• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کے مال روڈ پر واقع گورنر ہائوس کا شمار اُن تاریخی عمارتوں میں ہوتا ہے جو پنجاب کے دارالحکومت کی پہچان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب وزیراعظم عمران خان نے گورنر ہائوس کی بیرونی دیوار گرائے جانے کا حکم دیا تو اس اعلان نے مجھ سمیت ہر ذی شعور پاکستانی کو حیرت زدہ کردیا کہ اس تاریخی عمارت کی دیوار گرانے سے ملکی معیشت کو کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ وزیراعظم کے اس اقدام کے بارے میں یہ دلیل پیش کی گئی کہ یہ دیوار برطانوی تسلط کی نشانی ہے جسے ختم کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ایل ڈی اے نے بلاتاخیر دیوار سے جنگلے اتارنے شروع کردیئے اور ممکن تھا کہ اس کے بعد دیوار منہدم کردی جاتی، لاہور ہائیکورٹ نے نہ صرف دیوار گرانے کے حکم پر عملدرآمد رکوادیا بلکہ اپنے آرڈر میں سختی سے ہدایت کی کہ اگر کسی نے گورنر ہائوس کی ایک اینٹ بھی چھیڑنے کی کوشش کی تو اُسے سیدھا جیل بھیج دیا جائے گا۔ اس طرح یہ تاریخی عمارت تباہ ہونے سے بچ گئی جس پر لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مامون الرشید یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اگر لاہور ہائیکورٹ ایسا نہ کرتی تو آج گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور یہ شعر پڑھتے نظر آتے۔

دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی

لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالئے

90 ایکڑ رقبے پر پھیلے گورنر ہائوس لاہور کی عمارت کا شمار ملک کی تاریخی عمارتوں اور عمارت کے اطراف گارڈن کا شمار دنیا کے بڑے باغات میں ہوتا ہے جنہیں آج کل عوام کی سیر و تفریح کیلئے کھولا جاچکا ہے۔ 1851ء میں اس عمارت کو برطانوی دور کے صوبائی گورنر کی رہائش گاہ کیلئے تعمیر کیا گیا تھا اور اس کی زمین صرف 2500 روپے میں خریدی گئی تھی جس کی مالیت آج تقریباً 90ارب روپے سے زائد ہے۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد اس عمارت کو گورنر کی رہائش کیلئے مختص کردیا گیا جہاں پہلے مسلمان گورنر سردار عبدالرب نشتر نے رہائش اختیار کی۔ گورنر ہائوس لاہور کی عمارت دنیا کی وہ واحد عمارت ہے جس کی طرز تعمیر اور تزئین و آرائش میں 4 آرٹ یعنی مغل آرٹ، برٹش آرٹ، سکھ آرٹ اور اطالوی آرٹ شامل ہیں۔ یہ عمارت کئی حصوں پر مشتمل ہے جس کے گرائونڈ فلور پر واقع آفس ونگ میں گورنر پنجاب اور انکے اسٹاف کے دفاتر ہیں جبکہ فرسٹ فلور پر گورنر کی رہائشگاہ اور عمارت کا سب سے تاریخی دربار ہال ہے جہاں ہر نیا گورنر اپنے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے۔ ہال سے متصل ڈرائنگ روم اور آئیوری روم ہے جبکہ ساتھ ہی ڈائننگ روم، کانفرنس روم، لائبریری اور بلیرڈ روم بھی موجود ہیں۔ گورنر پنجاب کی رہائش گاہ وی وی آئی پی Suites پر مشتمل ہے جس کا Suit نمبر 1پرنس ونگ کہلاتا ہے جہاں شاہ فیصل، چواین لائی اور ملکہ الزبتھ جیسی عالمی شخصیات قیام کرچکی ہیں۔ گورنر ہائوس لاہور سے میری پرانی یادیں وابستہ ہیں۔ میں یہاں ماضی میں گورنر مخدوم احمد محمود اور چوہدری محمد سرور کے ادوار میں کئی روز قیام کرچکا ہوں اور مجھے اس تاریخی عمارت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔

گورنر ہائوس لاہور کی دنیا بھی بڑی عجیب ہے۔ دن بھرمیں اعلیٰ حکومتی و سیاسی شخصیات کے پروٹوکول کے ساتھ آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور گورنر ہائوس گہما گہمی کا مرکز بنا رہتا ہے مگر شام ڈھلتے ہی جب گورنر ہائوس پر لگے قومی اور گورنر ہائوس کے پرچموں کو اتاردیا جاتا ہے اور ملازمین اپنے فرائض سرانجام دینے کے بعد کوارٹرز تک محدود ہوجاتے ہیں تو گورنر ہائوس پر پراسراریت چھاجاتی ہے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ گورنر ہائوس لاہور کی عمارت کے عین درمیان ڈائننگ روم کے بالکل نیچے ایک پرانی قبر آج بھی موجود ہے جو مغل بادشاہ اکبر کے کزن محمد قاسم خان کی بتائی جاتی ہے جہاں مجھے جانے اور فاتحہ پڑھنے کا بھی موقع ملا۔ گورنر ہائوس میں میرے قیام کے دوران کچھ پرانے ملازمین نے مجھے بتایا کہ انہیں گورنر ہائوس کی عمارت میں کئی بار رات کے اوقات میں کوئی بزرگ شخصیت نظر آئی اور عمارت پر کسی نیک روح کا سایہ ہے جو کسی کو تنگ نہیں کرتی۔ حالانکہ میں ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا مگر لاہور ہائیکورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد نہ جانے کیوں مجھے اس بات پر یقین ہورہا ہے کہ شاید کوئی بزرگ شخصیت یقینا اس تاریخی عمارت کی حفاظت کررہی ہے۔

حکمرانوں کے زیر استعمال پرانے محلات اور دفاتر عوام کیلئے کھولنا ایک مثبت قدم ہے۔ برطانوی شاہی محل بکنگھم پیلس، امریکی صدارتی وائٹ ہاؤس، کریملن اور دلی کے راشٹر پتی بھون کے کچھ حصے عوام کیلئے مخصوص دنوں میں کھولے جاتے ہیں جبکہ ایران کا صدارتی محل پورا عجائب گھر ہے۔ کسی بھی ملک کی حکومت اپنی قدیم عمارتوں کی حفاظت تاریخی ورثے کے طور پر کرتی ہے اور ان کا تشخص برقرار رکھنے کیلئے انہیں توڑ پھوڑ اور خستگی سے بچاتی ہے مگر صرف اس وجہ سے عمارت کو منہدم کردینا کہ یہ عمارت ہمیں انگریزوں کے تسلط کی یاد دلاتی ہے، یہ سوچ مناسب نہیں ہے۔ اگر حکومت گورنر ہائوس کو میوزیم، آرٹ گیلری یا یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو دیوار گرائے بغیر بھی اسے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ کروڑوں کی دیوار گراکر 6 کروڑ کا نیا جنگلہ لگانا یہ کیسی سادگی اور کفایت شعاری ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔پی ٹی آئی حکومت نے 100 دنوں میں آدھے ملک کو ملبے کا ڈھیر بنادیا ہے۔ کاش کہ حکومت کو معلوم ہو کہ تاریخی عمارتیں اور لوگوں کے گھر اور دکانیں گراکر ان کے ملبے پر نئے پاکستان کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی لہٰذا بہتر یہی ہے کہ آبائو اجداد کی لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے حاصل کئے گئے پاکستان کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے بجائے معاشی طور پر مضبوط بنانے پر توجہ دی جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین