• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے سوالات پر اس کی آنکھیں اب نم ہوچکی تھیں میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اس کی آنکھوں میں آنے والے یہ آنسو خوشی کے ہیں یا کسی تکلیف کے۔ مجھے امید تھی کہ اب شاید مجھے اس کے حالات زندگی کی کچھ تفصیلات جاننے کا موقع مل سکے گا اسے کافی دیر لگی اپنی بھرائی ہوئی آواز کو سنبھالنے میں، اس نے اپنا حلق صاف کیا تاکہ بات کی جاسکے۔ میرے سامنے بیٹھا رانا شوکت گزشتہ کئی دہائیوں سے سعودی عرب میں رہائش پذیر تھا بہترین کاروبار سے منسلک تھا کمائی بھی لاکھوں ریالوں میں تھی ۔ سیالکوٹ کے نزدیک چھوٹے سے گائوں سے تعلق تھا ۔والد صاحب نے بھی زندگی سعودی عرب میں گزاری تھی اس لیے بچپن آسودہ حال گزرا تھا۔ کبھی پریشانی نہیں دیکھنا پڑی۔ والد انجینئر بنانا چاہتے تھے لیکن وہ ایک رومانوی طبیعت کا عاشق مزاج آدمی تھا۔ کالج کے دنوں میں ہمیشہ ہی ایک عاشقانہ خط جیب میں ہوا کرتا تھا جس پر کسی کا نام نہیں لکھا ہوتا تھا اور جب کوئی حسینہ اچھی لگتی تو اسی وقت اس رومانوی خط پر حسینہ کا نام لکھ کر خاموشی سے اس کے آگے گرادیا کرتا ۔ اس کے بعد کبھی پٹائی تو کبھی مٹھائی والی بات تھی ۔ اسی خط و کتابت اور شاعری کے شوق میں ایک روز والد کے نام لکھا جانے والا خط حسینہ کو اور حسینہ کو لکھا جانے والا خط والد کو غلطی سے روانہ کردیا اور پھر والد نے جو جواب دیا اس جواب نے اس کی زندگی ہی بدل دی ۔ چند ہی دنوں میں وہ ملازمت کی غرض سے سعودی عرب پہنچ چکا تھا کچھ عرصے ملازمت کی اور پھر کاروبار میں آگیا ۔والدین کی مرضی سے شادی ہوئی اور کاروبار نے بھی زور پکڑا پھر کب ہزاروں سے لاکھوں ہوئے اور لاکھوں سے کروڑوں پتہ ہی نہیں چلا ۔ کاروبار تو اس نےملازموں کے حوالے کیا اور خود حج اور عمرہ کے لیے آنے والے اللہ تعالی کے مہمانوں کی میزبانی میں مشغول ہوگیا ۔پھر اپنے گائوں کے غریب غرباء جن کی زندگی کا خواب ہی حجاز مقدس دیکھنا تھا انھیں بلا کر ان کی میزبانی کیا کرتا ۔جبکہ میں تو اسے مہینے میں دو سے تین دفعہ سوشل میڈیا کے ذریعے کبھی مکہ مکرمہ یا کبھی مدینہ منورہ میں ہی دیکھا کرتا تھا ۔ اس دفعہ جب میں جدہ پہنچا تو رانا شوکت اپنے دوستوں کے ساتھ مسکراتے چہرے کے ساتھ وہاں تھا لیکن اس دفعہ پہلے کی طرح ہشاش بشاش نہ تھا رونق بھی کم تھی لیکن جوش و جذبہ اور محبت اور گرمجوشی پہلے جیسے ہی تھی۔ ہمارے ساتھ ہی جدہ، مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ اور زیارتوں میں ساتھ رہا ۔ ایک روز کچھ وقت ملا تو میں نے رانا شوکت سے دریافت کیا کہ آپ کسی پریشانی کا شکار ہیں کچھ ہم سے بھی شیئر کریں جس پر اس کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔ وہ کہنے لگا کہ یہ آنسو خوشی اور شکر انے کے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں نکلے ہیں جس نے اسے بہت خطرناک صورتحال سے بچایا ہے جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کی میزبانی کا نتیجہ ہی ہے۔ رانا شوکت کے مطابق ملازموں پر کاروبار چھوڑ کر وہ مہمانوں کے ساتھ مصروف رہنے لگا تو ملازموں نے غلط طریقے اختیار کرناشروع کر دیئے۔ جبکہ رانا شوکت کا اپنا تمام کاروبار سعودی کفیل کے نام پر تھا یعنی اگر اس کے ملازم پکڑے جاتے تو وہ پکڑا جاتا اور وہ پکڑا جاتا تو اس کا کفیل بھی پکڑا جاتا اور پھر جیل کی زندگی ہی مقدر ہونا تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کرم کیا ، اس کو بروقت تمام صورتحال کا علم ہوا اور اس نے تمام ملازموں کو نہ صرف فارغ کیا بلکہ تمام کاروبار بھی فوری طور پر بند کردیا جس سے کروڑوں کا نقصان ہوا لیکن وہ مطمئن تھا کہ اسے بر وقت معاملات کا پتہ چل گیا ۔ رانا شوکت کو ڈر صرف یہ تھا کہ کسی اور کی غلطی کے نتیجے میں اسے اس مقدس سرزمین کو چھوڑنا نہ پڑجائے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس مشکل سے بچالیا تھا ۔ ابھی رانا شوکت کی بات ختم ہوئی تھی کہ مسجد نبوی ﷺ میں مغرب کی اذان ہوگئی ۔ ہم دونوں نے مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھا اور نماز کے لیے روانہ ہوگئے ۔دوسری شخصیت جس کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی کے مترادف ہوگا کہ یہ سعودی عرب میں مقیم ملک منظور حسین اعوان ہیں جن کو میں نے ہمیشہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے درمیان سفر کرتے ہی دیکھا ہے ۔یہ بھی دل سے اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے نظر آتے ہیں بلکہ میں نے ملک یونس سے کہا بھی تھا کہ اس دفعہ ملک منظور اعوان کو تکلیف نہ دیں کیونکہ پچھلے کئی ہفتوں سے وہ اپنے مہمانوں کے ساتھ کبھی مکہ مکرمہ تو کبھی مدینہ منورہ کاسفر کرتے نظر آرہے ہیں۔ ہمارے جانے سے انھیں مزید تکلیف ہوگی لیکن ملک یونس کا خیال تھا کہ اگر انھیں پتہ چلا کہ ہم سعودی عرب میں ہیں اور انھیں بتائے بغیر ہیں تو بہت ناراض ہونگے لہٰذا انھیں بتایا گیا اور وہ ایئرپورٹ پر ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے اور اگلے دس سے بارہ دن مسلسل ہمارے ساتھ ہی رہے۔ ہمارے لیے حیرت اور ان کے لیے خوشی کی بات یہ تھی کہ ہماری واپسی سے ایک دن قبل سیالکوٹ کے رکن قومی اسمبلی اور ان کے قریبی دوست سبحانی صاحب بھی مدینہ منورہ پہنچ چکے تھے اور اگلے کئی دن ملک منظور ان کی میزبانی کرنے والے تھے اور ان کے ماتھے ایک بل نہ تھا اور نہ ہی کسی طرح کی بے زاری ۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بہترین ہمت اور استقامت عطا فرمائی تھی ،مسجد نبوی ﷺمیں اکثر نمازوں کے بعد میں انھیں ایک کونے میں سرجھکائے عشق رسولﷺ میں آنسو بہائے دیکھا کرتا تھا ۔ہر نماز میں سب سے پہلے تیار ہوکر ہوٹل کی لابی میں موجود رہتے تھے ۔ وہ سعودی عرب سے بہت محبت کرتے ہیں آجکل وہاں کے معاشی حالات کافی خراب ہیں دس لاکھ سے زائد پاکستانی سعودی عرب چھوڑ کر پاکستان روانہ ہوگئے ہیں لیکن ملک منظور اعوان آج بھی خوش و خرم اپنے کاروبار سے منسلک ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اس سرزمین سے اتنا کچھ کمایا ہے ۔مشکل وقت میں اس کو خیر باد نہیں کہہ سکتے ۔وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کرتے ہیں کہ ان کی تمام مشینیں تعمیراتی کاموں میں مصروف رہتی ہیں۔ منظور اعوان بھی اس معاشی بحران کے سبب لاکھوں ریال کا نقصان کرچکے ہیں لیکن پھر بھی شکر ادا کرتے نظر آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کی کمائی اس مقدس سرزمین پر اللہ کے مہمانوں کی میزبانی کرنے میں ہے جس کا کوئی حساب نہیں ہے اور وہ اس نفع دار کاروبار کو کبھی ختم نہیں کرسکتے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین