• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو مکّے کی ہر صبح ہی نہایت خوش گوار اور حَسین ہوتی، لیکن آج کی مہکتی صبح، اہلِ ایمان کے لیے خوشی و مسرّت کا ایک اَن مول پیغام لیے جلوہ گر ہوئی۔ کالے پہاڑوں کے عقب سے جھانکتی، اٹکھیلیاں کرتی، نارنجی اور روپہلی کرنیں ،شہرِ مقدّس کو اپنی بانہوں میں سمیٹنے کے لیے خراماں خراماں آگے بڑھ رہی تھیں، تو ابابیلیں، اللہ کی حمد و ثناء کے ترانے گنگناتی، وجد کی سی کیفیت میں ڈگمگاتی، اوپر، نیچے تیرتی، محوِ طواف تھیں۔ خلافِ توقّع فضا میں ایک اَن جانی سی پُراسرار خاموشی ہے کہ جیسے ہوائیں بھی کسی اَن ہونی کی منتظر ہوں۔ کوہِ صفا کے دامن میں واقع ایک مکان، ’’دارِ ارقم‘‘ میں اللہ کے رسولﷺ اپنے چند رفقاء کے ساتھ مقیم ہیں۔ اعلانِ نبوت کو 6سال گزر جانے کے باوجود، مصائب و آلام کے پہاڑ اور خوف و ہراس کے گہرے سائے اہلِ ایمان کے تبلیغی کاموں میں رکاوٹ ہیں۔ ابھی تک40مرد اور11خواتین ہی مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ کل رات حضور نبی کریمﷺ نے ربّ ِ ذوالجلال کی بارگاہ میں دُعا فرمائی’’ اے پروردگارِ عالم! عُمر بن خطاب اور عمرو بن ہشام(ابوجہل) میں سے جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہو، اس سے اسلام کو قوّت عطا فرما۔‘‘ ابھی کچھ ہی لمحات گزرے تھے کہ اچانک دروازے پر غیر مانوس دستک ہوئی۔ ایک صحابیؓ نے دروازے کی جِھری سے جھانکا، تو دیکھا کہ عُمر بن خطاب ننگی تلوار لیے کھڑے ہیں۔ وہ خوف زَدہ ہو کر پیچھے ہٹے اور رسول اللہﷺ کو اطلاع دی۔ آپﷺ کے چچا، حضرت امیر حمزہؓ، جو تین دن پہلے ہی ایمان لائے تھے، اپنی تلوار نیام سے باہر نکال کر فرماتے ہیں’’ آنے دو، اگر نیک نیّت سے آئے ہیں تو ٹھیک، ورنہ آج اُنہی کی تلوار سے اُن کا سَر تَن سے جدا کر دوں گا۔‘‘ عُمرؓ کے اندر آتے ہی نبی کریمﷺ خود سب سے پہلے آگے بڑھے اور اُن کی چادر کھینچ کر فرمایا۔’’ اے ابنِ خطاب! کس مقصد سے آئے ہو؟‘‘ عُمرؓ نے سر جُھکا کر عرض کیا ’’یارسول اللہﷺ! مَیں اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔‘‘ اور یہی اسلامی تاریخ کا وہ پہلا لمحہ تھا کہ جب مکّے کے در و دیوار اللہ کی کبریائی کے نعروں سے گونج اٹھے۔ کوہِ صفا کے دامن سے فضائوں کو چیرتی نعرۂ تکبیر کی ایمان افروز صدائوں نے مشرکین کو لرزا دیا۔ خوف کی ایک لہر اُن کے سراپے ڈگمگا گئی، غم و غصّے نے صفوں میں کہرام مچا دیا۔ نعرۂ تکبیر کی رُوح پرور آوازیں، اُن کی سماعتوں پر گویا ہتھوڑے برسا رہی تھیں۔ ابھی وہ اُن آوازوں کی سمت کا اندازہ بھی نہ کر پائے تھے کہ اُنہیں مُٹھی بھر مسلمانوں کی دو جماعتیں حرم شریف میں داخل ہوتی نظر آئیں۔ ایک کی قیادت، حضرت حمزہؓ کر رہے تھے، تو دوسری میں سب سے آگے حضرت عُمرؓ بن خطاب تھے۔ عُمرؓ بن خطاب کو نبی کریمﷺ کے ساتھ دیکھ کر قریشِ مکّہ پر سکتہ طاری ہو گیا۔ ابوجہل پاگلوں کی طرح اپنا سَر پیٹنے لگا۔ اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں نے حرم شریف میں رسول اللہﷺ کی امامت میں نماز ادا کی۔ اس موقعے پر حضورﷺ نے حضرت عُمرؓ کو ’’فاروق‘‘ کا خطاب عطا فرمایا۔ حضرت ابنِ عباسؓ کی روایت ہے کہ حضرت عُمر فاروقؓ جب ایمان لائے، تو جبرائیل امینؑ نے خدمتِ نبویؐ میں حاضر ہوکر فرمایا’’ یا رسول اللہ ﷺ ! آسمان والے بھی حضرت عُمرؓ کے قبولِ اسلام پر مسرور و خوش ہیں‘‘(ابن ماجہ)۔

سلسلۂ نسب

آپؓ کا تعلق قریش کے ایک معزّز قبیلے،’’بنو عدی‘‘ سے تھا۔ آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ عُمرؓ بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزّیٰ بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوّیٰ بن فہر بن مالک۔ آٹھویں پشت میں آپؓ کا سلسلۂ نسب، نبی کریمﷺ سے مل جاتا ہے۔ آپؓ کی کنیت،’’ابو حفص‘‘ ہے۔ ہجرت سے40سال پہلے590عیسوی میں مکّہ مکّرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کی والدہ، حنتمہ بنتِ ہشام بن مغیرہ تھیں، جو ابوجہل کی حقیقی بہن تھیں۔

حلیۂ مبارک

آپؓ جوانی میں نہایت خُوب صُورت تھے۔ سُرخ و سفید رنگت، طویل قد و قامت، مضبوط ڈیل ڈول، بھاری بھرکم جسامت، چوڑا سینہ، خُوب صورت آنکھیں، گھنی داڑھی، بڑی مونچھیں، کسرتی جسم اور چہرے پر رُعب و دبدبے کے ساتھ بھرپور مَردانہ وجاہت کے حامل۔

کاتبِ وحی

عرب میں پڑھنے لکھنے کا رواج نہیں تھا، لیکن آپؓ اُن17افراد میں شامل تھے، جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے، لہٰذا اللہ کے رسولﷺ نے آپؓ کو’’کاتبِ وحی‘‘جیسا عظیم منصب عطا فرمایا۔ حضرت عُمر فاروقؓ ابتدائی دِنوں کے کاتبینِ وحی میں سے ایک تھے اور اُنھوں نے ہی سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو بااصرار کلامِ پاک کی تدوین پر آمادہ کیا تھا۔

فضائل و خصائل

حضرت عُمر فاروقؓ بہترین انتظامی صلاحیتوں، اعلیٰ اوصاف، دبنگ اور بارُعب شخصیت کے مالک تھے۔ ظہورِ اسلام کے وقت، اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھے، لیکن جب اسلام قبول کر لیا، تو پھر اپنا تَن، مَن، دَھن سب اسلام کے لیے وقف کر دیا۔ سخت مزاجی کے باوجود، عاجزی، انکساری، تواضع اور عدل، مزاج کا حصّہ تھے۔ خلافت کا بوجھ کندھوں پر آیا، تو گریہ اور رِقّت میں اضافہ ہو گیا۔ شب کی تنہائیوں میں ربّ کے حضور آنسو بہانا اور گڑگڑانا اُن کا معمول تھا۔ راتوں کو اٹھ کر رعایا کی خبر گیری کرتے، اُن کی خدمت کرتے اور اُنہیں پتا بھی نہ چلتا کہ جو شخص رحمت کا فرشتہ بن کر رات کی تاریکیوں میں اُن کے دُکھوں کا مداوا کر رہا ہے، وہ کوئی اور نہیں، خود امیرالمومنین، عُمرؓ بن خطاب ہیں۔آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ’’ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا یا بکری کا بچّہ بھی بھوکا مر گیا، تو روزِ قیامت، عُمرؓ سے جواب طلب ہو گا۔‘‘ اپنے دورِ خلافت میں عدل و انصاف کا ایسا نظام قائم کیا کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پانی پینے لگے۔ زبان و بیان کی آزادی اور بے خوفی کا یہ عالم تھا کہ ایک بدّو بھی بَھری مجلس میں اُٹھ کر سوال کر دیتا کہ ’’امیرالمومنین! آپؓ جو کُرتا پہنے ہوئے ہیں، اس کے لیے کپڑا کہاں سے آیا‘‘، اور عظیم الشّان مملکتِ اسلامیہ کا سربراہ، اس بدّو کو مطمئن کرنے کا پابند تھا۔ آپؓ نے دنیا کو عدل سے بھر دیا۔ اس لیے پوری دنیا میں’’عدلِ فاروقی‘‘ ہمیشہ کے لیے ضرب المثل بن گیا۔سیّدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ جِن و انس کے شیاطین، عُمرؓ کو دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہیں اور ڈر کر بھاگ جاتے ہیں(ترمذی)۔‘‘ آپؓ کی صاحب زادی، حضرت حفصہؓ کا نکاح، نبی کریمﷺ سے ہوا، یوں آپؓ رشتے میں حضورﷺ کے سُسر تھے۔ ایک موقعے پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا، تو عُمرؓ ہوتے‘‘(ترمذی)۔ حضرت امام حسنؓ کا بیان ہے کہ’’ ایک دفعہ فاروق اعظمؓ جمعے کا خطبہ دے رہے تھے، مَیں نے دیکھا کہ اُن کے کپڑوں پر بارہ پیوند لگے ہوئے تھے۔‘‘

سیّدنا عُمرؓ کی رائے اور موافقاتِ قرآن

حضرت عُمرؓ نے فرمایا کہ’’ میرے ربّ نے تین مواقع پر میری رائے سے اتفاق کیا۔ (1) مَیں نے عرض کیا’’ یارسول اللہﷺ ! کاش ہم مقامِ ابراہیمؑ کو نماز کی جگہ بناتے‘‘، جس کے بعد اللہ نے سورۂ بقرہ میں فرما دیا ’’اور مقامِ ابراہیمؑ کو نماز کی جگہ بنا لو۔‘‘ (2) مَیں نے عرض کیا’’یارسول اللہﷺ! ازواجِ مطہراتؓ کو پردے کا حکم دیجیے۔‘‘ تو اللہ نے سورۂ احزاب میں فرما دیا’’ اے نبیؐ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی چادروں کے پَلّو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں۔‘‘ (3) غزوۂ بدر کے قیدیوں کے بارے میں میری رائے تھی کہ اُنہیں قتل کر دیا جائے (فدیہ نہ لیا جائے)، اللہ تعالیٰ نے سورۂ انفال میں میری رائے کی تائید کردی‘‘ (بخاری، مسلم)۔

واقعہ ہجرتِ مدینہ

ایک صبح نمازِ فجر کے بعد حضورﷺ نے سیّدنا عُمرؓ کو مدینہ منورہ ہجرت کا حکم دیا۔ عام خیال تھا کہ وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح رات کی تاریکی میں خفیہ طور پر مدینہ ہجرت کر جائیں گے، لیکن حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ’’ حکم ملتے ہی عُمرؓ گھر گئے، جسم پر ہتھیار سجائے، ہاتھ میں ننگی تلوار پکڑی اور تنِ تنہا خانۂ کعبہ میں تشریف لائے۔ اُس وقت مشرکین کے سردار اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ موجود تھے۔ حضرت عُمرؓ نے اطمینان کے ساتھ بیت اللہ کا سات بار طواف کیا۔ مقامِ ابراہیمؑ پر دو رکعت نفل ادا کیے۔ پھر ہاتھ میں تلوار پکڑ کر سردارانِ قریش کی مجلس میں تشریف لائے اور نہایت بارُعب اور بلند آواز میں کہا ’’اے دشمنانِ اسلام! تمہارے چہرے سیاہ ہو جائیں۔ اللہ تمہاری ناک خاک آلود کر دے۔ جان لو کہ عُمرؓ مکّے سے مدینہ ہجرت کر رہا ہے۔ تم میں سے جو شخص اپنی جان کا دشمن ہو، ماں کو روتا، بیوی کو بیوہ اور بچّوں کو یتیم چھوڑے، وہ حرم سے باہر مجھ سے نبردآزما ہو جائے۔‘‘ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ’’ عُمرؓ کے رُعب و دبدبے اور ہیبت کا یہ عالم تھا کہ کسی میں اپنی جگہ سے ہلنے اور اُنھیں روکنے کی ہمّت نہ تھی‘‘۔

غزوات میں شرکت

سیّدنا عمرؓ نے رسول اللہﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی اور بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ دشمن بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ غزوۂ بدر میں اپنے عزیز و اقارب کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر کے دنیا بھر کو پیغام دیا کہ اصل رشتہ، دین کا رشتہ ہے۔

عظیم الشّان فتوحات

حضرت فاروقِ اعظمؓ کے دورِ خلافت میں بائیس لاکھ، اکیاون ہزار، تیس مربع میل رقبے پر اسلامی پرچم لہرایا گیا۔ خلافتِ اسلامیہ کی حدود، جزائرِ عرب سے باہر مِصر، طرابلس سے مکران اور بلوچستان کے ساحلوں تک پھیل گئی تھیں۔ ایران اور روم کی ناقابلِ تسخیر سلطنتوں کا غرور و تکبّر خاک میں مل چُکا تھا۔ حضورﷺ کی پیش گوئی کے مطابق، خسرو پرویز کی سلطنت کے پرخچے اُڑ گئے اور حضرت سراقہ بن مالکؓ کو کسریٰ کے کنگن پہنائے گئے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سیّدنا عُمرؓ کے دورِ خلافت میں جتنا رقبہ فتح کیا گیا، اتنا آج تک کسی عہدِ حکومت میں فتح نہیں ہوا۔ ایک یورپی مؤرخ نے لکھا ہے کہ’’ اگر عُمر( رضی اللہ عنہ) کچھ عرصہ مزید زندہ رہ جاتے، تو دنیا کا دو تہائی حصّہ مسلمانوں کے زیرِنگیں ہوتا۔‘‘

دریائے نیل کو خط

حضرت عمرو بن العاصؓ نے جب مصر فتح کیا ،تو دیکھا کہ دریائے نیل خشک ہے اور رعایا پانی کے لیے پریشان ہے۔ اُنھیں بتایا گیا کہ جب تک کسی خُوب صُورت لڑکی کو دلہن بنا کر نیل کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، دریا خشک ہی رہے گا۔ آپؓ نے امیرالمومنین، حضرت فاروق اعظمؓ کو تفصیل لکھ بھیجی۔ سیّدنا عُمرؓ نے نیل کے نام ایک رقعہ تحریر کیا ’’اللہ کے بندے، عُمر کی جانب سے نیل کے نام!! اگر تُو خود بہ خود جاری ہوتا ہے، تو مت جاری ہو اور اگر تجھے اللہ جاری کرتا ہے، تو مَیں اللہ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھے جاری کر دے۔‘‘ فاروقِ اعظمؓ کی ہدایت پر یہ خط دریائے نیل میں ڈال دیا گیا۔ صبح جب اہلِ مصر سو کر اٹھے، تو دیکھا کہ دریائے نیل اپنے آخری کناروں تک بھرا ہوا تھا۔

شہادتِ فاروقِ اعظمؓ

سیّدنا عُمرؓ نے اللہ سے دعا کی تھی کہ’’ اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا فرما اور اپنے محبوب کے شہر( مدینے) میں موت عطا فرما‘‘(بخاری)۔ 26ذی الحجہ، 23ہجری کی ایک صبح، جب آپؓ نمازِ فجر کی امامت کر رہے تھے، حضرت مغیرہؓ بن شعبہ کے پارسی غلام، ابولولو نے زہر سے بجھے دو دھاری خنجر سے آپؓ پر وار کیے۔ آپؓ نے زخمی ہو کر نیچے گرنے سے پہلے، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو کھینچ کر اپنی جگہ کیا اور گر کر بے ہوش ہو گئے۔ ابولولو نے بھاگتے ہوئے مزید12افراد کو زخمی اور6کو شہید کر دیا۔ لوگوں نے گھیر کر اُسے پکڑا، تو اُس نے خودکشی کر لی۔ آپؓ یکم محرم، 24ہجری، بروز ہفتہ63برس کی عُمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ آپؓ کی خواہش کے مطابق، حضرت عائشہؓ کی اجازت سے روضۂ رسولﷺ میں سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں سُپردِخاک کیا گیا۔ آپ ؓساڑھے دس سال تک مسلمانوں کے خلیفہ رہے۔

اولیات ِفاروقیؓ

سیّدنا عُمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں عوامی فلاح و بہبود کے لیے مختلف شعبوں میں اصلاحات کیں اور کئی نئے ادارے بھی قائم کیے۔ مؤرخین ان اقدامات کو’’اولیاتِ فاروقیؓ‘‘ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ آپ ؓنے امیرالمومنین کا لقب اختیار کیا، مجلسِ شوریٰ کا قیام عمل میں لائے، تاریخ اور سن ہجری جاری کیا، سِکّوں کا اجراء کیا، بیت المال یعنی محکمۂ خزانہ قائم کیا، باقاعدہ عدالتیں بنائیں اور قاضی مقرّر کیے۔ پھر یہ کہ پولیس کا محکمہ قائم کیا، جیل خانے بنوائے، فوجی چھائونیاں قائم کیں، پیمائش کا طریقہ رُوشناس کروایا۔ نیز، مردم شماری کا نظام بھی آپؓ ہی کا وضع کردہ ہے۔ کوفہ، بصرہ اور موصل جیسے خُوب صورت شہر بسائے، تو بیوائوں، یتیموں، مساکین اور بچّوں کے لیے وظیفے مقرر کیے۔ آپؓ نے زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کا ایسا مربوط نظام قائم کیا کہ اُن کے دَور میں زکوٰۃ دینے والے تو بہت تھے، لیکن لینے والا کوئی نہ تھا۔ عدل و انصاف کا ایسا نظام وضع کیا جو پوری دنیا میں’’عدلِ فاروقیؓ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مفلوک الحال غیرمسلموں تک کے لیے وظائف مقرّر کیے۔ اشاعتِ دین اور تبلیغِ اسلام کے کام کو پوری دنیا میں پھیلایا، اس مقصد کے لیے مکاتب و مدارس قائم کئے اور اساتذہ کے لیے مشاہرے مقرّر کیے گئے۔ آپؓ ہی کے دور میں آئمۂ مساجد اور مؤذنین کی تن خواہیں مقرّر کی گئیں۔ مساجد میں روشنی کا انتظام کیا اور مساجد میں وعظ کا طریقہ طے کیا۔ مسجدِ حرام اور مسجدِ نبویؐ کی توسیع کروائی، تو مقامِ ابراہیمؑ کی موجودہ جگہ پر منتقلی آپؓ کے حکم سے ہوئی، اس سے پہلے یہ کعبہ شریف سے متصل تھا۔ آب رسانی کے نظام کو بہتر کیا۔ نہریں کھدوائیں، مکہ سے مدینہ تک مسافروں کے آرام کے لیے چوکیاں، سرائے اور مسافر خانے بنوائے، راستوں کو کشادہ اور پکّا کیا۔ مفتوحہ مُمالک میں صوبے بنائے، ریاستی نظام کو مضبوط کیا، سزا اور جزا کے نظام میں اصلاح لائے تاکہ بے قصور کو سزا نہ ہو اور مجرم چُھوٹ نہ پائے۔ راتوں کو گشت کر کے رعایا کا حال معلوم کرنے کا طریقہ نکالا، رضاکاروں کی تن خواہیں مقرّر کیں۔ آپؓ کسی شعبے کا سربراہ مقرّر کرتے وقت اُس شخص کے مال و اسباب( اثاثوں) کی فہرست مرتّب کرواتے۔ وبائی امراض اور قحط کے دنوں میں رعایا کے آرام کے لیے بہترین انتظامات کیے۔ یہ تو آپؓ کے اقدامات کی ایک اجمالی سی جھلک ہے، وگرنہ محض اس عنوان پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں اور لکھی گئی بھی ہیں۔بلاشبہ عہدِ فاروقیؓ، مسلمان سربراہان کے لیے مشعلِ راہ ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر کھویا ہوا عزّت و وقار دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین