آئینی طور پر ہر دس سال بعد مردم شماری ہونی چاہئے، تاکہ سینیٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کے اراکین کی نشستوں کا تعین آبادی کے لحاظ سےہوسکے، مالیاتی ایوارڈ کا تعین ہوسکے، آبادی کے لحاظ سے صوبائی ملازمتوں کا کوٹہ مقرر ہوسکے۔پچھلی مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی۔ گزشتہ 18 سال سے معاملات یوں ہی لشتم پشتم چل رہے تھے۔ مشترکہ مفادات کی کونسل نےایک سال قبل مردم شماری کی تخمینی تاریخ کا اشارہ دے رکھا تھا۔ لیجئے مارچ کا مہینہ آگیا اور ملک میں ایک ہل چل مچ گئی، سب سے پہلے بلوچستان نے احتجاجی آواز بلند کی، بلوچستان نیشنل پارٹی (ایم) کے صدر اور سینیٹر نے ایک پریس کانفرنس میں کھلم کھلا اعلان کیا کہ مردم شماری ملتوی کی جائے کیونکہ یہ وقت اس کیلئے مناسب نہیں۔ مردم شماری کے کارکن ان علاقوں تک نہیں پہنچ سکتے جہاں بلوچ رہتےہیں۔ گزشتہ انتخابات میں عدم تحفظ کی وجہ سے بڑی تعداد میں ووٹرز پولنگ اسٹیشنوں پر نہیں پہنچ سکے تھے۔انہوں نے کہا مردم شماری کا عمل ملک کیلئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ افغان اور دوسرے غیرملکی باشندے صوبے میں کثرت سے آباد ہوچکے ہیں، ان کے ساتھ دوسرے بلوچ رہنما بھی تھے (گذشتہ دہائی میں صوبے اور کوئٹہ کی آبادی بے تحاشا بڑھ چکی ہے، 98 میں صوبے کی آبادی 66لاکھ اور کوئٹہ کی آبادی اس سے کم تھی، آج اندازہ ہے کہ دونوں کی آبادیاں دگنی سےبھی زیادہ ہوچکی ہیں) ۔
انہوںنے کہاکہ ہزاروں افغان تارکین اور غیربلوچوں کی موجودگی میں بلوچ اقلیت میں ہوچکے ہیں لہٰذا ان کی واپسی تک صوبے میں مردم شماری نہیں ہونی چاہئے۔ سندھ میں مردم شماری کے مسئلے کو بڑی حساس حیثیت دی گئی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنادیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلی مردم شماریوں میں سندھ کے ساتھ بڑی ناانصافیوں ہوئی ہیں، وہ سب جعلی تھیں۔ انہوںنے ’’سندھ بچائو مردم شماری کمیٹی‘‘ بنالی، یہ کمیٹی سندھ کے مختلف شہروں میں جاتی رہی اور عوام کو مردم شماری کی اہمیت سے آگاہ کرتی رہی۔ وزیراعلیٰ نے صوبے کی تمام پارٹیوں کی مشترکہ کانفرنس بھی بلائی اس سے پہلے وہاں ریلیاں اورمارچ ہوتےرہے ، جن میں مطالبہ کیا گیا کہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں کروائی جائے اور سندھ کے خدشات اور تحفظات کا لحاظ رکھا جائے۔ نیز مردم شماری کے چیف کمشنر کو ارکان اسمبلی میں آکر ان کیمرا بریفنگ دینی چاہئے۔ کمشنر آئے مگر انہوں نے ان کیمرا بریفنگ سے انکار کردیا۔ ویسے اس میں راز رکھنے کی کیا بات تھی، پھر وزیراعلیٰ نے سندھ آل پارٹیز بلائی جس میں25پارٹیوں نے شرکت کی۔ سندھ کےاندر مقامی اور لسانی گروہ اپنی آبادی دکھانے کی کوشش کرسکتے ہیں، مفاہمت کی خاطر وزیراعلیٰ نے اعلان کیاکہ مردم شماری میں مزید تاخیر نقصان دہ ہوگی۔ اگر نتائج معروضی حقائق سے میل کھاتے نہ دکھائی دیئے تو نتائج کو قبول نہیںکریں گے۔
ادھر وزیراعظم نے کونسل آف مشترکہ مفادات کا اجلاس 29 فروری کو طلب کیا ، اس کا ایجنڈا بڑا طویل تھا اور اس میں مردم شماری کا ذکر نہیں تھا۔ سندھ کی کوششوں سے یہ شامل کیا گیا۔ سندھ کا اہم مطالبہ یہ تھا کہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں ہونی چاہئے۔ مردم شماری کے 2620بلاکوں کیلئے 2 لاکھ 62 ہزار فوجی افراد کی ضرورت تھی، فوج اتنے سپاہی مہیا نہیں کرسکی۔ ایک اور مسئلہ اوقات کا ہے، مجوزہ پروگرام میں خانہ شماری کیلئے 3 دن اور مردم شماری کیلئے 75 دن رکھے تھے، صوبے ان کو علی الترتیب ایک ہفتہ اور چار ہفتے رکھنا چاہتے ہیں۔ 29 فروری سے قبل دو خبریںگشت کررہی تھیں۔ پہلی یہ کہ حکومت مردم شماری کیلئے فول پروف انتظامات کررہی ہے خصوصاً ایک صوبہ جس کے تحفظات کا ازالہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔جہاں تک صوبوں کی طرف سےغیرقانونی تارکین وطن کے شناختی کارڈ ختم کرنے اور ان کو اپنے وطن واپس بھیجنے کا مسئلہ ہے، یہ فی الفور حل نہیں ہوسکتا، اس پر قابو پانے کیلئے کوئی تدبیر وضع کرنا ہوگی۔ سرکاری حلقوں میں یہ بھی سوچا جارہا تھا کہ اگر فوج18 روز کیلئے ایک لاکھ سپاہی دینے کیلئے آمادہ نظر آتی ہے تو مردم شماری کی حتمی تاریخوں کا فیصلہ 29 فروری کی میٹنگ میں ہوگا۔ اس کے سامنے تین صورتیں ہیں۔ مردم شماری مارچ یا اوائل اپریل کرانا، دوسرے اس کو چند مہینے آگے بڑھادیا جائے، مگر اس کا کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا،تیسرے اس کو طویل عرصہ کیلئے ملتوی کردیا جائے مگر ایسی صورت میں حکومت کے اعتماد کو زک پہنچے گی۔ مرحلہ وار صو بوں میں نتائج کو اس وقت تک پوشیدہ رکھنا ہوگا جب تک کہ تمام اکائیوں کے اعداد جمع نہ ہوجائیں بلکہ اس صورت میں قوی امکان یہ ہے کہ کسی ایک صوبے کے نتائج پر کثرت آبادی کا لیبل لگادیا جائے۔ آج کل بھی وزیراعلیٰ پنجاب لاہور کی آبادی ایک کروڑ اور وزیراعلیٰ سندھ کراچی کی دو کروڑبتا رہےہیں۔ اگر لاہور اور کراچی کی آبادیاں ان تخمینوں سے کم ہوئیں تو محکمہ مردم شماری کو موردالزام ٹھہرایا جائے گا جو ناانصافی کے مترادف ہوگا، بہرحال مردم شماری سےپیچھا نہیں چھوٹے گا۔