• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انکار کا مطلب صرف ہٹ دھرمی نہیں ہے۔ اپنی بات پر اڑے رہنا۔ مثبت اور منفی بات قبول نہ کرنے کو عام طور پر انکار کہا جاتا ہے۔ انکار کرنے والے کو ضدی سمجھا جاتا ہے۔ مگر میرا اشارہ جس انکار کی طرف ہے وہ انکار دوسری نوعیت کا انکار ہے۔ اس انکار کو ہم ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بچپن سے ہمارے ذہن میں کوٹ کوٹ کر بٹھائی ہوئی باتوں کا دفاع ہم انکار سے کرتے ہیں۔ ہم ٹس سے مس ہونا قبول نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم کسی قسم کی کوئی نئی بات سننے اور سمجھنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس نوعیت کا انکار سیکھنے کے عمل کو روک دیتا ہے۔ ہم اس امیدمیں زندگی گزار دیتے ہیں کہ ہم نے آج تک جوسنا ہے، جو سیکھا ہے وہ حرف آخر ہے۔ اس کے بعد ہمیں کچھ دیکھنے ، کچھ نیا اور مختلف سننے کی ضرورت نہیں رہتی۔ فقیر کی مودبانہ گزارش ہے کہ دسمبر انیس سو اکہتر میں پاکستان کے ٹوٹنے اور بنگلہ دیش کے بننے کے اسباب سمجھنے کے لئے آپ تھوڑی دیر کے لئے انکار کر دیجئے کہ سب انسان ایک جیسے پیدا ہوتے ہیں۔ سب انسان ایک جیسے پیدا نہیں ہوتے۔سب لوگ ایک جیسے پیدا نہیں ہوتے ۔ حتیٰ کہ ایک ماں سے جنم لینے والے جڑواں بچے قطعی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ عام طور پر ان کے ناک نقشے ایک دوسرے سے ملتے جلتےہوتے ہیں، مگر اپنے رویوں، عادات اطوار میں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی سوچ مختلف ہوتی ہے۔ ان کی پسند اور ناپسند ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہے۔ اپنے اپنے پیروںپر کھڑے ہوجانے کے بعد وہ دونوں الگ تھلگ ، اپنی مرضی کے مطابق اپنی اپنی زندگی گزارتےہیں۔ اگر ان کی تعلیم وتربیت اچھی ہوتی ہے تو وہ بات کا بتنگڑ نہیں بناتے ۔ چھوٹے موٹے مسائل کو سرپر سوار نہیں کرتے ۔ بجھانے کے بجائے وہ چنگاری کو ہوا نہیں دیتے ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کیساتھ امن وآشتی سے رہنا اور جینا سیکھ لیتے ہیں۔ برداشتTolerenceکو وہ اپنا وتیرہ بنالیتے ہیں۔

برسہا برس مسلمان قیادت کے ساتھ گفت وشنید اور بحث ومباحث کے بعد انگریز نے مسلماناں ہند کے لئے ایک الگ ملک بنانے اور ہندوستان کو تقسیم کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا تھا ۔ تب مسلمانان ہند کی لیڈر شپ آل انڈیا مسلم لیگ کے ہاتھ میں تھی ۔ انگریز بڑا ہی تیز طرار اور باخبررہتا تھا ۔ قدرت نے اسے دور رس بصیرت سے نوازا تھا۔ وہ مستقبل پر نظر رکھتا تھا ۔ وہ ایک مضبوط بر صغیر سے دست بردار ہونا نہیں چاہتا تھا ۔ وہ انتشار میں مبتلا برصغیر دیکھنا چاہتا تھا ۔ انگریز نے جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر برصغیر کو ایسی آزادی سے نوازا جس نے کروڑوں لوگوں سے سکھ چین چھین لیا ۔ کھینچی گئی دیواروں کے درمیاں برصغیر کا عام آدمی آج تک امن امان اور سکھ اور شانتی کے لئے بھٹک رہا ہے۔ ترس رہا ہے۔ انگریز نے برصغیر کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے دوگنجان اور بڑے صوبوں پنجاب اور بنگال کا بٹوارہ کیا۔ پنجاب کا ایک حصہ پاکستان کو اور ایک حصہ ہندوستان کو اور اسی طرح بنگال کا ایک حصہ پاکستان کو اور بنگال کا ایک حصہ ہندوستان کو ملا۔ وہ ایک ایسا بٹوارہ تھا جس نے خون کی ندیاں بہا دی تھیں۔ یہ کہنا یا یہ سمجھنا کہ انگریز اس طرح کے وحشیانہ ردعمل سے بے خبر تھا ، یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔ انگریز نے برصغیر میں مسلمانان ہند کے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ اصولاً قبول تو کرلیا تھا ، مگر اس فیصلے کے در پردہ انگریز کی مخصوص حکمت عملی تھی ۔ وہ تھی کہ بر صغیر میں بے چینی ، اضطراب،انتشار ہر صورت میں، ہرحال میں برقرار رہے۔ بر صغیر کے کروڑوں لوگ کبھی سکھ کا سانس نہ لے سکیں۔

انگریز نے مسلمانان ہند کے لئے دوحصوں پر مشتمل ملک پاکستان بنایا۔ ایک حصہ مشرقی پاکستان اور دوسرا حصہ مغربی پاکستان کہلوانے میں آیا ۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ایک دوسرے سے تقریباً دوہزار میل کی دوری پرتھے۔ یہ دوہزار میل کا فاصلہ بھرپور غصے میں مبتلا ملک ہندوستان سے گزرتا تھا ۔ اس نوعیت کی تھی پاکستان کی حیثیت1947 میں مغربی پاکستان چار صوبوں پر مشتمل تھا ، سندھ، پنجاب، بلوچستان، اور سرحد جسے اب خیبر پختونخوا کہتے ہیں۔ چاروں صوبوں کی زبان مختلف تھی، ان کی تہذیب مختلف تھی، ان کا تمدن مختلف تھا ۔ رسم ورواج ،مختلف تھے۔ روئیے مختلف تھے۔ مزاج مختلف تھے۔ رہن سہن مختلف تھا ۔ اگر شکل وصورت کی بات کی جائے تو وہ بھی مختلف تھی۔ جغرافیائی ماحول انسان کے ظاہر اورباطن پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ پہاڑ اور سخت سردی والے علاقوں کے لوگ اپنے مزاج، رویوں،شکل وصورت اور ڈیل ڈول میں گرم ، چٹیل،ہموار اور ریگستانی علاقوں میں رہنے بسنے والے لوگوں سے قطعی مختلف ہوتے ہیں۔ مغربی پاکستان کے لوگوں میں وہ چاہے کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتے ہوں، ایک بات مشترک تھی۔ وہ اپنی زبانیں، سندھی ، پشتو، پنجابی ، بلوچی اور برا ہوی دائیں سے بائیں طرف لکھتے تھے،مشرقی پاکستان کے لوگ اپنی زبان بائیں سے دائیں طرف لکھتے تھے۔ تاریخ میں ایسی چیزیں قوموں کو یکجا اورمتحدرکھنے کے لئے کافی نہیں ہوتیں۔ دنیا کی سب سے بھیانک جنگSecond World warدوسری عالمگیر جنگ بائیں سے دائیں لکھی جانی والی زبانیں روسی، جرمن، فرانسیسی، ہسپانوی، گریک، انگریزی بولنے والی قوموں کے درمیاں لڑی گئی تھی۔ مشرق وسطیٰ میں چودہ سو برسوں سے لڑی جانے والی جنگوں میں ملوث لوگ دائیں سے بائیں لکھی جانے والی زبان عربی بولتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کا عقیدہ بھی ایک ہے۔ ایک ہی عقیدہ ہونے کے باوجود اٹھاون مسلم ممالک کے لوگ بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے ایک دوسرے کے ملک میں قدم نہیں رکھ سکتے۔ یہ زمینی اور تاریخی حقائق ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی خوش فہمی کہ ایک دوسرے سے دوہزار میل دور ہونے کے باوجود مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان محض عقیدے کی بنا پر ہمیشہ جڑے رہیں گے، ان کی یہ خوش فہمی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ اس دکھ کی کتھا میں اگلے منگل کے روز آپ کو سنائوں گا۔

تازہ ترین