’’تمہیں پتہ ہے کہ یہ کس کی شاعری ہے؟‘‘کئی دن ہوئے میرے دوست نے پوچھا تھا۔
اس نے مجھے بتایا تھا کہ کیا کمال کی شاعری ہے جو پہلی بار اس نے اپنے گائوں اوکاڑہ میں اپنی گلی میں جاتے کسی بچے کی آواز میں سنی تھی۔ پھر اس دن میرا دوست بہت دُکھی تھا جب قلندر لال شہباز قلندر کی درگاہ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ اس وقت جب عشا کی نماز کے بعد درگاہ کے آنگن میں دھمال ہو رہی تھی۔
’’طلوع سحر ہے شام قلندر‘‘
کچھ دن کشت و خون میں لتھڑی لاشوں کو اٹھاتے گزرے اور پھر وہی دھمالیں تھیں اور رقص درویشاں۔ ہماری شیما کرمانی بھی کئی اپنے ساتھیوں عورتوں مردوں بچوں بچیوں شاگردوں کے ساتھ وہاں پہنچی تھیں:
’’چار چراغ تیرے بلن ہمیشہ
پنجواں بالن آئی آں میں جھولے لالن‘‘۔
پھر وہی دھمالیں جن کے نقاروں اور نوبتوں میں دھماکوں کی دہشت ماند پڑ گئی۔ قلندر اور اس کے دیوانے ہر شام طلوع ہو رہے تھے اور دہشت اور نفرت پھیلانے والے روبہ زوال۔ لیکن ان پڑھ باشعور عورتوں نے سیہون میں دھمال کیا ڈالی۔
پھر دو رات قبل میرے دوست نے مجھ سے کہا اس نے کراچی کے پوش علاقے میں اپنےپڑوس میں ایک گھر سے کہیں فنکشن سے آدھی رات گئے ہوتی قوالی میں سے یہ منقبت پھر سنی ہے۔’’اٹھو رندو پیو جام قلندر‘‘۔ میں نے اس لازوال عارفانہ شاعری کو نہ جانے عظیم، چھوٹے بڑے، انتہائی مشہور انتہائی گمنام گائیکوں، قوالوں، فنکاروں، شوقیہ فنکاروں، سب سے بڑی بات ملنگوں، فقیر فقرانےکئی بار سنا ہےاور آپ نے بھی سنی ہوگی۔ میڈم نورجہاں سے لے کر عابدہ پروین، اوکاڑہ کے اس بچے جس کو میرے دوست نے سنا، سے لے کر فنا فی اللہ گروپ کے ان قوالوں کی آوازوں میں۔ لیکن آخر اس لافانی و لاثانی شاعری کا اصل خالق کون ہے؟ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا میری جان!
عزیزوذرا توجہ! ’’طلوع سحر ہے شام قلندر‘‘۔ واقعی اپنی شام کو طلوع سحر میں صرف قلندر ہی بدل سکتے ہیں۔ اور قلندر کا فقیر لیکن خود اپنی طبع فقیری میں بھی قلندر یہ شخص اور فنکار اس شاعری کا خالق اور کون ہو سکتا تھا سوائے سینگار علی سلیم کے؟ مجھے میرے دوست نے کیا کیا یاد دلادیا۔ مجھے سینگارعلی سلیم بہت یاد آیا۔ اس پر زخم پھر تازہ ہو گیا کہ اس گمنام شاعر اور فنکار سے کتنی زیادتی ہوئی کہ برصغیر کے کتنے بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے فنکاروں گائیکوں،استادوں، قوالوں، استاد نصرت فتح علی خان سے لے کر امجد صابری تک نے گایا لیکن کسی نے بھی اس لافانی شاعری کے خالق کو کریڈٹ نہیں دیا۔ بالکل ایسے جیسے میرے ایک اور پیارے دوست میر کاظم تالپور کی شاہکار غزل ’’شام جو ہی پہر ناں اسانجے کیو‘‘ (شام کا یہ پہر نام ہمارے کرو) سندھی اور اردو فنکاروں نے، اور کئی فلمی نقالوں نے تو بغیر شاعر کی اجازت کے بگاڑ بگاڑ کر گایا لیکن بہت کم ہونگے جنہوں نے میر کاظم تالپور کو اسکا کریڈٹ دیا ہوگا۔ ‘‘ میر کاظم کی اس شاہکار غزل کا اصل اور ابتدائی گانے والا فنکار برکت علی بھٹ تھا۔ میر کاظم بھی قلندری قافلے کا مسافر ہے اور اسکی غزل کے گانے والے فنکار برکت علی بھٹ کا تعلق بھی سکھر سے ہے۔جی ہاں سکھر آج کتنا ویران سہی لیکن وہ شہر سینگار علی سلیم کے بغیر ادھورا رہے گا۔ غم ہو یا خوشی۔
سینگار علی سلیم کا تعلق اسی سکھر کے غریب علاقے (اب تو تمام شہر ہی غریب ہے بس امیر ہیں تو سید خورشید شاہ اور اسلام الدین شیخ اینڈ کمپنیز) ٹکر محلے سے تھا۔ سینگار علی سلیم، فنکار، شاعر، موسیقار، خطاط۔ سندھی، پنجابی، سرائیکی، اردو کا تو قادرالکلام شاعر، موسیقار، گائیک و نوحہ گر تو تھا ہی تھا لیکن اپنی مادری زبان مارواڑی کا بھی۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میں اس قلندر صفت درویش انسان و فنکار سے اپنے ہی غریب خانے پر کراچی میں ملا تھا جب میرا دوست موسیقار شاہد بھٹو اسے مجھ سے ملوانے لایا تھا۔ جب اس نے مجھے اپنی زندگی کی عجیب و غریب حسین و حزین کہانی سنائی تھی۔ وہ فی البدیہہ شاعری کرسکتا تھا، گا سکتا تھا۔ کمپوز کرسکتا تھا بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ اپنے ارد گرد کے سیاسی حالات سے باخبر رہنے والا عوامی شاعر بھی تھا۔
برصغیر کے بٹوارے کے وقت سینگار علی سلیم کا خاندان راجستھان سے نقل مکانی کر کے سکھر میں آباد ہوا تھا۔ سینگار علی سلیم نے اپنا بچپن اور جوانی سکھر میںگانا سکھاتے گزاری اور اسےوہاں ایک پیر و استادکی حیثیت حاصل تھی۔ سینگار علی سلیم ریڈیو پاکستان کے ایک معروف ترین فنکار تھے۔ لیکن اس کے علاوہ اس خرقہ پوش کی پہچان خانقاہی تھی۔ بڑی درگاہوں سے گمنام درباروں تک اپنے کلام کا جادو جگاتا جسے وہ ڈیوٹی دیناکہتا تھا۔ انہی درگاہوں سے سلیم علی سینگار کی اٹھان ہوئی۔ لیکن ’’اٹھو رندو پیو جام قلندر ‘‘ ایک ایسا کلام ہے جو کلفٹن ڈیفنس کے گھروں میں ہونیوالی قوالیوں، شب غزل،پر پیچ راستوں، پیدل قلندری قافلوں اور ہالی ووڈ اور لالی ووڈ تک گایایا سنا جا سکتا ہے۔ جب تک شہباز قلندر کی درگاہ پر چار چراغ روشن رہیں گے یہ کلام بھی بجتا رہے گا دھمالوں کے ساتھ لیکن دور سندھو دریا کے دوسرے کنارے سکھر پار اس انتہائی معروف لیکن فقیر فنکار کے خاندان والے اس کی شاعری اور گیت گاتے کسمپرسی کے دن گزار رہے ہیں۔ جس نے گایا تھا۔
تیرے درد فراق میں ماہ لقا
نہ ہی غم جائے نہ ہی دم جائے