اسلام آباد(نمائندہ جنگ، ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے پاکپتن میں واقع حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے مزار سے ملحقہ متروکہ وقف املاک بورڈ کی14؍ہزار کنال اراضی کی مبینہ غیر قانونی الاٹمنٹ کیس کی تحقیقات کرانے کے طریقہ کار کے حوالہ سے سابق وزیراعظم نواز شریف سے ایک ہفتہ میں جواب طلب کر لیاہے۔جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےکہ نوازشریف خوداپنے منصف بن جائیں، ہم ہی منصف نہیں آپ بھی انصاف کرسکتےہیں،کیس میں جے آئی ٹی کی تجویزپرنوازشریف نے تحفظات کا اظہار کیا، جس پر عدالت نے انہیں پولیس ، انٹی کرپشن ،ایف آئی اے، نیب یا جے آئی ٹی میں سے کسی بھی ایک فورم کے ذریعے تحقیقات کیلئے اپنی مرضی کا طریقہ کار پیش کرنے کی تجویز دینے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس نے کہا اگر سمری پر دستخط نہیں کیے تو آپ بری الذمہ ہیں، دو بار وزیر اعلیٰ ، تین باروزیر اعظم رہنے والے کو کلیئر ہونا چاہیے۔ نوازشریف نے کہا کہ 32سال پرانا واقعہ ہے، علم میں نہیں، ایسا کوئی حکم جاری کیا ہو، لگتا ہے کہ نچلے لیول پر کوئی گڑ بڑ ہوئی تھی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کے روزپاکپتن اراضی الاٹمنٹ کیس کی سماعت کی تو عدالت کے طلبی کے نوٹس پرنواز شریف پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپکے تحریری موقف پر آپ کی کیا رائے ہے؟جس پر نواز شریف نے کہا کہ 32سال پرانا واقعہ ہے، میرے علم میں نہیں کہ میں نے ایسا کوئی حکم جاری کیا ہو، میرے ریکارڈ پر کوئی ایسا فیصلہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ نوٹس میں نے نہیں لیا بلکہ پاکپتن میں واقع حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے مزار سے ملحقہ متروکہ وقف املاک بورڈ کی14ہزار کنال اراضی کی مبینہ غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے لیا تھا میں پہلے آپ کو کیس کا بیک گرائونڈ بتا دوں؟ پہلے یہ پرا پرٹی متروکہ وقف املاک بورڈ نے وقف ڈیکلیئر ڈ کی تھی جس پر متاثرہ فریقین نے متعلقہ ڈسٹرکٹ ایند سیشن جج کی عدالت سے رجوع کیا تھا جنہوں نے اس فیصلے کو برقرار رکھا جبکہ اس کیخلاف اپیل پر ہائیکورٹ نے بھی فیصلے کو برقرار رکھا تھا جسکے خلاف متا ثرین نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جو زیر سماعت تھی کہ آپ نے متروکہ وقف املاک بورڈ کے اس نوٹیفکیشن کو ڈی نوٹیفائی کردیا تھا ،حالانکہ ڈسٹرکٹ ایند سیشن جج کی عدالت اور ہائیکورٹ کے فیصلے موجود تھے ،اب آپ اس معاملہ سے لاعلمی کا اظہار کررہے ہیں ، آپ بتائیں کہ کیا اس معاملہ کی تحقیقات ہونی چاہیے یا نہیں، آپ کے پاس سمری کی منظوری کااختیار نہیں تھا تو کس طرح 1969اور 1971کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کر کے نئے جاری کئے تھے، تحقیقات ہونی چاہیے کہ اوقاف اراضی کا نوٹیفکیشن کس نے واپس لیا تھا، یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں بلکہ قوم کی 14ہزار کنال اراضی سے متعلق ہے،آپ ایک باخبر وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں، ایک دو کنال کا معاملہ بھی ہوتا تو آپ کے علم میں ہوتا، ٹھیک ہے کہ اسکی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں، آپ اپنے وکلا سے مشاورت کر لیں، اگر سمری پر دستخط نہیں کیے تو آپ بری الذمہ ہیں ، دو بار وزیر اعلیٰ اور تین باروزیر اعظم رہنے والے کو کلیئر ہونا چاہیے ، اس وقت معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ء تھا ،قانون کے مطابق کوئی شخص بھی وقف شدہ پراپرٹی کا نوٹیفکیشن واپس نہیں لے سکتا تھا، سیکرٹری اوقاف کو بھی یہ اراضی نجی ملکیت میں دینے کا اختیار نہیں تھا،جس پر نواز شریف نے کہا کہ لگتا ہے کہ نچلے لیول پر کوئی گڑ بڑ ہوئی تھی،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں کیو نکہ اس معاملہ کی تحقیقات تو ہونی چاہیے جس پر نواز شریف نے کہا کہ اگر بنانا ہے تو جے آئی ٹی کے علاوہ کچھ بنا دیں، میراجے آئی ٹی کا تجربہ کچھ اچھا نہیں رہاہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میاں صاحب جے آئی ٹی سے گھبرا رہے ہیں۔