• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تاریخ میں سی پیک پہلا منصوبہ ہے جس سے امید بندھ چلی ہے کہ ہماری بیمار معیشت، صحت سے ہمکنار ہو گی۔ مگر ہمارے دشمن جو ہمارے خلاف گٹھ جوڑ بنا چکے ہیں اس کوشش میں ہیں کہ سی پیک سبوتاژ ہو، ہمارے خواب بکھر جائیں، چین جیسے ہمدم دیرینہ کو ہم سے جدا کر دیا جائے، چینی قونصل خانے پر حملہ سی پیک پر حملہ تھا، ہماری بہادر پولیس، رینجرز نے جان پر کھیل کراسے ناکام ہی نہیں عبرت کا نشان بنا دیا ہم اپنیسیکورٹی فورسز کو سلام پیش کرتے ہیں۔ پاک چین دوستی میں شگاف ڈالنے والے بھول جائیں کہ وہ کبھی کامیاب ہو سکیں گے۔ ہمالہ سے بلند، سمندر سے گہری دوستی تو ایک لفظی اظہار ہے دراصل یہ دوستی لازوال ہے اور سی پیک اس کا پھل ہے، جس کی شیرینی سے پورا خطہ لطف اندوز ہو گا، پھل جب پک جاتا ہے تو بعض کیڑے ضرور اس پر حملہ کرتے ہیں ہم نے پہلا سپرے تو کر دیا ہے، ٹڈی دل بھی حملہ آور ہو سکتا ہے اس لئے اس کو روکنے کے لئے بڑی تیاری کی ضرورت ہے، اگر اندرونِ ملک دشمن عناصر کا صفایا ہو جائے تو بزدل دشمن جو ان کی پشت پر ہے کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا۔ یہاں سہولت کار بہر صورت موجود ہیں جن کا سراغ لگانا بہت ضروری ہے۔ ہمیں بیجا مہماں نوازی سے بھی ہاتھ اٹھانا ہوں گے، بلوچستان پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، ہماری غربت، بیروزگاری ہی دشمنان پاکستان کو دہشت گرد فراہم کرتی ہے، ملک دشمن غدار تنظیموں کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا، موذی کو ایذا پہنچانے سے پہلے مارنا کارِ ثواب ہے، جائز ہے، یہی اسلامی شریعت کا حکم ہے، ہم اپنے دشمن کو تو پہچان چکے ہیں، چاہے اس کی چمڑی کا کوئی بھی رنگ ہو، اس لئے صفایا مشکل نہیں۔

٭٭٭٭

ذرا تول کے بولو

احتیاط کا دامن چھوڑ کے بولنے نے دنیا میں بڑی تباہیاں مچائی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے، کرتا دھرتا افراد حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ، ان سمیت یہ پوری قوم اپنے مفادات سمیت محفوظ ہے اس کی ہم وارنٹی دیتے ہیں، کمپنی کی مشہوری کے لئے ہم نے امرت دھارا مفت فراہم کر دیا،ایک وفاقی وزیر کا تازہ ترین بیان ہے، حزب اختلاف اتنی مضبوط نہیں کہ حکومت گرا سکے۔ یہ بات انہوں نے حسب معمول بول کے تولی، اب نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، دشمن سازی بہت آسان کام، دوست سازی بھی بہت آسان مگر دونوں میں سے اچھے کام کا انتخاب، طلب گار دانش ، ’’دانشور‘‘ ہمارے ہاں حکومتی اور غیر حکومتی راہداریوں میں عام ملتے ہیں، کیونکہ دونوں کے جام ملتے ہیں، گویا یہ ہم پیالہ ہیں ہم نوالہ نہیں پہلے تولو پھر بولو کی ضرورت سب سے زیادہ اینکرز کو ہے، ایک چینل کا زمزمۂ شب ہنگام جب ’’بولتی‘‘ ہیں تو میری سماعت اس وقت تک خوفزدہ رہتی ہے جب تک یہ جملہ نہ سنائی دے میرے پروگرام کا وقت ختم ہوا، ویسے ہماری رائے ہے کہ آتشیں ٹاک شوز مرد اینکرز سے کرائے جائیں، کیونکہ خاتون اینکر کی موجودگی میں مرد حضرات بہت زیادہ لڑتے ہیں، وجہ کا تو ہمیں پتا نہیں مگر نسوانی وجاہت بڑی زوردار چیز ہے، جب ہم عقل کو تولنے کا موقع ہی نہیں دیتے تو یہ دو تولے کی زبان قینچی کی مانند چلتی ہے کہ بعض اوقات خود کو بھی کتر جاتی ہے، قابل گرفت کلام، خوش کلامی نہیں خوش کلام وہ جو گرفت میں نہ آئے مخاطب کو گرفت میں لے آئے، ایک بڑے صحافی سے مدت ہوئی پوچھا تھا آپ کی کامیابی کے پیچھے کیا راز ہے انہوں نے اس ہلکے پھلکے سوال کو تول کر کہا ’’احتیاط‘‘

٭٭٭٭

دھرنا اور دھاندلی

عوامی تحریک کے ترجمان:ہم نے دھرنا دھاندلی نہیں، سانحہ ماڈل ٹائون کے خلاف دیا تھا، سیاسی اور انسانی زبان میں زمین آسمان کا فرق ہے ماڈل ٹائون میں جس انداز سے پُر امن نہتے انسانوں کو سیدھی گولیاں ماری گئی تھیں، آج ایسے ہی مناظر جب مقبوضہ کشمیر میں دیکھتا ہوں تو نہ جانے کیوں سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء یاد آ جاتے ہیں وہی منظر آنکھوں میں گھومنے لگتا ہے کہ کیسے زن و مرد زندگی بچانے کے لئے دوڑ رہے تھے اور بندوقوں کے دہانے تھے کہ خاموش نہیں ہوتے تھے، بلاشبہ یہ وہی ریاستی دہشت گردی تھی جس کا الزام ہم بھارت کو بھی دیتے ہیں، لوگ کیوں سیاسی مفاد کے دھرنے میں انسانی جانوں کو بیدردی سے موت کا نشانہ بنانے کے خلاف دھرنے کو بھول جاتے ہیں یا اسے بھی سیاسی دھرنے سے نتھی کر دیتے ہیں، اس خون ناحق کا مقدمہ لڑنے میں آج ایک دینی رہنما تنہاء کیوں ہیں؟

یہ سوال ہر زندہ پاکستانی سے ہے، دھرنے دو تھے، ایک سیاسی دوسرا انسانی، یہ فرق تو لگ بھگ اتنا ہی ہے جتنا انسان اور حیوان میں ہے، کیا یہ قتل عام بھی ’’را‘‘ نے کرایا تھا یا مودی کے حکم پر عمل میں آیا تھا؟ بہرحال در انصاف ایک بار پھر وا ہے خون شہیدان ماڈل ٹائون کا حساب اب تو چکا دینا چاہئے، ظلم مٹتا نہیں مٹانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے، اب تو شہیدوں کی قبروں سے ایک ہی صدا بلند ہو رہی ہے العدل العدل۔

٭٭٭٭

کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا

....Oمیجر جنرل آصف غفور:مشکل حالات سے گزرتے ہوئے پولیس سروس بہتر ہو چکی ہے۔

مشکلیں اتنی پڑیں کہ پولیس ٹھیک ہو گئی۔

....Oچیئرمین نیب نے افسران و ملازمین کی سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی۔

نیب بے عیب بنتی جا رہی ہے

خدا کا رحم ہو اب اس وطن پر

....O شاعرہ پروین شاکر کا 66واں یوم پیدائش منایا گیا۔

انہی کا شعر انہی کینذر؎

ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا

کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین