھتی تھیں۔ برِصغیر کی تقسیم کے بعد ان کے والد پاکستان ہجرت کر کے کراچی کے علاقے چاکیواڑہ میں آباد ہوئے۔ انھیں وراثت میں شاعری کا شوق صرف والد سے ہی نہیں ملا تھا بلکہ ان کے نانا سید حسن عظیم عسکری آبادی بھی شاعرتھے۔ نانا کی سرپرستی میںپروین شاکر نے شعر و ادب بچپن سے ہی پڑھنا شروع کیا۔ وہ ریڈیو پاکستان، کراچی کی ادبی محفلوں میں بھی شریک ہوتی تھیں۔ 1970ء میں ریڈیو پر بزمِ طلبہ کے تحت منعقدہ مشاعرے میں انھوں نے اول انعام حاصل کیا، جو انھیں سب سے زیادہ عزیز رہا۔
پروین شاکر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ،بعد میں رضیہ گرلز ہائی اسکول کراچی میں داخلہ لیا، جہاں سے انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر سرسید گرلز کالج کراچی سے انگلش لٹریچرمیں بی اے آنرز کیا۔ 1972ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کا امتحان امتیازی نمبروں سےپاس کیا، پھروہیں سے لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد پی ایچ ڈی کے لیے ’جنگ میں ذرائع ابلاغ کا کردار‘ پر مقالہ لکھا، جسے وہ پیش نہ کرسکیں کیونکہ اسی دوران وہ ہارورڈ یونیورسٹی امریکا سے وابستہ ہو گئیں، جہاں سے انھوں نے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا۔ تعلیمی سلسلہ ختم ہوا تو انھوں نے عبداللہ گرلز کالج کراچی میں انگریزی لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ 9برس تک وہ درس و تدریس کی خدمات انجام دیتی رہیں۔ اس کے بعد سول سروسز یعنی سی ایس ایس کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئیں۔ کامیاب ہونے کے بعد محکمہ کسٹمز میں کلکٹر ہو گئیں۔ اس عہدے سے ترقی کرتے ہوئے پرنسپل سیکریٹری اور پھر سی۔ آر۔ بی۔آر اسلام آباد میں مقرر ہوئیں۔
پروین شاکر کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ جب وہ سی ایس ایس کے اردو کے امتحان میں بیٹھیں تو پرچے میں ایک سوال ان کی شاعری سے متعلق بھی شامل تھا۔ پروین شاکر بلا کی ذہین تھیں۔ ان کی بڑی بہن نسرین تعلیم میں ان سے دو درجے آگے تھیں۔ تیسری جماعت میں ذہانت کی بنیاد پر پروین شاکر کو ڈبل پروموشن دیا گیا اور اس طرح اسکول میں وہ پانچویں جماعت میں اپنی بہن کے برابر آگئیں۔ آٹھویں جماعت سے انھیں وظیفہ بھی ملنا شروع ہوگیا۔
پروین شاکر کے کلام کا پہلا مجموعہ ’خوشبو‘1976ء میں اس وقت شائع ہوا، جب وہ صرف 24برس کی تھیں۔ اس وقت وہ کراچی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھیں اور صرف 6ماہ کےاندر ان کی کتاب کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔
پہلی کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی ان کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوگئی، لیکن 1989ء میں یہ شادی علیحدگی پر ختم ہوئی۔ ان کے یہاں ایک بیٹے کی ولا دت ہوئی، جس کا نام سید مرادعلی رکھا گیا۔
پروین شاکر، احمد ندیم قاسمی سے بے حد متاثر تھیں اور انہیں ’عمو جان‘ کہہ کر پکارتی تھیں۔ پہلا مجموعہ خوشبو انہی کے نام منسوب ہے۔ اس کتاب کی اشاعت میں احمد ندیم قاسمی کا اہم کردار تھا۔ پروین شاکر نے احمد ندیم قاسمی کے ادبی جریدے ’فنون‘ کے لیے پہلے ہی لکھنا شروع کردیا تھا، جہاں ان کی شاعری کو مزید جِلا ملی۔
پھر یکے بعد دیگرے ’صدبرگ‘ (1980ء)، ’خود کلامی‘ (1980ء)، ’’انکار‘‘ (1990ء) ان کی زندگی میں شائع ہوئےاور سب کو بے پناہ مقبولیت، پذیرائی اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ان کی جواں مرگی کے سانحے کے دوسرے سال’’کفِ آئینہ‘‘کے نام سے ان کی بڑی بہن نسر ین شا کر کی نگرانی میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوا۔ اپنی وفات سے قبل وہ اسے ترتیب دے رہی تھیں اور ’’کفِ آئینہ‘‘ خودپروین شاکر کا تجویز کر دہ نام تھا۔
پروین شاکر کی شاعر انہ عظمت وبلند قامتی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں پہلی ہی کتاب ’خوشبو‘پر’آدم جی ا یوارڈ ‘سے نوازا کیا گیا، جبکہ 1990ء میں پاکستان کا اعلیٰ شہری اعزاز’ تمغۂ حسنِ کارکردگی‘بھی انھیں تفویض کیا گیا۔
پروین شاکراردوکی ایک مکمل،ہمہ جہت اورکامیاب ترین شاعرہ تھیں، جن کی شاعری دلوں کے تار چھیڑتی اور احساسات کی سچی ترجمانی کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کوایک عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی ہنوز ان کا نام دنیائے ادب و شعرمیں روشن و تابناک ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ خود پروین شاکر کوبھی اس کا ادراک ہو گا، سو انھوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا :
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
پروین شاکر کے پاس جذبات اور الفاظ کی کوئی کمی نہ تھی، اگر کمی تھی تو فقط سانسوں کی، زندگی کی جتنی سانسیں وہ اپنے ساتھ لائی تھیں آخر کو وہ پوری ہوئیں اور 26دسمبر 1994ء کو اسلام آباد میں دفتر جاتے ہوئے ایک کار حادثے میں وہ سفرِ آخرت پر روانہ ہوئیں۔