• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری بیوروکریسی ایسے ایسے کمال کرتب دکھاتی ہے کہ عقل تو دنگ رہ جاتی ہے۔ باہر کے لوگ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا واقعی اس دنیامیں ایسے ایسے عجیب واقعات ہوسکتے ہیں۔
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ایک سابق وائس چانسلر جوکبھی جنرل پرویزمشرف کا دم بھرتے تھے پھر خاندانی مسلم لیگی بن گئے انہوں نے اپنی ریٹارمنٹ سے چند ہفتے قبل ایک اشتہار دیا کہ جو شخص 2015 میں 65 برس کا ہوگا وہ وی سی کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔یہ اشتہار 3 مارچ 2011 کے اخبارات میں شائع ہوا۔ اپنی عمرکا حساب لگا کر دے دیا۔چنانچہ موصوف خود ہی امیدوار بن گئے ۔انٹرویو والے دن صبح ا ستعفیٰ دے دیااور ٹی وی چینلز پر خبر دے دی کہ وی سی نے استعفیٰ دے دیا ۔شام کو انٹرویو بورڈ کے آگے انٹرویو دے کر چار سال کے لیے پھر وی سی بن گئے۔وہ تو بھلا ہو عدالت کاجس نے انہیں گھر بھیج دیا اور پھر بیوروکریسی کی مہربانی سے اب تک وہاں کوئی مستقل وی سی نہیں آیا۔
ہماری بیوروکریسی ویسے تو ہر فن مولا ہے ۔ناہونے والے کام چند لمحوں میں کردیتی ہے اور ہونے والے کام مہینوں میں نہیں کرتی ۔اس اشتہار کو کسی نے دیکھا نہ کسی نے اس پر بات کی ۔ہم نے بذات خود خادم اعلیٰ پنجاب کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ اشتہار انہیں پیش کیا تو وہ حیران رہ گئے۔ آج کسی بھی ٹیچنگ ہسپتال میں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں ۔ مدت ہوئی میرٹ نام کی چڑیاں کب سے یہاں سے اڑ چکی ہیں۔اب تو اس ملک پر سفارشی لوگوں کے بھیانک سائے ہیں جو اس ملک کے رہے سہے نظام کو کھائے جا رہے ہیں۔
ذمد ت ہوئی اس دنیاسے کرشمے ،معجزے اور کرامات ختم ہوگئے ہیں مگر بیورو کریسی کے ہاں آج بھی کرشمے ہوتے ہیں۔ہماری بیورو کریسی کسی پیر فقیر سے کم نہیں بلکہ بڑے بڑے پیر خود ان سے سفارشیں کرواتے پھرتے ہیں۔جو کرشمے پیر وفقیر نہیں دیکھا سکتے یہ بیوروکریسی اس صفائی سے کرشمے دکھاتی ہے کہ کوئی مائی کا لال انہیں پکڑ نہیں سکتا ۔ پچھلے دنوں پھر بیوروکریسی نے ایک اور چمتکار کر دکھایا ۔یونیورسٹی ایکٹ میں ایک نئی شق شامل کردی کہ آئندوائس چانسلر کے لیے جب حکومت کوتین نام بھیجے جائیں گے وہ نام Alphabetical Orders یعنی حروف تہجی کی صورت میں آئیں گے اور حروف تہجی کی ترتیب میں جو پہلا نام آئے گا اس کو وائس چانسلر بنا دیا جائے گا۔بے شک حروف تہجی میں A کے بعدحروف تہجی ڈبلیو والا کتنا ہی سنیئرہو۔اس کے اکیڈمک نمبرز چاہے کتنے زیادہ کیوں نہ ہوں لیکن وی سی وہی بنے گا جس کا نام حروف تہجی میں پہلا ہوگا۔چنانچہ اب بہت سارے پروفیسرز کو چاہیے کہ وہ اپنے نام تبدیل کرلیں ،کیونکہ اب کے الله دتہ اوراللہ رکھا ہی وی سی بن سکتا ہے کیونکہ ان کے نام حروف تہجی میں پہلے نمبر پر ہیں۔
اب بھلا میرٹ ،اکیڈیمک نمبروں ،پی ایچ ڈی اور ریسرچ پیپرز کی کیا ضرورت ہے ؟لگتا ہے جس کسی نے یہ ڈرافٹ بنایا ہے وہ یقینا حروف تہجی کی مار کھائے ہوئے تھا سو اس نے ایسا ڈرافٹ بنا ڈالا اور بیوروکریسی نے اسے پاس کر دیا اور تو اور ہمارے قائم مقام گورنر رانا محمد اقبال نے اس پر دستخط بھی کردیئے تھے۔اب جبکہ خادم اعلیٰ پنجاب کے نوٹس میں یہ بات آئی ہوئی ہے تو کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں کہ یعنی اس پر سوچو!
مگر اب یہ ایکٹ کا حصہ بن چکا ہے ۔ یو نیو ر سٹیوں کاچانسلرگورنراوروزیرتعلیم پروچانسلرہوتاہے۔وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر اساتذہ میں سے ہوتا ہے۔
کتنی دلچسپ بات ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے کسی بھی سرکاری یونیورسٹی میں پرو وائس چانسلرنہیں ہے۔جب وائس چانسلر ملک سے باہر ہوتا ہے تو نظام یونیورسٹی کوئی سینئر استاد چلا رہا ہوتا ہے ۔ارئے بھائی جب سینئر استاد کو وی سی اپنی ذمہ داریاں دے کر باہر جا سکتا ہے تو پرووائس چانسلر کیوں نہیں بنایا جا سکتا۔ ایک تو وائس چانسلر پر پہلے ہی انتظامی اور دیگر مسائل کے حوالے سے اچھا خاصا بوجھ ہو تا ہے ان حالات میں اگر وی سی کو ملک سے باہر جانا پڑے یا اس کی کوئی اور مصروفیت ہو توکیا ان حالات میں یونیورسٹی کے معاملات کو چلانے کے لیے پرووائس چانسلر کا ہونا ضروری نہیں۔خیر اب تو ویسے بھی حروف تہجی کا دور آگیا ہے کوئی سنیئرہو یا نہ ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
ہم نے انگریزوں کے قائم کردہ تمام تعلیمی نظام کو تباہ وبرباد کر دیا،تمام اچھی روایات کو ختم کرد یا ۔اگر ایک وی سی کو اس بات کا ہر وقت خدشہ رہتا ہے کہ پرووائس چانسلر کہیں اس کی سیٹ پر قابض نہ ہوجائے تو حکومت کبھی بھی کسی بھی وائس چانسلر کو ہٹانے کا اختیار رکھتی ہے اور بعض وائس چانسلر ز کو تین تین مرتبہ کے لیے بھی لگا دیتی ہے ۔ ذرا دیر کو سوچیں کہ جو استاد 30/25 برس تک کسی یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے،بہترین ریسرچ پیپرز لکھتا ہے ، کانفرنسوں میں نمائندگی کرتا ہے اور سینارٹی کے باوجود اس کو وائس چانسلر نہیں لگایا جاتا یہ کہا جاتا ہے کہ اگر تمہارا نام حروف تہجی میں پہلے نمبر پر آئے گا تو تمیں وی سی لگا دیں گے۔کتنا عجب اور بھیانک مذاق ہے ۔کبھی انگریزوں نے اپنے دور اقدار میں ایسی پالیسیاں بنائی تھیں۔آخر کون ہے جو چلتے ہوئے نظام کو خراب کر رہا ہے ۔ یہاں دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ آج استا د ہی استاد کے حق پر ڈاکہ مار رہا ہے ۔کبھی کسی وی سی نے کہا ہے کہ مجھے ایک ٹرم مل گئی ہے اب دوسری ٹرم کے لیے اگر حکومت مجھے لگاتی بھی ہے تو نہیں لگوں گااور یہ حق کسی اور کو دیتا ہوں۔یہ مثال موجود ہے کے ای ایم سی (اب کے ایم ایم یو) کے ایک پرنسپل کو حکومت نے ان کی ریٹائرمنٹ پر یہ آفر دی کہ آپ کو ہم دوبارہ پرنسپل بنانا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ کاش اس ملک میں ایسے بااصول اور قابل رشک لوگ پیداہو سکیں۔حکومت پنجاب نے جو نوٹیفیکیشن جاری کیا وہ درج ذیل ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک کوچلانے والی بیوور کریسی کتنی قابل ہے اور کسی طرح کی پالیسیاں بناتے ہیں۔
The Search Committee shall recommend to the Government, in alphabetical order without any preference, a panel of three persons who, in its opinion, are suitable for appointment as the Vice Chancellor.
یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے تو Alphabetical یعنی حروف تہجی کا فارمولا بنا دیا گیاتو پھر بیورو کریسی کے لیے بھی یہی فارمولا ہوناچاہیے یعنی چیف سیکرٹری اور مختلف محکموں کے سیکرٹریز کی تقرری کرتے وقت بھی Alphabetical ناموں کی ترتیب رکھی جائے۔چھوڑیں میرٹ وغیرہ کو یہ فارمولا تو سارے ملک میں ہر محکمے میں رائج کر دینا چاہیے۔
تازہ ترین