اسلام آباد (نمائندہ جنگ ) سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے یہاں ہر کوئی خودکو عقل کل سمجھتا ہے ، اشرافیہ یا اقتدار پر قابض لوگ سمجھتے ہیں یہ ملک صرف ان کیلئے بنا ہے، کہتے ہیں انھیں آئین کی یہ شق قبول اور یہ قبول نہیں، ریاست پر اجارہ داری سے ہم نے عوام کو متنفر کر دیا ہے ہم نے 72 سال سے ذہن کی غلامی نہیں چھوڑی پاکستان میں 2400 ججز ہیں ان میں سے سو کے فیصلے پڑھ لیں وہ کیا کہہ رہے ہیں پھرآپکو نظر آجائیگا پاکستان میں انصاف سستا ہے نہ فوری ، جناح مرکز برائے قانون کی حکمرانی تھنک ٹینک کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ایک مقدمے کو نمٹنے میں اوسطا پچیس سال لگتے ہیں بعض مقدمات پچاس ساٹھ سال بھی چلتے ہیں ، ادارے سمجھ لیں آئین و قانون کی حکمرانی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب عوام کوآپ یہ پیغام دینگے کہ آئین کی وہ شق لاگو ہو گی جو آپکو قابل قبول ہو یہ قانون کی نہیں آپکی ذاتی حکمرانی ہے، تقریب سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر ، سابق چیئرمین سینٹ سینیٹر رضا ربانی ، وفاقی وزیر محمد سرور خان ، نفیسہ شاہ ،سابق آئی جی سندھ ڈاکٹر شعیب سڈل ، سابق ڈی جی ایف آئی اے عارف کھوسہ ، نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین پروفیسر خالد مسعود اور خواتین کمیشن کی چیئرپرسن بیگم خاور ممتاز نے بھی خطاب کیا ، رضا ربانی نے کہا سب کیساتھ برابری کے قانون کا اطلاق نظر نہیں آتا ،اشرافیہ کا حصہ ہیں تو قانون کا اطلاق الگ طرح ہو گا، آرٹیکل چھ کے مقدمہ کا مجرم ملک سے فرار ہوتا ہے اور ریاست بے بس نظرآتی ہےاکبر بگٹی قتل کیس کے ملزم کو بغیر پیش ہوئے بری کر دیا جاتا ہے ، ہم پھر کیسے قانون کی حکمرانی کا سوچیں ،کیا آئین میں بنیادی حقوق موجود نہیں ریاست اور اشرافیہ نے بنیادی حقوق کی نجکاری کر دی ہے اس وقت ایک ہائبرڈ وار جمہوریت ، جمہوری اداروں اور آئین کیخلاف چل رہی ہے ، ہم نے اٹھارویں ترمیم میں لفاظی ڈال کر راستے بند کرنیکی کوشش کی جب آزمائش کا وقت آیا تو آرٹیکل چھ بیکار نکلا، آرٹیکل چھ تب ہو گا جب عام شہری متحرک ہو گا ، جب سے پاکستان قائم ہوا یہاں قانون کی حکمرانی نہیں رہی ، آمروں نے کبھی سیاسی جماعتوں اور کبھی عدلیہ کا سہارا لیا، ملک میں افراد کی حکمرانی رہی انہوں نے تمام اداروں ، قوانین اور حقوق کو اپنے تابع کیا جس پرمزاحمت نے جنم لیا، جنرل ایوب کی آمریت کو ہٹایا گیا تو جنرل ضیاء الحق آیا ریاست نے فیصلہ کیا کہ طلبہ ، مزدور تنظیموں پر پابندی عائد کر دی جائے متبادل بیانیہ ختم کیا گیا، جب دہشتگرد پکڑے جاتے ہیں تو ان میں بہت سے یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہیں اسکی وجہ یہ ہے جب طلبہ یونین پر پابندی لگائی گئی تو دائیں بازو کی تنظیموں کو کام کرنےکا موقع دیا گیا آج مزاحمت کا کلچر ختم ہو گیا ہے، کوئی متبادل بیانیہ نہیں، پاکستان کی اشرافیہ نے سمجھا ریاست صرف انکی ہےریاست مضبوط ہوئی ، اشرافیہ مضبوط ہوئی مگر عام آدمی کمزور ہوا ریاست سے الگ ہوتا چلا گیا آج قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس کیلئے عام آدمی خود کو ریاست کا شراکت دار نہیں سمجھتا عام آدمی تنہائی اور اضطراب کا شکار ہے ، شہزاد اکبر نے کہا آئینی گورننس کیلئے سب سے زیادہ ضروری ہے نظام چلتا رہنا چاہئےحکمران کو ادراک نہیں ہوتا سستا اور فوری انصاف کیسے دیناہے کیونکہ ہمیشہ وزرات خزانہ درمیان میں آجاتی ہے،آئینی گورننس کیلئے عدلیہ کا کردار بہت اہم ہےگزشتہ ڈیڑھ دہائی میں عدلیہ کی ایکٹیوازم نے بڑا کردار ادا کیا ہے، میڈیا کے بغیر احتساب ممکن نہیں ، ہم تجرباتی عمر سے گزر رہے ہیں عدالتی ایکٹیوازم کو دیکھ رہے ہیں مگر بدقسمتی سے قانون کے شعبے میں تحقیق کا فقدان ہے۔