• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدینہ منورہ کے شمال مشرق میں 100 کلومیٹر کی مسافت پر ’’خیبر‘‘ کا سرسبز و شاداب علاقہ یہودیوں کا مسکن تھا۔ نغمے الاپتے پانی کے چشموں، قسم قسم کے پَھلوں سے لَدے درختوں اور آنکھیں خیرہ کرنے والے خُوش نُما، دِل رُبا قدرتی نظاروں نے اس وادی کی خُوب صورتی دوبالا کر دی تھی۔ یہودی یہاں برسوں سے آباد تھے اور اُنھیں اپنے لامحدود وسائل، بے پناہ مال و دولت، سامانِ حرب اور ہزاروں جنگ جوئوں پر بڑا ناز تھا۔ اسی وجہ سے وہ خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے۔ نبی کریمﷺ کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد یہود قبائل، بنو نضیر اور بنو قریظ بھی مدینے سے خیبر منتقل ہوگئے۔ اسلام کی بڑھتی مقبولیت نے یہودیوں کو حسد، رشک اور خوف کے مرض میں مبتلا کر دیا تھا۔ مدینہ منورہ پر حملے کے لیے اُن کی تیاریوں کی خبریں سرکار دوعالمﷺ کے پاس تسلسل کے ساتھ پہنچ رہی تھیں۔ چناں چہ صلح حدیبیہ سے فارغ ہوتے ہی آپﷺ محرم7ہجری میں چودہ سو صحابہؓ کے ساتھ خیبر روانہ ہو گئے۔ مسلمانوں کی تیز رفتار فوج کو اچانک اپنے سَروں پر پا کر یہودی جنگجو قلعوں میں بند ہو گئے۔ کئی دنوں کے محاصرے کے بعد مسلمانوں نے خیبر کے چھے قلعے فتح کر لیے، لیکن ناقابلِ تسخیر سمجھا جانے والا قلعہ ’’القموص‘‘ فتح نہ ہو سکا۔ یہ قلعہ، عرب کے نام وَر جنگی سردار ’’مرحب‘‘ کا تھا۔ کہتے ہیں کہ اُس کی طاقت ایک ہزار جنگ جوئوں کے برابر تھی۔ محاصرے کو بیس دن گزر چُکے تھے۔ ایک شام آپﷺ نے فرمایا’’کل مَیں جنگ کا عَلم اس کو عطا کروں گا، جسے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبّت ہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ بھی اس سے محبّت کرتے ہیں اور اللہ اس کے ہاتھ سے فتح نصیب فرمائے گا۔‘‘ ہر ایک کی تمنّا اور خواہش تھی کہ جھنڈا اس کے نصیب میں ہو۔ بے قراری، اشتیاق اور دُعائوں میں شب بسر ہوئی۔ صبح نمازِ فجر کے بعد آپﷺ نے عَلم ہاتھ میں لیا، مجمعے پر ایک نظر ڈالی، صحابہؓ دَم بہ خود تھے، خاموش مجمعے کا ہر فرد عالمِ اضطراب میں نام کے اعلان کا منتظر تھا کہ رحمت اللعالمینﷺ کی آوازِ مبارکہ نے سکوت کو توڑا’’ علیؓ کہاں ہیں؟‘‘صحابہؓ نے بتایا’’ یارسول اللہﷺ! وہ آشوبِ چشم میں مبتلا ہیں اور اپنے خیمے میں ہیں۔‘‘ حضورﷺ نے حضرت سلمہ بن اکوعؓ کو حضرت علیؓ کے پاس بھیجا۔ وہ اُنہیں تھام کر اپنے ساتھ لائے۔ سرکارِ دوعالمﷺ نے اپنا لعابِ دہن اُن کی آنکھوں میں لگایا اور دُعا فرمائی، جس سے تکلیف فوراً جاتی رہی۔ رسالتِ مابﷺ نے عَلم اُن کے ہاتھ میں دے کر ہدایات فرمائیں۔ سیّدنا علی المرتضیٰؓ ایک ہاتھ میں برہنہ شمشیر اور دوسرے ہاتھ میں عَلم لیے آگے بڑھے۔ یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی، جس کے جواب میں’’ القموص‘‘ قلعے کا مالک، یہودیوں کا سب سے بڑا سورما ’’مرحب‘‘ سَر سے پائوں تک لوہے کے لباس میں غرق، سامانِ حرب سجائے بڑی رعونت اور غرور سے یہ رجزیہ اشعار ’’خیبر مجھے جانتا ہے کہ مَیں مرحب ہوں۔ میں مسلّح پوش، بہادر اور جنگ آزمودہ ہوں، جب کہ لڑائی کی آگ بھڑکتی ہے‘‘ پڑھتا ہوا میدانِ جنگ میں آیا۔ سیّدنا علی المرتضیٰؓ نے اس کے جواب میں پڑھا ’’مَیں وہ ہوں، جس کا نام ماں نے حیدر رکھا۔ جنگل کے شیر کی طرح خطرناک۔ مَیں دشمنوں کو نہایت سرعت کے ساتھ قتل کر دیتا ہوں‘‘ (بخاری)۔ اس کے ساتھ ہی خیبر کی خاموش وادی میں دونوں کی تلواروں کی جھنکار کے سوا کوئی اور آواز نہ تھی۔ ابھی مقابلہ شروع ہی ہوا تھا کہ اچانک خیبر کی فضائوں نے ایک عجیب، ناقابلِ یقین منظر دیکھا کہ علی المرتضیٰؓ کا ایک کاری وار، مرحب کی’’ آہنی خود‘‘ کاٹ کر اُس کے سَر کے دو ٹکڑے کر گیا۔ یوں آپ کے کئی خُوب صورت القابات میں ’’فاتحِ خیبر‘‘ کے لقب کا بھی اضافہ ہو گیا۔

پیدائش، نام و نسب

سیّدنا علی المرتضیٰؓ بعثتِ نبویؐ سے دَس برس قبل13رجب، بروز جمعہ، حرمِ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ والد اور والدہ، دونوں جانب سے ہاشمی تھے۔ آپؓ کے والد، ابو طالب، رسول اللہﷺ کے حقیقی چچا تھے اور والدہ کا نام، فاطمہؓ بنتِ اسد تھا۔ والدہ نے آپؓ کا نام اسد اور والد نے علی رکھا، جب کہ رسول اللہﷺ نے آپؓ کی کُنیت ابوالحسن اور ابو تراب رکھی۔ آپؓ کی والدہ، حضرت فاطمہؓ پہلی ہاشمی خاتون تھیں، جو مشرف بہ اسلام ہوئیں اور ہجرت کی۔ جب آپؓ کی والدہ کی وفات ہوئی، تو حضورﷺ نے اُن کی تدفین کے انتظامات فرمائے۔ اپنی قمیص کفن میں شامل کی اور خود قبر میں اُترے۔ سیّدنا علی المرتضیٰؓ نے حضور نبی کریمﷺ کی آغوشِ محبّت میں پرورش پائی۔ رسول اللہﷺ نے اپنی چہیتی صاحب زادی، سیّدہ فاطمۃ الزہراؓکا نکاح آپؓ سے کیا۔ جنّت کے نوجوانوں کے سردار، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ آپؓ کے فرزند ہیں۔آپؓ بچّوں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ آپؓ کا شجرہ نسب یوں ہے، علیؓ بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہر بن مالک بن نظر بن کنانہ۔

کاتبِ وحی

آنحضرتﷺ نے آپؓ کو کاتبِ وحی کے منصب پر فائز کیا اور سب سے پہلے سیّدنا علیؓ ہی نے تمام تحریر شدہ آیاتِ مبارکہ جمع کر کے رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کیں۔ آپؓ حافظِ قران تھے۔ حضرت ابو عبدالرحمٰن اسلمیؓ فرماتے ہیں کہ’’ مَیں نے حضرت علیؓ سے بڑھ کر کوئی قاری نہیں دیکھا۔ آپؓ کی قرأت سُننے والوں کو مدہوش کر دیا کرتی تھی۔ آپؓ’’ باب مدینۃ العلم‘‘ بھی کہلائے۔

رسول اللہﷺ کے امین

ہجرتِ مدینہ کے موقعے پر جب کفّار کے خوں خوار سرداروں نے سرکارِ دوعالمﷺ کی شہادت کے لیے آپؐ کے مکان کا گھیرائو کیا ہوا تھا، تو آنحضرتﷺ نے آپؓ کو اپنا امین اور نائب مقرّر فرما کر بسترِ اطہر پر لیٹ جانے کی تلقین فرمائی۔ بہادر، نڈر، بے خوف، حیدرِ کرارؓ، مشرک سرداروں کی خون آشام تلواروں کے سائے میں نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ حضورﷺ کی چادر مبارک اوڑھ کر محوِ استراحت ہو گئے۔ صبح جب مشرک سردار گھر میں داخل ہوئے اور حضورﷺ کی جگہ سیّدنا علی المرتضیٰؓ کو بسترِ اقدس پر دیکھا، تو غم و غصّے سے پاگل ہو گئے اور اپنے سَروں کو پِیٹتے ہوئے رسالتِ مابﷺ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔

غزوات میں شرکت

سیّدنا علی المرتضیٰؓ نے آنحضرتﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی، سوائے غزوۂ تبوک کے۔ غزوۂ تبوک کے موقعے پر آپﷺ نے سیّدنا علیؓ کو مدینہ منورہ میں اپنا جان نشین مقرّر فرما دیا تھا اور اسی موقعے پر اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا’’اے علیؓ! کیا تم اس مقام پر راضی ہو کہ تمہارا مرتبہ میرے نزدیک ایسا ہو، جیسا حضرت ہارونؑ کا حضرت موسیٰؑ کے نزدیک تھا۔‘‘حضرت علیؓ کے جنگی کارنامے دیکھ کر ماہرینِ حرب و ضرب انگشت بدنداں ہیں۔ اسلامی تاریخ کے لاکھوں صفحات اُن کی شجاعت اور بہادری کے کارناموں سے بَھرے پڑے ہیں۔ غزوۂ اُحد میں آپؓ کے جسم پر16زخم آئے۔ غزوۂ خندق میں آپؓ نے کفّارِ مکّہ کے نام وَر سردار، عمرو بن عبدو کو جہنّم رسید کیا، جو ہزار جنگ جوئوں پر بھی بھاری تھا۔ صلح حدیبیہ کا تاریخی معاہدہ سیّدنا علی المرتضیٰؓ ہی نے تحریر کیا تھا۔

منصبِ خلافت

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد پانچ دن تک مدینے پر باغیوں کا قبضہ رہا۔ ڈر تھا کہ باغی اپنے میںسے کسی کو خلیفہ نام زد نہ کر دیں، تو صحابہؓ نے سیّدنا علی المرتضیٰؓ سے رابطہ کیا۔ آپؓ نے تر آنکھوں کے ساتھ فرمایا’’ مَیں اس وقت شدید غم میں ہوں۔ میرے بھائی، عثمانؓ کی لاش بے گور و کفن ہے، مَیں کس طرح اُن کی جگہ خلافت کا منصب سنبھال سکتا ہوں۔ مجھے اس کی حاجت ہے اور نہ خواہش۔ تم جس کو چاہو، خلیفہ بنا لو۔‘‘بعدازاں، صحابہ کرامؓ کے بے حد اصرار پر آپؓ نے خلافت کی ذمّے داری سنبھالی، حالاں کہ آپؓ بہ خُوبی جانتے تھے کہ خلافت کا بار کوئی آسان کام نہیں، بلکہ کانٹوں کی سیج ہے۔سیّدنا علی المرتضیٰؓ کا دورِ خلافت ساڑھے پانچ سال پر محیط تھا اور آپؓ 22لاکھ مربع میل پر پھیلے خطّے کے حکم ران تھے۔ حضرت علیؓ کی دلی خواہش تھی کہ مسلمانوں میں محبّت و اخوت کا وہی سنہرا دَور لَوٹ آئے، جو رسول اکرمﷺ، حضرت صدیقِ اکبرؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ کے زمانے میں تھا۔ آپؓ خلافت کو اپنے سے پہلے کے خلفاء کی مشابہت، مطابقت اور انداز کے مطابق چلانے کے خواہش مند تھے، لیکن اندرونی اور بیرونی سازشیں زور پکڑتی رہیں۔ اس کے ساتھ ہی قصاصِ عثمانؓ کا مطالبہ بھی شدّت اختیار کرتا چلا گیا، یہاں تک نوبت جنگوں تک جا پہنچی۔

خلافتِ راشدہ کا درخشاں باب اختتام کو پہنچا

19رمضان المبارک کی صبح سیّدنا علی المرتضیٰؓ فجر کی نماز کے لیے مسجد میں داخل ہی ہوئے تھے کہ ایک خارجی، عبدالرحمٰن بن ملجم نے زہر میں بجھی تلوار سے آپؓ کی پیشانی پر وار کیا، جو سَر کاٹتی ہوئی دماغ تک پہنچ گئی۔ اس بدبخت قاتل کو لوگوں نے پکڑ کر آپؓ کی خدمت میں پیش کیا، تو آپؓ نے حسنین کریمینؓ سے فرمایا’’ اسے لے جائو، اسے اچھا کھانا کھلائو، نرم بستر دو، اگر مَیں اس زخم سے مر جائوں، تو تم بھی اسے قتل کر دینا، اگر مَیں زندہ رہا، تو خود فیصلہ کروں گا۔‘‘ پھر بنو مطلب کو وصیت کی کہ’’ میرے قتل کو مسلمانوں میں خون ریزی کی وجہ نہ بنانا، صرف ایک ہی شخص سے بدلہ لینا، اس کا مثلہ نہ کرنا، رسول اللہﷺ نے لاش مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ دو دن بعد21رمضان المبارک صبح فجر کے وقت آپؓ شہادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو کر حیاتِ جاودانی کے حق دار ٹھہرے اور یوں خلافتِ راشدہ کا درخشاں باب اپنے اختتام کو پہنچا۔

فضائل و مناقب

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا’’ مَیں علم کا شہر اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں‘‘ (ترمذی، حاکم)۔حضرت اُمّ ِ سلمہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا’’ جس نے علیؓ کو بُرا کہا، اُس نے مجھے بُرا کہا‘‘ (مسندِ احمد)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ علیؓ مجھ سے ہیں اور مَیں علیؓ سے ہوں ‘‘(ترمذی)۔ حضرت سعیدؓ فرماتے ہیں کہ’’ مدینے میں سوائے حضرت علیؓ کے کوئی ایسا نہ تھا، جو یہ کہہ سکے کہ ’’جو کچھ پوچھنا ہے، مجھ سے پوچھو‘‘۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت عُمرؓ نے فرمایا’’ علیؓ ہم سب میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔‘‘ حضرت ابنِ مسعودؓ فرماتے ہیں کہ مدینے میں ہم میں سے سب سے زیادہ معاملہ فہم حضرت علیؓ تھے۔

حضرت علیؓ کے اقوال

٭ زندگی کے ہر موڑ پر صلح کرنا سیکھو، کیوں کہ جُھکتا وہی ہے، جس میں جان ہوتی ہے، اَکڑنا تو مُردے کی پہچان ہے۔٭ دوست یا پرندہ، دونوں کو آزاد چھوڑ دو۔ اگر لَوٹ آیا تو تمہارا اور اگر لَوٹ کے نہ آیا، تو سمجھو کبھی تمہارا تھا ہی نہیں۔ ٭جو مصیبت تجھے اللہ کی طرف لے جائے، وہ آزمائش ہے اور جو مصیبت تجھے اللہ سے دُور کر دے، وہ سزا ہے۔٭ کسی کا عیب تلاش کرنے والے کی مثال اُس مکھی جیسی ہے، جو سارا خُوب صورت جسم چھوڑ کر صرف زخم پر بیٹھتی ہے۔ ٭اچھے لوگوں کی خُوبی یہ ہے کہ اُنہیں یاد نہیں رکھنا پڑتا، وہ یاد ہی رہتے ہیں۔٭ رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں۔ اگر احساس ہو تو اجنبی بھی اپنے ہو جاتے ہیں اور اگر احساس نہ ہو، تو اپنے بھی اجنبی ہو جاتے ہیں۔ ٭کوئی تمہارا دِل دُکھائے تو ناراض نہ ہو، کیوں کہ قدرت کا قانون ہے کہ جس درخت کا پھل زیادہ میٹھا ہوتا ہے، لوگ پتھر بھی اُسی کو مارتے ہیں۔٭ رزق کے پیچھے اپنے ایمان کو خراب نہ کرو۔ رزق انسان کو ایسے تلاش کرتا ہے، جیسے مرنے والے کو موت۔٭ لفظ انسان کے غلام ہوتے ہیں، لیکن صرف بولنے سے پہلے تک۔ بولنے کے بعد انسان اپنے لفظوں کا غلام بن جاتا ہے۔ ٭دوست سے سمجھ کر دوستی کرو، ہو سکتا ہے کہ کسی دن وہ تمہارا دشمن بن جائے اور دشمن سے سنبھل کر دشمنی کرو، ہو سکتا ہے کہ کل کو وہ تمہارا دوست بن جائے۔ ٭تین چیزیں ایمان کو تباہ کر دیتی ہیں (1)امیروں کی محفل (2)عورتوں کی صحبت (3)جاہلوں سے بحث۔٭ کسی کی مدد کرتے وقت اُس کے چہرے کی طرف مت دیکھو۔ ہو سکتا ہے کہ اُس کی شرمندہ آنکھیں تمہارے دِل میں غرور کا بیج بو دیں۔٭ دو چیزیں انسان کو ہلاک کر دیتی ہیں۔ ایک تو اتنی محبّت کہ محبوب میں وہ باتیں نظر آنے لگیں، جو اس میں نہ ہوں۔ دوسرے اس درجے کا بغض کہ بُرا کہتے کہتے تہمت لگا دے۔٭ اپنے جسم کو ضرورت سے زیادہ مت سنوارو۔ اسے تو مٹّی میں مل جانا ہے۔ سنوارنا ہے تو اپنی روح کو سنوارو، کیوں کہ اسے اپنے ربّ کے پاس لَوٹ کر جانا ہے۔٭ مومن کی مثال ترازو کے پلڑے جیسی ہے، جس قدر اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، اُتنی اس کی آزمائش ہوتی ہے۔٭ جانور میں خواہش اور فرشتے میں عقل ہوتی ہے، مگر انسان میں دونوں چیزیں ہیں۔ اگر وہ عقل دبا لے، تو جانور اور اگر خواہش دبا لے تو فرشتے کی مانند ہو جاتا ہے۔٭ جب تمہاری جان کو خطرہ ہو، تو صدقہ دے کر جان بچائو اور اگر تمہارے دین کو خدشہ ہو، تو جان دے کر دین کو بچائو۔٭ جو دن تمہارے حق میں ہو، اس دن پر غرور نہ کرنا اور جو دن تمہارے مخالف ہو، اس دن صبر کرنا۔

تازہ ترین