• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’دائیں بازو کی نظریاتی ناکامی‘ پر میرا کالم چھپنے کے بعد کچھ دوستوں کی فرمائش ہے کہ میں بائیں بازو کی ناکامیوں پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ میں وقتاً فوقتاً اس موضوع پر لکھتا رہا ہوں لیکن اس کالم میں بائیں بازو کی فکری اور سیاسی کمزوریوں اور ناکامیوں کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی زیر بحث لایا جائے گا کہ پورے برصغیر میں مختلف اصلاحی تحریکیں کس وجہ سے ناکام ہوئیں۔بدھ مت سے لے کر سکھ مت تک ہر تحریک تھوڑی سی کامیابی کے بعد پرانے فکری ڈھانچے میں ڈھل گئی اور ہندو مت کے رسم و رواج غالب آگئے۔

سب سے پہلے تو بائیں بازو کی تحریک کو لیجئے جس کی موجودہ پاکستان بالخصوص پنجاب میں کبھی بھی جڑیں گہری نہیں تھیں۔ہ تحریک ساٹھ کی دہائی سے لے کر ستر کی دہائی کے وسط تک عوام کے ایک حصے کو متاثر کر کے ختم ہو گئی۔ پاکستان کے سب سے ترقی یافتہ، خوشحال اور آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبے پنجاب میں بائیں بازو کی تحریک کے سکھ اور ہندو روح رواں تھے جو تقسیم کے بعد ہندوستان میں منتقل ہو گئے۔ ان علاقوں میں مسلمان کسانوں، نچلے طبقے کے مزدوروں اور دستکاروںپر مشتمل تھے۔ مسلمانوں کا درمیانہ طبقہ انتہائی محدود تھا اور اس میں بھی فکری سطح پر مذہب کے احیا کی تحریکیں غالب تھیں۔ اس علاقے کے ترقی پسندوں نے شاعری اور ادب کی حد تک توبائیں بازو کے افکار کو متعارف کروایا لیکن نظریاتی پہلو سے ایسا فکری نظام نہیں دیا جو معاشرے کے مختلف شعبوں میں متبادل نظام کو قابل عمل بنانے میں مددگار ہو۔ اس کے برعکس مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلامی نظام کا مکمل ضابطہ حیات پیش کیا ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ بھی بوجوہ کامیاب نہ ہو سکے لیکن بائیں بازو نے تو سرے سے یہ کام کیا ہی نہیں۔ بایاں بازو درآمد شدہ مواد پر ہی مکمل انحصار کرتا رہا جس کا ثبوت یہ ہے کہ پچھلے سو سالوں میں چند کتابوں اور پمفلٹوں کے علاوہ کچھ موجود نہیں ہے۔

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ تقسیم کے بعدپاکستان کے محدود درمیانے طبقے میں فکری بلوغت ناپید تھی اور بائیں بازو کے ترقی یافتہ افکار کا احاطہ کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بیس سال بعد پڑھے لکھے لوگوں کا ایک نیا گروہ پیدا ہوا جس نے مختصر عرصے کے لئے بائیں بازو کے نظریات کی ترویج کا بیڑا اٹھایا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ مزدور کسان پارٹی جیسی تنظیموں کو جنم دیا۔مختصر عرصے کے لئے فکری حلقوں سے لے کر مزدوروں تک ترقی پسند خیالات غالب رہے لیکن تاریخ کے وسیع تر تناظر میں اس طرح کے نظریات کا جنم ایسے ہی تھا جیسے بارشوں کے موسم میں خود بخود مش روم (mushroom)اگ آتے ہیں۔ ایک تو ان نظریات کی جڑیں اتنی گہری نہیں تھیں کہ وہ تناور درخت بن سکیں اور دوسرے خاموش معاشی انقلاب نے ان نظریات کو لا یعنی بنا دیا۔روس ، چین اور ویت نام جیسے سوشلسٹ ملک بھی سرمایہ داری نظام کے اداروں کو قائم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ لہٰذا پاکستان میں تو بائیں بازو کی چھوٹے سے عرصہ کے لئے چلنے والی تحریک کی ناکامی کو بیان کرنا تو کوئی خاص مشکل نہیں ہے لیکن بر صغیر میں صدیوں سے اٹھنے والی اصلاحی تحریکوں کی ناکامی ایک اہم موضوع ہے۔

بر صغیر میں بدھ مت سے لے کر سکھ مت تک کی تحریکیں مختصر کامیابی کے بعد صرف چند رسم و رواج تک محدود ہو گئیں۔ بدھ مت کو ہی لیجئے جو کہ ایک زمانے میں پنجاب سے لے کر افغانستان تک اپنی نظریاتی حدیں وسیع کر چکا تھا۔ لیکن تاریخی شہادت یہ ہے کہ کچھ عرصے کے بعد ہندومت نے دوبارہ غلبہ حاصل کر لیا اور بدھ مت چند عجائب گھروں تک محدود ہو گیا۔ جین مت اور مختلف دوسری تحریکوں کا بھی یہی انجام ہوا۔ برصغیر میں سب سے آخر میں سکھ مت کی تحریک ابھری جس میں ذات پات، جنسی اور طبقاتی نظام کی اصلاح کا پرچار کیا گیا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً دو صدیوں کے بعد جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی شکل میں اس تحریک نے ایک علاقے میں حکومت قائم کر لی تو ہندومت کے بنیادی اعتقادات نے دوبارہ غلبہ حاصل کرنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ ستی کی رسم تک کو دوبارہ زندہ کر لیاگیا: مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ سات عورتیں ستی ہوئی تھیں۔ سکھ گوردواروں پر ہندو مہنتوں کا اس حد تک قبضہ ہو گیا کہ نچلے طبقے کے سکھوں کو گوردوارے میں داخل ہونے سے روک دیاگیا جس کے خلاف سنگھ سبھاؤں کی تحریکوں نے جنم لیا۔ ذات پات اس حد تک سکھوں میں غالب آگئی کہ بقول ہمارے ایک دوست کے جٹ سکھ تو گوروں کو بھی کمتر سمجھتے ہیں کیونکہ ان میں سے کوئی بھی جٹ نہیں تھا۔ اب سکھ مت بھی جسم کے مختلف حصوں کے بال بڑھانے تک محدود ہو کر رہ گیا۔ سوال یہ ہے کہ برصغیر میں ہر اصلاحی تحریک کیوں ناکام ہوئی اور ہندو مت کے رسم و رواج نے کیوں غلبہ حاصل کر لیا؟ اس کا سطحی جواب تو ہندوئوں کی شاطرانہ چالوں میں ڈھونڈا جاتا ہے لیکن اس طرح سے تاریخ کی تفسیر کرنا صرف مذہبی تعصب کا اظہار ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ پچھلے تین ہزار سالوں میں برصغیر کے پیداواری نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ پورے علاقے میں نوے فیصد سے زیادہ آبادی خود کفیل دیہات میں رہائش پذیر رہی اور چھوٹے چھوٹے شہر ان کی وافر پیداوار پر پلتے رہے۔ اس سارے دور میں نہ صرف دیہات خود کفیل تھے بلکہ ان کے اندر خاندانی اکائیاں بھی اپنی ضرورت کی ہر جنس خود اگاتی تھیں اور باقیماندہ ضرورت کی اشیاء مقامی دستکار مہیا کرتے تھے۔ ساٹھ کی دہائی تک صرف نمک ،مٹی کا تیل اور دوسری چند اشیاء باہر سے منگوائی جاتی تھیں۔ اس نظام پیداوار نے جس طرح کے نظریات کو جنم دیا تھا وہ ہندومت کی شکل میں سامنے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے مذہب تبدیل کرنے کے باوجود ان کے بنیادی اعتقادات میں تبدیلی نہیں آتی تھی یعنی وہ قدیم ہندومت کے ارد گرد گھومتے رہتے تھے۔ برصغیر کے مختلف مذاہب کے لوگوں کے بنیادی عقائد ایک ہی جیسے تھے اور اسی وجہ سے مذہبی برداشت بھی زیادہ تھی جو اب ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔

پچھلے چالیس سالوں میں نظام پیداوار میں بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں۔مشین کے استعمال اور منڈی کے نظام کے ورود کی وجہ سے خود کفیل دیہات کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے ۔اب ضرورت کی ہرچیز مقامی طور پر پیدا ہونے کی بجائے منڈی کے نظام کے حوالے سے میسر آتی ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ میرے گاؤں میں ساگ بھی شہر سے منگوایا جاتا ہے۔ نئے نظام پیداوار نے تین ہزار سال سے قائم نظریاتی ڈھانچے کا خاتمہ کردیا ہے جس سے ایک خلا پیدا ہوا ہے جسے پر کرنے کے لئے مختلف نظریات کے درمیان کشمکش جاری ہے۔ وقتی طور پر قدیم نظریات میں ترمیم کے ساتھ نیا ڈھانچہ تعمیر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا بدیہی اظہار ہندوتوا کے غلبے اور تحریک لبیک جیسی تحریکوں میں نظر آتا ہے۔ لیکن یہ سارا کچھ وقتی رد عمل ہے جو زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتا۔آخرش بر صغیر میں بھی صنعتی ممالک جیسا نظریاتی ڈھانچہ قائم ہو جائے گا۔ ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ اصلاحی تحریکیں اس لئے ناکام ہوئیں کہ بنیادی پیداواری ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوا تھا۔ اب جب پیداواری نظام تبدیل ہو چکا ہے تو پرانے نظریات کا احیا سعی لا حاصل ہے کیونکہ یہ نیا نظام نئے نظریات کو سامنے لائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین