• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا جن، پریوں، چڑیلوں اور چھلاووں کا کوئی وجود ہے؟ میں کسی مذہبی بحث میں الجھے بغیر یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان غیر مرئی طاقتوں کے وجود کے بارے میں یقین وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوا ہے۔ جب معاشرے میں زیادہ تر پیداوار کھیتی باڑی کے ذریعے ہوتی تھی، عوام دیہات میں رہتے تھے، سائنس اور بالخصوص جدید علاج معالجے کی سہولتیں میسر نہیں تھیں اور انسان قدرتی طاقتوں کے مقابلے میں بے بس تھاتو مابعدالطبیعاتی ہستیوںپراعتقاد ہر مذہب کے لوگوں کو حقیقی نظریاتی بنیادیں فراہم کرتا تھا۔ لوگ ہندو ازم کو چھوڑ کر مسلمان یا سکھ ہونے کے بعد بھی بنیادی اعتقاد ات میں کوئی تبدیلی نہیں لاتے تھے۔ یعنی ایک طرح کے لوگوں میں بلا تفریق مذہب اعتقادات کا نظام ایک ہی تھا اور یہی وجہ ہے کہ جب ان لوگوں پر جدیدیت نے دھاوا بولا تو ان میں ایک ہی طرح کی مذہبی بنیاد پرستی نے غلبہ حاصل کرنا شروع کردیا ہے۔ یو پی میں ہندو انتہا پسندی، سکھوں میں خالصہ کا ابھار اور مسلمانوں میں تحریک لبیک جیسی تحریکوں کا وجود اسلئے ایک جیسا ہے کیونکہ وہ ایک ہی مشترکہ نظریے کے مسمار ہونے کیخلاف رد عمل کا حصہ ہیں۔

میں نے 1964ءمیں ہائی اسکول پاس کیا اور تب تک میری زندگی گاؤں تک محدود تھی۔ اس زمانے تک گاؤں میں بجلی، کھاد اور تجارتی بیج تک متعارف نہیں ہوئے تھے۔بازار سے نمک، مٹی کا تیل اور شاید کچھ دیگر اشیاء کے علاوہ ہر چیز گاؤں میں پیدا کی جاتی اوربنائی جاتی تھی۔ بنیادی پیداوار تو کھیتی باڑی کے ذریعے ہوتی تھی جس کا انحصار قدرتی عوامل پر تھا۔ بارش ، آندھیاں، ژالہ باری اور دوسری آفات پورے گاؤں کو فیض یاب یا تباہ کر سکتی تھیں۔ ان قدرتی طاقتوں کے سامنے انسان بے بس تھا اور اسی لئے اس نے خیالی ہستیاں تراش رکھی تھیں جن کو اپنے ساتھ ہونے والے غیر معمولی واقعات کا ذمہ دار ٹھہرا سکتا تھا۔ اگر کسی کو اچانک بخار آگیا یا ہذیان کامرض ہو گیا تو اس کی توجیہہ اس کے علاوہ کیا ہو سکتی تھی کہ یہ چڑیلوں یا جادو ٹونے کی کارستانی ہے۔ چنانچہ ان غیر مرئی ہستیوں پر سب کو ایک جیسا یقین تھااور سب یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اس طرح کی بلاؤں کا انہیں ذاتی طور پر تجربہ ہو چکا ہے۔ میرے ایک تایا زاد بھائی ماسٹر محمد رفیق تھے جو ہائی اسکول میں فارسی پڑھاتے تھے، جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ تھے ، انتہائی معقول شخصیت کے حامل تھے اور مجھے نسیم حجازی اور ایم اسلم کے ناولوں کی چاٹ لگانے والے تھے ۔ انہوں نے مجھے ایک دفعہ اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک شام سکھوں کے چھوڑے ہوئے شمشان گھاٹ کے قریب سے گزررہے تھے کہ ایک چڑیل عورت کے روپ میں ان کے سائیکل کی پچھلی کاٹھی پر آکر بیٹھ گئی۔ میں نے ایسی سینکڑوں داستانیں سن رکھی ہیںجن کے پس منظر میں میں کہہ سکتا ہوں کہ ان بلاؤں پر یقین اعتقاد کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر تھا۔ یہاں بلھے شاہ کی ایک کافی کا ذکر موزوں رہے گا:

مسلمان سیویاں توں ڈردے، ہندو ڈردے گور

دونویں ایسے دے وچ مردے ایہو دوہاں دی گھور

کتے رام داس کتے فتح محمد ایہو قدیمی شور

مٹ گیا دوہاں دا جھگڑا، نکل پیا کجھ ہور

(مفہوم۔ مسلمان شمشان گھاٹ اور ہندو قبروں سے ڈرتے ہیں۔ دونوں ایک ہی جگہ مرتے ہیں اور دونوں ایک ہی غم میں مبتلا ہیں۔ کہیں وہ فتح محمد اور کہیں رام داس کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اگر اس کا تنازعہ ختم ہو جائے تو بیچ میں سے کچھ اور نکل آتا ہے)

وہ جو بیچ میں سے نکل آتا ہے وہ دونوں کا مشترکہ نظریہ حیات اور استحصال ہے۔ ان دیکھی ہستیوں کے فکری حصار میں مقید معاشرے کے خوف کی کچھ جھلکیاں منیر نیازی کی پنجابی شاعری میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔

گھر دیاں کندھاں اتے دسن چھٹاں لال پھوار دیاں

ادھی راتی بوہے کھڑکن ڈیناں چیکاں ماردیاں

ایدھر اودھر لُک لُک ہسن شکلاں شہروں پار دیاں

روحاں وانگوں کولوں لنگھن مہکاں باسی ہار دیاں

(گھر کی دیواروں پر سرخ چھینٹے دکھائی دیتے ہیں۔ نصف شب دروازے کھٹکھٹاتے ہیں اورچڑیلیں چیخ رہی ہیں۔ ادھر ادھر چھپ کر شہر پار کی شکلیں قہقہے لگا رہی ہیں ۔ باسی ہار کی خوشبو روحوں کی طرح قریب سے گزرتی جاتی ہے)\متذکرہ عوامی نظریے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ قدرتی بلاؤں اور ضرر رساں ان دیکھی ہستیوں کو کسی کلام یا جادو ٹونے سے قابو بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی کی بنا پر جادوگر اور خدا یا بھگوان کی قربت حاصل کر لینے والے بزرگوں کی عزت و توقیر کی جاتی اور ان کی ایسی کرامات بیان کی جاتی ہیں جو قدرتی عمل کو قابو کرنے کی علامات ہیں۔ اسی عوامی مشترکہ اعتقاد کے تناظر میں ہندو اور سکھ مسلمان صوفیاء کے پیروکار نظر آتے ہیں۔ شاہ حسین کے زیادہ پیروکار ہندو تھے اور معین الدین چشتی اجمیری کے مزار پر تو اب بھی ہندو مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعداد میں حاضری دیتے نظر آتے ہیں۔ ذاتی سطح پر مجھے علم ہے کہ میرے والدین کو یقین کامل تھا کہ میری ٹانگ پولیو کی بجائے چڑیلوں نے خراب کی تھی۔ اس لئے وہ مجھے کافی عرصے تک مختلف پیروں کے مزاروں پر لےجاتے رہے۔ ان کی سمجھ میں ڈاکٹر کی یہ بات کبھی نہ آئی کہ پولیو زدہ ٹانگ کی ورزش کروانے سے کافی بہتری آسکتی ہے کیونکہ اعتقاد صرف کرامات پر تھا۔ یہاں تک کہ ان کو اس وقت تک بیساکھیوں کا بھی پتہ نہ چلا جب تک اتفاقاً کسی کو ایسے چلتے نہیں دیکھ لیا۔

شہروں کے تعلیم یافتہ مفکرین اس ٹھوس عوامی نظریے سے نا بلد تھے جس کی وجہ سے ان کے نظریات ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ مسلمان مفکرین انگریزوں کی پٹی پڑھتے ہوئے اپنی جڑیں مشرق وسطیٰ کے عرب فلسفہ دانوں میں ڈھونڈتے رہے اور اسی تناظر میں غیر متاثر کن حل پیش کرتے رہے۔ ہندو دانش ور بھی عقلیت پسند روایات میں اپنی نجات کے خواہاں رہے۔ ان سب سے بے نیاز معاشرہ اپنے قدیم اعتقادات پر اس وقت تک چلتا رہا جب تک جدید ٹیکنالوجی نے پرانے معاشی نظام کو جڑوں سے اکھاڑ کر پھینک نہیں دیا۔ اب اگر کسی کو پولیو ہوتا ہے تو اس کو چڑیلوں کی کارستانی کی بجائے وائرس کے نام سے تشخیص کیا جاتا ہے۔ سر درد اور اس طرح کی بیماریوں کے لئے بلڈ پریشر چیک کروایا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن پرانے اعتقادات کے نظام کے مسمار ہونے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو ایک مختلف قسم کے انتہا پسند نظریے نے پر کیا ہے جس میں پرانے نظریے میں ترمیم کی گئی ہے۔ نئے نظریے کی موجودہ عوامی ہیئت کو ہم کسی دوسرے کالم میں بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔

تازہ ترین