انتخابات ، انتخابات کا ٹوپی ڈرامہ شروع ہونے والاہے۔شیر اپنا ٹریلر دکھا کر اصلی فلم شروع کرنے کا اعلان کرچکا ہے، تیر اب بے کمان ہونے والا ہے۔
رہے شامل واجے ، تو وہ بھی سر پر تیل شیل چپٹر ے، کاجل شاجل ڈال کر تیار رہیں، سارے جمعے جنج میں شامل ہوں گے۔سائیکل سے سونامی تک اور سونامی خان کی بدنامی تک۔ سب کھیل تماشے ہوں گے۔ شیر کامیاب ہو، تیر چل جائے ، نشانہ عوام ہی ہوں گے۔ پچھلے 64سال اور ہے بھی کون نشانے پر ، کیا گانا تھا، زرداری صاحب کو الیکشن کے دوران گنگناتے رہنا چاہئے۔
میرا نشانہ، دیکھے زمانہ
تیر پہ تیر چلاؤں،بچ کے نہ کوئی جائے
بچ کے نہ کوئی جائے…
انہوں نے تو یہ گانا سچ ہی کر دکھایا۔ کیا معیشت، کیا سیاست، کیا سماجت ، سب نشانے پر ہیں۔ معیشت کاعالم یہ ہے کہ نوٹ پہ نوٹ چھاپ کر ، قرضے پہ قرضہ لیکر ڈنگ ٹپایا جا رہا ہے۔ بوریوں میں نوٹ لیکر جائیں اور شاپر میں سامان پیک کرا کر لائیں۔ کرنسی اتنی بے توقیر بھی ہوگی۔ کاش اس بے توقیر نوٹ پر سے محسن پاکستان کی تصویرکو محفوظ کیاجا سکے۔ بجلی ہے وہ نہ آئے تب مصیبت، آجائے تو اور بھی مصیبت۔اب تو اندھیرے اچھے لگنے لگے ہیں ۔ چلئے ان کا بل تو نہیں آتا، روشنی کی اتنی بھاری قیمت کون چکائے؟ایسی قیمت کہ جسے چکاتے چکاتے زندگیاں اتھا ہ اندھیروں کا حصہ بن جائیں۔ یا الٰہی !کہاں جائیں تیرے یہ بندے؟ تیر سے بچ جائیں تو شیر کھا جائے۔ پچھلی تین دہائیوں سے اور ہو کیا رہا ہے؟باری باری کھیل۔
اوتوں رولا پائی جاؤ۔ اندروں رل کے کھائی جاؤ (بظاہر شور مچاتے رہو اور چھپ کرمل کر لوٹ مار کرتے رہو)۔کوئی چشمِ بینا سے دیکھے تو پکار اٹھے’واہ کیا سین ہے‘اسمبلیوں ، جلسوں اور تقریروں میں ایک دوسرے پر آگ برسانے والے، مشکل مرحلوں میں کیسے ایک دوسرے پر نوازشوں کی بارش کرتے ہیں۔ نواز شریف جائیں تو بھی احتساب کمیشن کروڑوں خرچے اور کچھ ثابت نہ کر سکے ۔ زرداری بارہ سال عدالتیں بھگتیں تب بھی کسی فیصلے سے محفوظ رہیں۔ الیکشن کا رنگ جمتا جا رہا ہے۔ جلسوں اور لہجوں کی تلخیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ جغادری کھلاڑی لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اترنے کو تیا رہیں۔ الیکشن کے نام پر وہ ڈبلیو ڈبلیوایف کھیلاجائے گاکہ اصل ریسلنگ بھو ل جائیں۔ فخرالدین جی صاحب پیراں سالی میں ان جواں سال سیاسی پہلوانوں کو کیسے روک پائیں گے۔پہلے کسی نے روکا ہے جو اب روک سکے ۔ اب کیسے روکیں گے؟کوئی انقلاب آئے گا یا ہماری روحیں نیک ہو گئی ہیں؟ہمارا کلچر بد ل گیا ہے۔ کیا سیاستدانوں کی انا کی دیواریں گر گئیں ہیں یا ان کے ضمیر پر وطن پرستی کے باد ل برس گئے ہیں یا انہیں آخرت یاد آگئی ہے۔ کیا شاہی محل اور بنگلے عاجزی کی سادہ عمارتوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ کیا ایسٹیبلشمنٹ نے سیاستدانوں کا کام سیاست دانوں کے لئے چھوڑ دیا ہے؟کیا قانون واقعی اندھا ہو کر سب کا احتساب کر رہا ہے؟اگر سب کا جواب نہیں ہے تو کیسے اکیلے ہی فخر الدین جی الیکشن کو قابل فخر بنا سکیں گے۔ الیکشن سے پہلے ضمنی الیکشن واقعی ٹریلر ہیں؟ اصل فلم تو ابھی باقی ہے میرے دوست، دھونس ، دھاندلی، بدمعاشی، جعلسازی سے بھر پور فلم۔ بڑھکوں ، ڈھشوں ڈھشوں سے بھر پور فلم۔ جس کا ہیروبھی ولن جیسا اور ولن بھی ہیرو جیسا۔ اس بار فلم میں شہری بابو کا کردار نیا ہے۔
کہتے ہیں پنجاب کے ایک نہایت سینئرپارلیمنٹرین اپنے پھول جیسے نگر میں الیکشن مہم کے سلسلے میں ایک بوڑھی بیوہ کے گھر گئے ۔ چاروں طرف لمبے تڑنگے گن مینوں میں گھرے سیاستدان نے بیوہ کی ٹوٹی چار پائی پر بیٹھتے ہوئے کہا ’مائی جی تہاڈی پرچیاں لئی آیاں واں‘مائی نے انہیں غور سے دیکھا۔ ایک صاحب نے ’پرچیاں ‘ کا مطلب بتایاکہ اس کے ووٹ سے صاحب پھر وزیر بن جائیں گے۔ مائی نے پوری بات سنی اور کچھ کہے بغیراپنی کُٹیا میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہاں سے نکلی تو اس کے ہاتھ میں ایک بوسیدہ سی جُلی( گندہ بدبودار کمبل) تھی۔اس نے کچھ کہے بغیر وہ جُلی امیدوار کے قدموں میں رکھ دی۔ وڈیرے امیدوار نے قدرے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا ، یہ کیا ہے؟مائی بولی!جنا ب پچھلی بار جب آپ وزیر بنے تھے تو آپ کے کارندے میری دو بھینسیں اسلحے کے زور پر چھین کر لے گئے تھے۔ مزاحمت پر مجھے تھپڑ بھی مارے ، اب اس بار آپ وزیر بنے تو میرے پاس آپ کو یا آپ کے کارندوں کو دینے کے لئے یہ ’جُلی‘ ہی بچے گی۔ سو برائے مہربانی آپ تکلف نہ کریں اور یہ ابھی ہی ساتھ لے جائیں۔یہ واقعہ ایک عام آدمی کی بے بسی کے اظہار کے لئے ترجمان قرار دیا جا سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ان ٹوٹے چوباروں، ٹپکتی چھتوں ، کیچڑ دلدل میں زندگی بھیک کی طرح گزارنے والوں کے پاس یہ اونچے شملے والے، نفیس پوشاکوں والے اپنی بڑی بڑی گاڑیوں میں تلوار کی طرح نوکدارمونچھوں اور بھگیاڑوں کی طرح کے چہرے والے گن مینوں کے ساتھ ووٹ ووٹ کا ڈرامہ کرنے آنے والے ہیں ۔ ہر بازی گر اپنے لفظوں کا جادو لیکر اپنا سحر پھونکنے آئے گااور مینڈیٹ کو اپنی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یوں اٹھا لے جائے گاجیسے ماضی میں مظہر شاہ ، اسلم پرویز، الیاس کاشمیری ، پران ، امریش پوری ہیروئن کو اٹھا کر لے جاتے تھے۔ فرق اتنا ہے کہ ان کی ہیروئن تکلفاً بچاؤ بچاؤ کہتی تھی جبکہ ”ہماری مینڈیٹ “اغوا ہوتے ہوئے جیوے جیوے ، آوے آوے کا نعرہ لگاتی ہے۔ میں ووٹ کی حرمت کا انکاری ہوں نہ انتخابات کی رحمت کا، کسی ڈکٹیٹر کو روحانی رہنما قرار دیتا ہوں نہ جمہوریت کی عظمت کو تسلیم کرنے میں بخیل ۔ میرا خواب تو یہ ہے کہ اصل الیکشن اس دن ہوں گے جب اس میں ایک عام پاکستانی امیدوار کے طور پر کھڑے ہونے کی ہمت کر سکے گا۔ جب پارٹی ٹکٹیں بِکیں گی نہیں میرٹ پر ملیں گی۔ جب سیاسی جماعتوں کے منشور الیکشن کمیشن کا پیٹ بھرنے کے لئے نہیں عمل کرنے کے لئے بنائے جائیں گے۔ جب الیکشن پراسس نوٹو ں اور لوٹوں سے نکال کر نہایت آسان اور سادہ بنا دیا جائے گا۔ جب امید وارکی طاقت کا اندازہ اس کے خریدے جوکروں اور کلاشنکوفوں کے شور سے نہیں اس کی شرافت کے زور سے لگایا جائے گا۔ جب کسی عام، معصوم امیدوار کا مذاق شریف دیوا ، سلیم کرِلابنا کر اڑایا نہیں جائے گا۔ سوال ہے آپ کا سوچنا اور پوچھنا حق ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے۔ کیا پاک دھرتی پہ ارضِ وطن مملکت خداداد پاکستان کبھی ایسا الیکشن دیکھ پائے گی۔ جہاں حرام کی دولت، لٹیروں ،جعلی ڈگری والوں ،جرائم پیشہ، رسہ گیروں کی بجائے معاشرے کے ترجمان شعبوں، وکالت، تجارت، صحافت، کلرکوں ، مزدوروں، ڈاکٹروں، پروفیسروں میں سے قیادت ابھرے گی جن کے قدم پاک مٹی پر ہوں گے اور دماغ آسمانوں کی بجائے انسانوں میں۔ جو سوئس اکاؤنٹس یا سعودی عرب سٹیل ملز کی بجائے اپنا سب کچھ اس دھرتی سے وابستہ رکھیں گے۔ جن کے بچے اس دھرتی پر جنم لے کر جوان ہوں گے اور اس دھرتی پر ہی آسودہ خاک ہوں گے۔ جن کے خواب ، پیرس ، نیویارک، لندن میں نہیں قصور، پتوکی، حید رآباد، گھوٹکی، ٹنڈو الہ یار، ژوب ، گلگت، چلاس، مردان ، بنوں میں جنم لیں گے۔ انتخابات کسی بھی قوم کیلئے اپنی زندگی کی راہیں خود متعین کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ اگر ہم نے یہ موقع کھو دیا تو پھر ہمیں احتجاج کرنے، شکوہ کرنے اور رونے دھونے کا بھی کوئی حق نہیں ہوگا۔ پاکستان میں ٹوٹتی سڑکیں ، ابلتے گٹراور سٹریٹ لائیٹس اگلے چند ماہ میں ٹھیک ہونے لگیں گے اور ہم اس پر ہی خوش ہوکر انہیں ٹھیک کروانے والوں کو ووٹ کی بخشیش دے دیں گے۔ اتنی سستی قیمت اتنے مہنگے ووٹ کی۔ بس ایک سپورٹ پروگرام، ایک لیپ ٹاپ ہمارا ضمیر خریدنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔اگر ہم بکاؤ مال ہیں ، ہم ریڑھیوں پر پڑا سودا ہیں تو ہماری یہی اوقات ہے۔