وکالت ایک مقدس پیشہ ہے اور اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو آپ کو کئی بڑے نام اس پیشے سے وابستہ نظر آئیں گے۔ انہی ناموں میں ایک نام قائداعظم محمد علی جناح ؒکا بھی ہے، جنھوں نے نہ صرف اس پیشے میں نئی راہیں متعین کیں بلکہ سوچنے اور سمجھنے کے مختلف زاویوں سے اہلِ علم کو روشناس کرایا۔ اگرآپ قانون کی تعلیم حاصل کررہے ہیں تو آپ نے نصابِ قانون میں قائداعظم کے تاریخی واقعات ضرور پڑھے ہوں گے لیکن وہ طلبہ جو قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور کسی لاء کالج میں داخلہ لے کر بحیثیت قانون دان اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں تو انہیں ضرو ر محترم قائد اعظم محمد علی جناح کے اخلاقی ضابطوں اور رہنما اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، جس کی وجہ سے قائداعظم تاریخ کی ایک مشہور شخصیت اور قانون کی دنیا کے لافانی کردار کے طورپر سامنے آتے ہیں۔
قائداعظم وکالت کے پیشے میںغیر معمولی ذہانت کے ساتھ ساتھ صبر و تحمل سے کام لیتے تھے۔ نئے مقام اور ناتجربہ کار ی کے باجود اوائل عمری میں بحیثیت پریذیڈنسی مجسٹریٹ ان کا تقرر ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ عارضی طور پر جب قائد اعظم کا پریذیڈنسی مجسٹریٹ کی حیثیت سے تقرر ہوا تو اس منصب پران کی پندرہ سو روپے ماہانہ تنخواہ مقرر کی گئی تھی۔ قائد اعظم نے اپنی پوری ذمہ داری سے تھوڑے ہی عرصے میں جو خدمات انجام دیں، حکام ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس عارضی ملازمت کی مدت ختم ہو تے ہی محمد علی جناح سے اصرار کیا گیا کہ وہ بدستور اس منصب پر ذمہ داریاں نبھاتے رہیں مگر انہوں نے یہ پیش کش مسترد کرتے ہوئے بڑےاعتماد سےجواب دیا،’’جناح پندرہ سوروپے ماہانہ نہیں ، روز کمانا چاہتا ہے‘‘۔ اس جملےنے سب کو حیرت میں ڈال دیا لیکن تاریخ نے دیکھا کہ قائد اعظم نے بحیثیت وکیل ہزاروں روپے روزانہ کے حساب سے کمائے۔
قائد اعظم محمد علی جناح پیشہ ورانہ اخلاق پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے زندگی کے کسی بھی موڑ پر پیشہ وارانہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ان کی چیمبر پر یکٹس کےلئے فیس فی گھنٹہ کے حساب سے ہوتی تھی اور موکل اندازے سے فیس ادا کردیتے تھے۔ بارہا ایسا ہوا کہ اگر موکل کا اندازہ ا ن کی مصروفیت کے اصل وقت سے زیادہ ہوگیا اور اس نے زائد رقم ادا کردی تو قائد اعظم اضافی رقم واپس کردیتے تھے، مثلاً موکل نے چیمبر میں قائد اعظم کو5گھنٹے مصروف دیکھ کر فیس کی ادائیگی کی اور قائداعظم نے اس موکل کا کام صرف ایک گھنٹے میں مکمل کیا تھا تو وہ بقیہ چار گھنٹے کی فیس واپس لوٹا دیتےتھے۔
اسی طرح کا ذکر ہے کہ بھوپال میں قائداعظم ایک مقدمے کے سلسلے میں تشریف لے گئے۔ ا س مقدمے میں الٰہ آباد ہائیکورٹ کے بیرسٹر سید محمد حسین جونیئروکیل کی حیثیت سے ان کے ساتھ تھے۔ پہلی سماعت کے روز قائد اعظم کو کسی وجہ سے تاخیر ہوگئی، چونکہ سماعت شروع ہوچکی تھی اس لیے ا ن کی غیر موجودگی میں جونیئر وکیل نے کارروائی کا آغاز کردیا۔ قائد اعظم جب پہنچے تو جونیئر وکیل نے پیچھے ہٹ کر ان سے استدعا کی کہ وہ بحث کا سلسلہ شروع کردیں ۔ قائد اعظم نے فوراً یہ کہہ کر جونیئر وکیل کو کارروائی جاری رکھنے کی ہدایت کی، ’’برادر وکیل نے مقدمے کا آغاز کردیا ہے لہٰذا درمیان میں سلسلہ بحث سنبھالنا پیشہ وکالت کے ضابطہ اخلاق کے خلاف ہے‘‘۔ پھر اس بحث کے اختتام پر قائد نے کہا،’’ میں محض جونیئر کی طرح اپنے ساتھی کی مدد کرنا پیشے کی شان سمجھتا ہوں ‘‘۔ اس مقدمے میںقائد اعظم نےوکیل اوّل کی حیثیت سے جوفیس وصول کی تھی، وہ بھی اس کلائنٹ کو واپس کر دی۔
ان کی زندگی کا کوئی شعبہ اصولوں سے مبرا نہ تھا۔ خود داری اورشرافت ان کے اندر بدرجہ اتم موجود تھی۔ کلائنٹس سے معاملات اور پیشے کا وقار ان کے پیش نظر رہتا تھا۔ کمرہ عدالت میں بھی وہ اصولوں، پیشے کے احترام و وقار، خودداری اور عزت ِنفس کو ہر قیمت پر ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ کئی بار نازک مواقع آئے مگر وہ ہمیشہ احترامِ پیشہ اورعزت ِ نفس اوراپنے اصولوں پر ڈٹے رہے، چاہے انہیں کتنے ہی سنگین نتائج کیوں نہ بھگتے پڑتے۔
ایک بار ایسا ہی ایک نازک موقع ہائیکورٹ میں کسی مقدمے کی پیروی کے دوران آیا، جب قائد اعظم کےاندازِ خطابت میں لہجہ سخت ہوگیا۔ یہ بات جج صاحب کوناگوار گزری، انہوں نے اسی وقت قائد اعظم کو تنبیہہ کی، ’’مسٹر جناح، آپ اس وقت عدالت میں کسی تیسرے درجے کے جج سے مخاطب نہیں ہیں‘‘۔ قائد اعظم نےاس پر تاریخی جواب دیا، ’’جناب، آپ کے سامنے بھی کوئی تیسرے درجے کا وکیل خطاب نہیں کررہا ہے‘‘۔
قائد اعظم کی زندگی پیشہ ورانہ ہو یا قائدانہ، ان کی شخصیت کے ہر پہلو سے ایک نستعلیق، انصاف پسند اور وضع دار کردار جھلکتاہے۔ ہمارے ملک کے قانون دان بھی قائد اعظم کے نقش قدم پر چل کر ایک بہتر نظام قانون کو رائج کرنے کی کوشش کریں تویہ ملک و قوم کی فلاح کیلئے قابل قدر پیش رفت ہوگی۔