علم نجوم اور اعداد کے ماہرین مختلف مہینوں، تاریخوں اور اوقات کے حوالے سے پیشگوئیاں کرتے رہتے ہیں کہ فلاں مہینہ، فلاں تاریخ یا فلاں وقت، اچھا، برا یا نحس ہوگا۔ یہ پیشگوئیاں اگر کوئی صحیح علم رکھنے والا ہو تو صحیح بھی ہوتی ہیں لیکن بغیر ایسے کسی علم کے ایک پیشگوئی میں ہمیشہ کر سکتی ہوں کہ دسمبر بڑا مصروف اور بہت ہلّے گلّے والا مہینہ ہوگا۔ اس میں اس سال، اگلے سال یا اس سے اگلے سال کی کوئی قید نہیں کیونکہ پچھلے کئی سال کے تجربوں سے میں نے دیکھا ہے کہ دسمبر آتے ہی مصروفیت ہجوم کی شکل میں آتی ہے۔ کرسمس اور قائداعظم کی سالگرہ تو طے شدہ بات ہے لیکن بہت سارے اداروں میں نئے انتخابات کا وقت بھی یہی ہوتا ہے، خیر میرے لئے تو پریس کلب اور آرٹس کونسل ہی کافی ہوتے ہیں ان دونوں کے الیکشن دسمبر کے آخری ہفتے میں ہی ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ پچھلے پانچ سالوں سے کراچی آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرنس نے بھی ہمارے لئے ایک نئی مصروفیت پیدا کر دی ہے۔ چار سے پانچ دن تک بڑا ہلّہ گلّہ ہوتا ہے، ایک دن میں تین سے چار چار سیشن ہوتے ہیں، پورے پاکستان اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں بسنے والے اردو کے شیدائی یہاں جمع ہوتے ہیں، اردو زبان اور ادب کے حوالے سے سیر حاصل بحث اور تبصرے ہوتے ہیں نئے لوگوں، نئی کتابوں اور نئے خیالات سے تعارف حاصل ہوتا ہے اور کچھ اپنے پرانے لوگ جن سے ہم بہت محبت کرتے ہیں پھر سے انہیں دیکھنے، سننے اور ملنے کا موقع ملتا ہے۔ انتظار حسین کا زندگی سے مطمئن چہرہ اور پُرمغز باتیں سننے کو ملتی ہیں، امجد اسلام امجد کی خوبصورت شاعری کے ساتھ ساتھ کچھ نئے لطیفے بھی سننے کو ملتے ہیں، شاید سب لوگ یہ نہیں جانتے کہ انہیں ڈھیروں ڈھیر لطیفے یاد ہیں، جو فرمائش کرنے پر فوراً سنا دیتے ہیں، کم از کم مجھے تو کبھی مایوس نہیں کیا، یہ اور بات ہے کہ اس بار گوپی چند نارنگ ، زہرا نگاہ، عطا الحق قاسمی اور افتخار عارف سے ملاقات نہ ہو سکی اور مشتاق احمد یوسفی، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری اپنی علالت کے سبب نہ آ سکے۔ ان سب لوگوں کی کمی کو شمیم حنفی جو ہندوستان سے تشریف لائے تھے، مسعود اشعر اور انتظار حسین کی موجودگی سے پورا کرنے کی یوں کوشش کی گئی کہ تقریباً ہر سیشن میں ان کی شرکت لازمی قرار پائی اور انہوں نے بھی ہمیں کہیں مایوس نہیں کیا۔
بہرحال اس کانفرنس کی بہت اچھی کوریج پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ہو چکی ہے اور کانفرنس کے آرگنائزرز کی بھی بڑی واہ واہ ہوئی ہے، جس کے یقینا وہ حقدار تھے لیکن بحیثیت ایک خاموش شریک محفل، کچھ باتیں ایسی ہیں جنہیں میرے علاوہ شاید کچھ دوسرے لوگوں نے بھی محسوس کیا ہو، اس لئے ان پر بات کرنا ضروری ہے۔
شاید آپ کے علم میں ہو کہ اس سال کانفرنس کے موقع پر جن لوگوں کو یاد کیا گیا، ان میں ہمارے پیارے حبیب جالب بھی شامل تھے۔ پیارے لوگوں کو ہر سال پیار سے یاد کیا ہی جانا چاہئے لیکن اس سال ان کی بیٹی کو لاہور سے خصوصی طور پر بلوا کر ایک عدد گاڑی کا تحفہ بھی پیش کیا گیا، یہ گاڑی برطانیہ میں قائم ایک این جی او کی طرف سے گفٹ کی گئی تھی اور این جی او کی کرتا دھرتا اس کام کے لئے خصوصی طور پر پاکستان تشریف لائی تھیں اور شاید جالب کی فیملی کے لئے ماہانہ خصوصی امداد کا بھی وعدہ کرکے گئی ہیں۔
ہم نے تو سنا تھا کہ کسی ضرورت مند کی مدد ایسے کی جانی چاہئے کہ دائیں ہاتھ سے اگر کچھ دیا جائے تو بائیں ہاتھ کو اس کی خبر نہیں ہونی چاہئے یعنی لینے والے کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور نہ دینے والا اسے اپنے لئے ذریعہ افتخار بنائے۔ میں مانتی ہوں کہ اچھی باتوں کی تشہیر ہونا اس لئے ضروری ہے کہ دوسروں کو بھی ایسے کاموں کی تحریک ہو لیکن جس طرح اور جس انداز سے جالب کے حالات زندگی بیان کئے گئے اور ہماری عزیزہ کشور ناہید نے بتایا کہ کسی طرح کچھ لوگوں کی مدد سے ان کے لئے ایک گھر کا بندوبست کیا گیا اور پھر اب ان کی فیملی کے حالات کیسے ہیں۔ یہ سب آڈیٹوریم میں بیٹھ کر بھرے مجمع میں سننا، کم از کم میرے لئے بے حد تکلیف دہ امر تھا جبکہ جالب کی وفات کے بعد گرچہ ان کے حالات بے حد دگرگوں تھے لیکن بیگم جالب نے کسی قسم کی مالی مدد لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ چونکہ حبیب جالب نے زندگی میں کبھی یہ گوارا نہیں کیا تو اب میں بھی ایسا نہیں کرسکتی، شکر ہے کہ اس تقریب میں وہ غیرت مند خاتون موجود نہیں تھیں۔ یقینا میری طرح وہ بھی دکھی ہوتیں، باربار جالب کا چہرہ میری نگاہوں میں گھوم رہا تھا، خدا جانے اپنی اس ”عزت افزائی“ کی خبر سن کر انہیں دوسری دنیا میں کیا محسوس ہوا ہو گا۔شاعر، ادیب ، آرٹسٹ اور فنکار ہمارا بڑی قیمتی سرمایہ ہیں، ضرورت کے وقت ان کی خبر گیری اور داد رسی حکومت کے ساتھ ساتھ فلاحی اداروں کی بھی ذمہ داری ہے لیکن خدا کے لئے اسے اپنے لئے ذریعہ افتخار اور ان کے لئے عزت نفس مجروح کرنے کا ذریعہ نہ بنائیں،کیمروں اور مائیک کے سامنے کھڑے کرکے تحائف یا امدادی چیک پیش کرنے کی ریت کو ختم ہونا چاہئے۔دوسری بات جو کانفرنس کے حوالے سے ہی ذہن میں آئی حالانکہ اس کا خصوصی تعلق اس خاص کانفرنس سے نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہمیشہ تکلیف ہوتی ہے، ہوتا یہ ہے کہ ایسے فنکشنز میں مندوبین کے لئے دوسرا اور رات کے کھانے اور چائے وغیرہ کا خصوصی بندوبست ہوتا ہے لیکن کراچی آرٹس کونسل میں تو سب شرکاء کے لئے بھی دعوت عام تھی، شاید اس لئے بھی کہ ایک سیشن اور دوسرے سیشن کے بیچ میں اتنا وقفہ نہیں ہوتا تھا کہ کوئی کہیں اور جاکر کھانا وغیرہ کھا سکے اور پھر رات کے سیشن بھی کافی دیر تک چلتے تھے، اس کے بعد کھانا کھلانا اور ایک اچھا قدم تھا لیکن تکلیف کا پہلو صرف یہ ہوتا ہے کہ ہمارے ڈرائیور حضرات کو کوئی نہیں پوچھتا، حتیٰ کہ بلدیہ عظمیٰ کی طرف سے دی گئی دعوت میں بھی کسی نے اس طرف دھیان نہیں دیا جبکہ وہاں ڈیوٹی پر موجود سرکاری اہلکار سب سے پہلے کھانے میں شریک ہو چکے تھے لیکن خیر کسی دوسرے کو کیا بس، گورنرہاؤس میں ہونے والے پروگراموں اور دعوتوں تک میں کوئی کسی ڈرائیور کو نہیں پوچھتا۔اس سلسلے میں صرف ایک بار خوشی ہوئی تھی، آئی ایس پی آر نے ایک بار مزار قائدکے احاطے میں دعوت افطار پر میڈیا کے لوگوں کو بلایا تھا، میں اپنے ڈرائیور کے لئے فکر مند تھی لیکن کرنل ادریس (آج کل پتہ نہیں وہ کہاں ہوں گے) انہوں نے کہہ کر میری تسلی کروا دی تھی کہ ہم پہلے ڈرائیوروں اور ڈیوٹی پر موجود دوسرے لوگوں کی خاطر کرتے ہیں، بعد میں دوسروں کو پوچھتے ہیں اور واقعی ان کیلئے الگ سے شامیانہ لگا تھا بلوچستان میں تو خیر ڈیوٹی پر موجود سب لوگ اور ڈرائیور مہمانوں کے ساتھ ہی ٹیبل پر شریک ہوتے ہیں۔ کہنے کو تو شاید یہ بالکل معمولی سی بات ہے لیکن میرے والد ایک بات کہتے تھے کہ کسی کی شخصیت، ظرف اور خاندانی نجابت کا اندازہ کرنا ہو تو یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ ملازموں اور مددگاروں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اور میں نے اپنے بزرگوں کی کہی ہوئی باتوں کو ہمیشہ سچ پایا ہے، اس کیلئے مجھے کسی ماہر نجوم یا ماہرعلم الاعداد کی ضرورت نہیں پڑتی۔