• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثارکی سمپوزیم کی تقریر

بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم وزیراعظم پاکستان میرے برادر جج صاحبان اسپیکر نیشنل اسمبلی، سینیٹ کے چیئرمین صاحب تشریف لانا چاہ رہے تھے عدالت کی وجہ سے نہیں لا پاسکے، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر چیف منسٹر آف آل دی پروینسز مائی ڈیر پارلیمنٹرین ڈیپلومیٹس میڈیا لیڈیز اینڈ جنٹل مین، مجھے اپنی جوانی میں کچھ وقت ملا کہ میں استاد دامن کی صحبت میں وقت گزار پایا دانشور تھے بڑے شاعر بھی تھے
This is the effect where resources are limited and the people to consume the need is infinite the need is endurable the need is up unfortunately the last 60 years because our earlier campaign for the population growths I believe terminated around 1968 started somewhere 1963-64 at the terminated came to an end in 1968 for the last sixty years we have not needed to or paid any attention to this most disasters problematic issue in Pakistan, the topic of today alarming population growth perhaps should have been the disasters effect of the population growth in Pakistan our resources are shrink by all means to our minimum level our land is shrink I know of Lahore I know the Para fee of Lahore regarding of Lahore, the kitchen gardens of Lahore speeded and sparling for miles from the city and today when we travel out of Lahore we see concrete building all society build home build no place left for vegetable no place left for anaj where are we going to get this? Where are going to get further for our animals how we are going to live I am really very disturbed and when I started the campaign. the help and courtesy of my elders brothers believe me all single judge of the SC for conscious of the fact
that the water scales team Pakistan would have devastating effect in the years to come, when we looked back retired to find out the reasons as to why the Dam have can not been build Mr. Prime minster please probe in to it I request you to do so please probe in to it as to why the last 40 years no Dam has been built in Pakistan and why we are facing such in alarming such a difficult issue that you and yourself had acknowledge in one of your speeches that Pakistan would be in a very precarious condition in 2025 no water today we have no water management in Pakistan in water is our life without water we cannot conceive of life do you know that how much water we are consuming or we are extracting from our #every year that is for our bottling companies and are leverage companies 7 billion gallons per year -
سات لاکھ بلین گیلن سالانہ زمین سے پانی نکال رہے ہیں پینے کے لئے بوٹلز میں اس کے لئے ہم ایکفر کو تباہ کر رہے ہیں چار لیٹر پانی جب نکالتے ہیں ایک لیٹر قابل استعمال ہوتا ہے باقی تین لیٹر پانی ضائع کر دیتے ہیں اس میں سب کچھ نکال کے اور وہ زہر آلود پانی ہے جو ہمارے ایکفر کو تباہ کر تا ہے یہ ہے وہ ہماری ضرورت جس کی طرف ہم نے توجہ دینی ہے پانی کے ساتھ ساتھ جیسے میں نے عرض کیا پاپولیشن گروتھ ہمارے وسائل کم ہوتے چلے جارہے ہیں لیکن ہمارے منہ بڑھ رہے ہیں ہر دن تعلیم جس کا ابھی مولانا طارق جمیل نے ذکر کیا سب سے اہم چیز جو کسی معاشرے کسی ملک کے لئے اہم اور وہ آپ کی تعلیم ہے آپ کا علم یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے لیکن اللہ نے آپ کوسہولتیںدی ہیں جن کو بروئے کار لا کر آپ اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر کرسکتے ہیں اُن فیسیلٹی میں جو سب سے بڑی ہے فیسلٹی ہے وہ ہے سوچنے کی اپنا برا اور بھلا یا تفریق کرنے کی صلاحیت جو دی ہے اللہ تعالیٰ نے وہ قومیں جنہوں نے علم حاصل کیا اور اپنی بہتری کے لئے علم حاصل کیا دیکھیں وہ ترقی کی منزلیں طے کر کے آج کہاں پر کھڑے ہیں جن قوموں نے ترقی نہیں کی جو ایک کومن فیکٹر ہے وہ ہے تعلیم کی کمی میں نام نہیں لوں گا میرے ایک دوست سپریم کورٹ کے ہم گاڑی میں سفر کر رہے تھے میں نے ان سے ذکر کیا فیملی کی بات ہو رہی تھی کہنے لگے ہم فلاں جگہ سے مہاجر ہو کر آئے ہیں میرے والد صاحب بہت عرصہ پہلے آگئے تھے انڈیا میں اور آج میں اور میری فیملی ماشا اللہ بڑے پڑھے لکھے لوگ صاحب حیثیت علم و فضل سے ماشا اللہ اُن کو اللہ نے بہت سرخرور کیا ہے کہتے ہیں میری دوسری فیملی بھائی کی اولاد جو ہیں وہ وقت پر شہروں میں نہیں آسکے تعلیم حاصل نہیں کرسکی تو اس کا نام ہے ۔۔ پیار سے اس کو فیجا کہتے ہیں پوچھتے ہیں کیا کرتا ہے وہ کہتا ہے میں ریڑھی لگاتا ہوں یہ فرق ہے The people those have got to education the people those have the knowledge people those have the learning their for head the anyone who is lacing in this اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت ہے جس سے وہ مستفید نہیں ہوسکے تعلیم کی بنیاد پر اگر ہم سب چیزوں کو دیکھیں ایک فیکٹر جو بڑا اہم ہے وہ یہ کہ کیا ہم اپنے ملک میں اتنی آبادی پیدا کرلیں کہ ہمارے تمام وسائل جو ہیں اس آباد ی کو پورا نہ کر پائیں آج وہ دن آج وہ وقت کہ ہمیں اس معاملے کو بے انتہا اہم سمجھ کے Not only to prepare resolutions but go for straight away the intrementaion how the population is that control all over the world اُن قوموں نے آج اور آج سے بہت پہلے یہ ماڈلز بنا ئے ہمارے سامنے ہیں صرف ہمیں نفاذ کرنا ہے اور شعور بڑھانا ہے یہ Awareness ہمیں میڈیا کے ذریعے کرنی ہے ہمیں man to man کرنی ہے اور جب تک اس Awareness کو کریٹ نہیں کریں گے ہمارے ریسوریس شرینک ہو رہے ہیں ۔پاکستان کی جو آبادی ہے اگر اسی ریشو سے بڑھتی رہی تو پیتنالیس کروڑ آبادی ہوگی وسائل بہت کم ہوتے جارہے ہیں آپ کی زمین شرینک ہوتی جارہی ہے میں نے بہت دفعہ کہا ہے پانی کے حوالے سے کہ کوئی ایک شخص ہزاروں ایکڑ پر ایک فیکٹری لگا دے جس سے ہم پانی پیدا کرسکیں اور اس پانی سے ہم لوگوں کو پینے کے لئے بھی ان کی کھیتی باڑی کے لئے بھی ان کی اور ضروریات کے لئے بھی پانی مہیا کرسکیں یہ ممکن نہیںہے لہٰذا یہ جو اقدام سپریم کورٹ میرے اکیلے کا یہ قدم نہیں ہے میرے تمام بھائی ایک ایک دوست سپریم کورٹ کا اس میں شامل ہے اس مہم میں اس تحریک میں اس آئیڈیا میں کہ ہمیں آبادی کو کنٹرول کرنا ہے اس لئے کہ یہ پاکستان کی بقاء کی علامت ہے اس کے لئے initiativeہم نے کی ایک ٹاسک فورس کریٹ کی اور مجھے بہت خوشی ہے آج اعلان کرنے میں اس ٹاسک فورس میں کئی سیشن ہوئے اور آخر کار بہت اچھی تجاویز پیش کی گئی ہیں ہمارے پاس جوڈیشری کے پاس ان تجاویز پر عملدرآمد کرنے کا کوئی میکنیزم نہیں صرف اگر کوئی نفاذ کرواسکتا ہے تو وہ جناب محترم وزیراعظم ایگزیکٹو سپریم کورٹ نے جو اپنا حصہ ہیومن رائٹس کی انڈراسٹنڈنگ کے بارے میں پلے کرنا تھا وہ ہم نے اپنا حصہ ڈال دیا ہے یہ اب ایگزیکٹو کا کام ہے کہ وہ اس کو کیسے آگے لے کر چلتا ہے لیکن یہ بات مستند ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ یہ ایک مینس ہے اس کو ہم نے کنٹرول کرنا ہے ہیومن راٹس کیسز میں جیسے مولانا طارق جمیل نے کہا وہ کام بھی کرنے پڑے یا وہ کام کر دئیے جو ہمارے کام نہیں تھے مجھے احساس تھا کہ ہم نے واقعی ان چیزوں کو جس میں صحت تعلیم لا اینڈ آرڈر بہت سارے ایسے کام جن کو ہم نے اٹھائے اور کسی حد تک sensitise کیا اور awareness کریٹ کی ایک جو بہت اہم پہلو میں ذمہ داری سمجھتا ہوں آپ کو وضاحت کروں وہ ہے ہمارا جوڈیشل سسٹم چار چیزیں میری نظر میں کسی قوم کی ترقی کا کسی بھی ترقی یافتہ ملک کا اہم جز ہے تعلیم، اپرائٹ ، ایماندار لیڈر شپ ، رول آف لا اینڈ جوڈیشل سسٹم اینڈ اونسٹی آف پرپس جہاں تک تعلق ہے جوڈیشل سسٹم کا مجھے درد کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے درد کے ساتھ کہ آج صرف یہ جوڈیشل سسٹم دو سال میں چار سال میں اس پر بوجھ نہیں آیا یہ پچھلے صدیوں کا بوجھ اٹھائے چلے جارہے ہیں صدیوں کا میں صرف پاکستان کے بننے سے اب تک کی بات نہیں کر رہا یہ صدیوں کا بوجھ لیکن میں محترم وزیراعظم آپ کو بتاؤں کہ یہ بوجھ ہم کیوں اٹھا رہے ہیں ہر چیز کو کرنے کے لئے ٹولز ہوتے ہیں اپ کو پتہ ہے ہمارا جو قانون ہے کنٹریکٹ لا یہ بہت اہم قانون ہے یہ 1872 ء کا قانون ہے یہ ٹول ہمیں ملا ہے جس کو آج ہم 2018 ء میں اپلائی کر کے انصاف کرنا چاہ رہے ہیں لیمٹیشن ایکٹ 1908 ء کا سول پروسیجر کورٹ کریمنل پروسیجر کورٹ بھی 1908 ء کامجھے درست کیجئے گا 1898 ء یہ ہیں وہ ٹول جو یہ ٹول کس نے دینے ہیں سر ہم قانون سازی نہیں کرسکتے یہ ٹولز ہمیں پارلیمنٹ نے دینے ہیں آج میرے محترم پارلیمنٹرین یہاں پر بیٹھے ہیں بہت محترم ہیں میں نے ہمیشہ acknowldege کیا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے میں نے یہ بات ہمیشہ مانی ہے کہ آئین کے بعد اگر کوئی سپریم ادارہ ہے اس ملک میں ہے تو وہ پارلیمنٹ ہے پالیسیز بنانے میں لا فارمولیٹ کرنے میں مگر سر ہمیں اتنا وقت گزر چکا ہے ان لاز کو اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا سر شاید اب وہ وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ کی جو پروسیڈنگ ہیں اس کا بائیکاٹ کرنا چھوڑ دیں اور پارلیمنٹ میں بیٹھ کے جو ہماری اصل ڈیوٹی ہے آپ مجھے وہ ٹولز دے دیجئے آج کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے یہ جو میرے دوست ججز یہاں پر جو نہیں اس وقت موجود جو سول جج کے لیول پر بھی اس وقت کام کر رہے ہیں سر وہ آپ کو ایک ماشااللہ بہت اچھا ڈیلوری جسٹس سسٹم پروائیڈ کریں گے آپ کو پتہ ہے سول جج کے پاس کتنے مقدمے روز کے لگے ہوتے ہیں ایک سو ساٹھ اور کتنے گھنٹے کام ہے اس کا مان لیجئے چھ گھنٹے آپ ذرا تقسیم کیجئے کہ ایک سو ساٹھ کیسز کے اوپر منٹ کے حساب سے تین منٹ ملتے ہیں ایک جج کو ایک مقدمے کے لئے اور تین منٹ کا مطلب یہ ہے کہ باہر اہلکار جو بھی ہے وہ آواز دے گا محمد دین VS فضل دین وکیل صاحب اور کلائنٹ اندر آئیں گے وہ پچھلا آرڈر دیکھیں گے کیا اس میں لکھا گیا تھا اس کے بعدوہ پوچھیں گے کیا کارروائی ہونی ہے وہ تین منٹ جو ہیں ان کے ۔۔ محترم ہمیں ججز کی تعداد بڑھانی ہے ہمیں اپنے عدلیہ کی جو
اسٹریکچر ہے اسے بھی ہمیں اپنے قوانین کو اپڈیٹ کرنا ہے بہت سارے ہمارے قوانین ایسے ہیں جن کی ضرورت نہیں رہی آپ کا جو پاکستان کوڈ ہے اس کو ذرا ملاحظہ فرمائے کہ جو ججز کا کوڈ ہے کہ ججز کے بارے میں جو لکھا گیا ہے 1850 ء کا لاء ہے کہ کن صورتوں میں ججز کے خلاف ایکشن لیا جاسکتا ہے سب آرڈینٹ جوڈیشری کے اور کن کیسز میں نہیں لیا جاسکتا 1850 ء کا لاء ہے کیا یہ لاء آج ہمارے لئے قابل عمل ہے میری درخواست ہوگی پاپولیشن پلاننگ پر تو بہت ساری دوستوں نے بات کی ہے کہ آج جوڈیشری کے اس ایک بیک ڈرا کو اس سسٹم کو جس کے لئے لوگ واقعتاً شکایت کرتے ہیں کہ اس کو بہتر ہونا چاہیے سر آپ کی بہت معاونت کی ضرورت ہے آپ کی پارلیمنٹ لیکن اس کے باوجود میں آپ سے عرض کردوں کہ ہم غافل نہیں رہے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے ماتحت ہم نے اتنے سارے لاء بنا کے آپ کو دے دیئے ہیں کہ یہ اب آپ کا کام ہے اسے پارلیمنٹ میں لے کر جائیے اور اسے پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ ہو جو ترمیم آپ کرنا چاہتے ہیں فرمائے لیکن ان لاز کو خدارا اپ ڈیٹ کر دیجئے کہ یہ جو الزام ہے جوڈیشری پر کہ ایک مقدمہ کئی نسلوں تک چلتا چلا جارہا ہے ہم اب اس بوجھ کو تہمت کو زیادہ اٹھانے کے متحمل نہیں ہوسکتے سر دنیا میں صرف دو باتیں عرض کر کے بات ختم کرتا ہوں دنیا میں یہی صورتحال تھی بہت ساری بوجھ تھا مقدمات کا کس طرح حل کیا کوسٹ سسٹم کو ، فرورنس ریٹیگیشن کو کریٹل کرنے کے لئے ہیوی پراکس اور سول لاء کو کریٹل کرنے کے لئے متبادل ذرائع اے ڈی آر سسٹم بدقسمتی سے یہ دونوں میکنیزم ہم نے اپنے ملک میں رائج نہیں کیے سر مجھے فخر ہے اپنے بھائی کا نام لیتے ہوئے آصف سعید خان کھوسہ صاحب کا انہوں نے کچھ اضلاع میں ماڈل کورٹس کریمنل سائیڈ پر کیونکہ یہ ماہر ہیں کریمنل سائیڈ کے کام پر کریمنل سائیڈ پر کچھ کورٹ کلیئر کروائے اور ہم نے وہ سیشن مقدمات جن میں کئی کئی سال گزرتے تھے ہم نے تین تین ماہ میں اس کے فیصلے کروائے اور وہ فیصلہ جات بہت معتبر صاف ستھرے سر ہمیں وہ پروائیڈ کردیں جو آپ نے فنڈز پروائیڈ کرنے ہیں انشااللہ تعالیٰ ۔۔۔ یہ جو ایک ہماری کمی ہے یہ بھی آپ کو ہم پوری کر کے دیں گے میں آج کی اس تقریب منعقد کرانے میں یہ جو ہمارا ہیلتھ ادارہ ہے صحت کا اس میں زاہد شیخ صاحب کا باقی جو ارکان ہیں بہت شکریہ ادا کرتا ہوں انہوں نے بہت محنت کے ساتھ بڑی توجہ کے ساتھ بہت اس پر ہوم ورکز کئے کئی ورک شاپس کروائیں اب ہم نے آپ کو ماڈل بنا کے دے دیا ٹاسک فورس نے اس کی ذمہ داری اس کو آگے لے کر چلنا صرف آپ کا کام ہے اگر یہ ہم نہیں کرپائیں گے تو پھر آپ کو بتا دوں we will be failing in our duty we will should be apologetic to our Prosperity اس بچے کو جسے آج ہم پیدا کر رہے ہیں آپ کو زیادہ پتہ ہے آج جو مقروض بچہ پیدا کر رہے ہیں ایک لاکھ اکیس ہزار روپے کا مقروض بچہ لوگ دنیا میں اپنے بچوں کے لئے کچھ دے کے جاتے ہیں ہم بدقسمتی سے ان کو مقروض چھوڑ کر جارہے ہیں یہ ہے سوچنے کی بات اللہ نے آپ کو بہت نیک اور دیانت دارآپ مدینہ کی ریاست قائم کرنے کی بات کرتے ہیں ہم آپ کے ساتھ شانہ بشانہ مل کے اس آپ کے خواب اور تصور کو پورا کرنے کے لئے تیار ہیں مجھے امید ہے کہ نیک نیتی سے ہم چند سالوں میں انشا اللہ اپنے خواب کی تعبیر پالیں گے الحمد للہ پاکستان پائندہ آباد۔
تازہ ترین