• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2018ء میں شائع ہونے والی عالمی کرپشن رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے شفاف ملک نیوزی لینڈ کو قرار دیا گیا ،جس نے سو میں سے نواسی نمبر حاصل کئے، جب کہ ڈنمارک اٹھاسی نمبر حاصل کرکےدوسرے نمبر پر رہا۔ ان کے بعد فن لینڈ، ناروے اور سوئٹزر لینڈ کا نمبر آتا ہے جو پچاسی نمبر لے کر مشترکہ طور پر تیسرے درجے پر فائز ہوئے۔ شام، جنوبی سوڈان اور صومالیہ اس فہرست میں سب سے نچلے نمبر پر رہے، کیوں کہ انہوں نے پندرہ سے بھی کم نمبر حاصل کئے امریکا ، آسٹریا اور بیلجیم پچھتر نمبر لے کر سولہویں پوزیشن پر رہے

2018ء میں ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی عالمی کرپشن رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کرپشن میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں آئی ہے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل دنیا بھر میں 200 ممالک میں سے 180ممالک کا جائزہ لیتا اور سرکاری اداروں میں کرپشن کے بارے میں لوگوں کے خیالات کا اپنی رپورٹ میں ذکر کرتی ہے۔ کرپشن کے اس جائزے میں جو ممالک سو میں سے پچاس یا اس سے کم نمبر حاصل کرتے ہیں انہیں بدعنوان ترین ممالک میں شامل کیا جاتا ہے جب کہ جو ممالک سو کے قریب تر نمبر حاصل کرتے ہیں، انہیں شفاف ترین ممالک کی صف میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ ایسے ممالک ،جو 50 سے زیادہ نمبر حاصل کرتے ہیں عام طور پر وہ ملک ہوتے ہیں جہاں کرپشن کے سدباب کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں اور سرکاری اداروں کی لین دین پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ 2018ء میں دنیا کی کرپشن کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس فہرست میں اوسط اسکور صرف 43ہے یعنی مجموعی طور پر دنیا بڑی بدعنوان ہے۔ کل ایک سو اسی میں سے ایک سو بیس ممالک نے پچاس یا اس سے کم اسکور حاصل کیا اس طرح دنیا کے تقریباً دو تہائی ممالک بدعنوان ترین ملکوں کی فہرست میں شامل رہے۔

اس فہرست کے مطابق جن ملکوں نے بدعنوانی کسی قدر کم کرنے میں کچھ کام یابی حاصل کی ان میں افریقہ کے ممالک آئیوری کوسٹ اور سینی گال کے علاوہ یورپ میں برطانیہ شامل ہیں۔ اس کے برعکس ایشیا میں شام اور یمن کی بدعنوانی میں اضافہ ہوا جب کہ آسٹریلیا میں بھی بدعنوانی نسبتاً بڑھی۔

مشرقی یورپ میں ہنگری کے اسکور میں دس نمبر کم ہوئے یعنی وہاں بدعنوانی میں خاصا اضافہ ہوا۔ اب امکان ہے کہ اس اسکور میں مزید کمی واقع ہوگی کیوں کہ ہنگری میں غیرسرکاری تنظیموں اور خاص طور پر ایسی تنظیموں پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں ،جو ملک میں بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ واضح رہے کہ بدعنوان ممالک میں جہاں خود ریاستی ادارے بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں وہ ایسی مضبوط سول سوسائٹی یا غیرسرکاری تنظیموں کو برداشت نہیں کرتے جو عوام میں شعور بڑھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اکثر ممالک کے ریاستی ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر عوام میں شعور بڑھا تو وہ سوال پوچھیں گے کہ ریاستی وسائل کو تو اُن کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ ہونا چاہئے ، اگر ایسا نہیں ہورہا تو ملکی وسائل کہاں جارہے ہیں۔ وہ تمام ممالک جہاں غیر پیداواری اخراجات زیادہ ہوتے ہیں وہاں اس قسم کے سوالوں کو ریاست پسند نہیں کرتی۔ اس کی ایک مثال خود پاکستان ہے۔ 2018ء میں شائع ہونی والی عالمی کرپشن رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے شفاف ملک نیوزی لینڈ کو قرار دیا گیا ،جس نے سو میں سے نواسی نمبر حاصل کئے۔ جب کہ ڈنمارک اٹھاسی نمبر حاصل کرکےدوسرے نمبر پر رہا۔ ان کے بعد فن لینڈ، ناروے اور سوئٹزر لینڈ کا نمبر آتا ہے جو پچاسی نمبر لے کر مشترکہ طور پر تیسرے درجے پر فائز ہوئے۔ شام، جنوبی سوڈان اور صومالیہ اس فہرست میں سب سے نچلے نمبر پر رہے کیوں کہ انہوں نے پندرہ سے بھی کم نمبر حاصل کئے امریکا ، آسٹریا اور بیلجیم پچھتر نمبر لے کر سولہویں پوزیشن پر رہے۔ جو لوگ دنیا بھرمیں ہونے والی کرپشن پر نظر رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ بدعنوان حکومتیں ان لوگوں کے خلاف مہم چلاتی ہیں ،جو بدعنوانی کا پردہ چاک کرتے ،ریاستی اخراجات کی تفصیل طلب کرتے اور خاص طور پر ایسے اخراجات پر سوال اٹھاتے ہیں جن کو عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا۔ سوال اٹھانے والوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جاتی ، انہیں ہراساں کیا جاتا ہے، مقدمات قائم کئے جاتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کچھ ایسے لوگوں اور رہ نمائوں کے خلاف بھی بدعنوانی کے مقدمے بنائے جاتے ہیں جو ریاستی اداروں کے اخراجات میں رد و بدل چاہتے ہیں۔یعنی یہ ضروری نہیں کہ ہر وہ شخص یا رہ نما واقعی بدعنوان ہو جس کے خلاف ایسے الزامات لگائے گئے ہوں۔ اکثر ایسے الزامات غلط بھی ثابت ہوتے ہیں اور عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج بھی کردئیے جاتے ہیں۔ بین الاقوامی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بدعنوانی میں سب سے زیادہ وہ لوگ اور ادارے ملوث ہوتے ہیں ،جو اپنے خلاف خبریں نہیں چھپنے دیتے، سوشل میڈیا پر پابندی لگاتے اور ریاستی اخراجات کی تفصیلات طلب کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دیتے ہیں۔ عالمی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ کرپشن کے الزامات سیاست دانوں پر تو سب سے زیادہ لگتے ہیں لیکن ان کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور کرپشن میں ملوث سول اور فوجی افسر شاہی اپنے خلاف الزامات کو سامنے ہی نہیں آنے دیتی اس طرح بدعنوان ریاستوں کا بڑا اور مقتدر حلقہ خود اپنے آپ کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور سیاست دانوں کو نااہل قرار دے کر برطرف بھی کردیا جاتا ہے جب کہ ایسا کرتے ہوئے شفافیت برقرار نہیں رکھی جاتی۔

اگر دنیا بھر میں دیکھا جائے تو 2018ء میں سب سے کم کرپشن والا خطہ مغربی یورپ نظر آتا ہے، جہاں کے ممالک کا مجموعی اوسط اسکور چھیاسٹھ رہا ہے جب کہ سب سے زیادہ کرپٹ خطہ زیریں صحارا کے افریقی ممالک کا ہے جہاں کا مجموعی اوسط اسکور صرف بتیس ہے۔ اس کے علاوہ مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کے ممالک کا اوسط اسکور صرف چونتیس ہے۔ اس طرح ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ جن ممالک میں جمہوریت کو چلنے دیا گیا وہاں کرپشن کا اوسط تناسب بہت کم ہوا جب کہ جن ممالک میں آمریت قائم رہی چاہے وہ سول ہو یا فوجی ان میں کرپشن میں اضافہ ہوتا ہے۔ جمہوریت میں کمی اور کرپشن میں اضافے کا تعلق اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کرپشن انڈیکس میں سب سے شفاف ممالک وہی ہیں جہاں جمہوریت کو مستحکم ہونے کا موقع دیا گیا ، کرپشن کے بہانے حکومتوں کو کم زور نہیں کیا گیا اور نہ ہی جمہوریت کو بحیثیت ایک نظام کے اکھاڑا گیا یا بار بار روکا گیا ہو۔ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے جو ممالک آج سب سے زیادہ بدعنوان سمجھے جاتے ہیں وہاں طویل عرصے تک فوجی آمریتیں رہی ہیں لیکن خود ان فوجی آمریتوں نے کبھی اپنی کرپشن کا پردہ چاک نہیں کیا۔ اکثر فوجی آمروں کے رشتے دار اربوں اور کھربوں کی کرپشن کرتے رہے لیکن نشانہ ان سیاست دانوں کو بناتے رہے جنہوں نے آمروں کی مخالفت کی۔ خود پاکستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک سب ان سیاست دانوں کو نوازتے رہے جنہوں نے آمریتوں کا ساتھ دیا اورکھرب پتی بن گئے۔ جو آمریت سے لڑے وہ نشانہ بنائے جاتے رہے اور سزائیں پاتے رہے۔

کرپٹ ممالک کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے کیوں کہ وہ ریاستی کرپشن کا پردہ کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک طرح سے کرپشن کی سطح، صحافت کی آزادی اور سول سوسائٹی کی شمولیت آپس میں جڑے ہوئے ہیں یعنی کرپشن کم کرنے کے لئے صحافت کو مکمل آزادی دینی ہوتی اور سول سوسائٹی کی تجاویز پر عمل کرنا ہوتا ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ خود کرپشن میں ملوث ریاستی ادارے نہ تو صحافت کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ سول سوسائٹی کوکام کرنے دیتے ہیں۔

2018ء کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ صحافی ان ہی ملکوں میں نشانہ بنائے گئے جہاں سب سے زیادہ کرپشن تھی اور ان صحافیوں کو نشانہ بنانے والے سیاست دان نہیں بل کہ خود کرپشن میں ملوث ادارے تھے۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ کسی بھی سرگرم کارکن یا صحافی کو ڈر اور خوف کا شکار نہ ہونا پڑے۔

عالمی اعداد و شمار کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قتل ہونے والے نوے فی صد صحافیوں کا تعلق ایسے ممالک سے تھا جہاں کا کرپشن انڈیکس اسکور پینتالیس سے کم رہا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ہفتے کم از کم ایک صحافی کو ایسے ملک میں قتل کیا جاتا ہے ،جو انتہائی کرپٹ ہے۔ اس کے علاوہ قتل ہونے والا ہر پانچواں صحافی کسی بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کی کوشش میں رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے اکثر واقعات میں انصاف بھی نہیں کیا جاتا یعنی صحافیوں کو مارنے والے قانون سے بالاتر ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات ہم پاکستان میں بھی دیکھتے ہیں جہاں سلیم شہزاد اور ولی خان بابر جیسے صحافیوں کے قاتل کیفر کردارتک نہیں پہنچے اور دندناتے پھرتے ہیں۔

مثال کے طور پر برازیل جو 2018ء میں کرپشن کے انڈیکس میں صرف چھتیس اسکور کرسکا وہاں پر بیس سے زیادہ صحافیوں کو گزشتہ چھ سال میں قتل کیا گیا۔ زیادہ صحافی حکومتی اور ریاستی اخراجات میں کرپشن کی کھوج میں لگے ہوئے تھے۔ اس طرح کرپشن کا تعلق سول سوسائٹی کے گرد گھیرا تنگ کرنے سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ سول سوسائٹی میں ایسے غیرسرکاری ادارے شامل ہوتے ہیں ،جو سرکاری پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے لئے سماجی آزادی بہت معانی رکھتی ہے۔ عالمی طور پر جو ممالک سماجی آزادی پر قدغن لگاتے ہیں وہی سب سے زیادہ بدعنوان بھی ہوتے ہیں۔

اس سلسلے میں ہنگری کی مثال بڑی واضح ہے جہاں کرپشن اسکور اور سول سوسائٹی پر پابندی میں براہ راست تعلق پایا گیا عالمی طور پر کرپشن انڈیکس 1995ء سے شائع کیا جارہا ہے۔ اب اگر آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو عالمی طورپرتقریباً چھ ارب افراد بدعنوان ممالک میں رہتے ہیں جب کہ تقریباً ڈیڑھ ارب باشندے جو جمہوری ممالک میں رہتے ہیں نسبتاً شفاف معاشروں کا مزا لیتے ہیں۔

دنیا کے نامور رہ نما جنہیں کرپشن کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ان میں برازیل کے سابق صدر لولاڈی سلوا اور ارجنٹائن کی صدر کرسٹینا کرچنر شامل ہیں ان کے علاوہ تھائی لینڈ کے سابق وزیر اعظم شناواترا کو بھی کرپشن کے اسکینڈل میں سزا سنائی جاچکی ہے امریکا میں ری پبلکن پارٹی بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں رہی اور کیلی فورنیا سے رکن پارلیمان ڈنکسن ہنٹر کو انتخابی مہم کے پیسے ذاتی استعمال میں لانے پر فرد جرم کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح ایک اور رکن پارلیمان کرس کولنز کو بھی ایک ٹریڈنگ اسکیم کے غیرقانونی استعمال پر گرفتارہونا پڑا۔ وہائٹ ہائوس کی انتظامیہ کے افسر بھی الزامات کا شکار بنے۔ان افسروں میں سابق سیکرٹری برائے صحت ٹام پرائز اور تحفظ ماحولیات ایجنسی کے سابق سربراہ اسکاٹ پروٹ بھی شامل ہیں ،جن پر الزام تھا کہ انہوں نے سرکاری حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور اخلاقی حدود عبور کرلیں۔ خود صدر ٹرمپ کو بھی بارہا ایسے سوالات کا جواب دینا پڑا ہے جن میں ان سے کاروباری معاملات کی تفصیلات طلب کی گئیں اور خود ان کے سابق وکیل مائیکل کوین کے اس الزام کا بھی سامنا کرنا پڑا جس میں ایک خاتون کو خاموش رہنے کا معاوضہ ادا کرنے کی بات کی گئی تھی۔

عالمی طور پر کرپشن کے خاتمے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ نظام میں زیادہ سے زیادہ شفافیت لائی جائے، سیاسی نمائندگی کو بڑھایا جائے ،سول و فوجی افسر شاہی کا عمل دخل کم سے کم کیا جائے اور ہرطرح کے اسکینڈل پر گہری تحقیق کی جائے کیوں کہ اکثر سول اورفوجی افسر شاہی خود اپنے کرپشن کے معاملات کو بہ خوبی دبانے میں کام یاب ہوجاتی ہے یا پھر ایسے براہ راست قومی سلامتی کے معاملات سے جوڑ دیتی ہے یعنی اگر ان کی کرپشن پر آپ بات کریں تو آپ کو غدار قراردے دیا جاتا ہے۔

دنیا کے دس بدعنوان ترین ممالک میںنائیجریا، کولمبیا، پاکستان، ایران، میکسیکو، گھانا، انگولا، روس، کینیا اور گوائے مالا شامل ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں ان ممالک میں جمہوری آزادیاں بھی کم ہیں اور بدعنوانیاں بہت زیادہ۔ ان کے ساتھ ہی صومالیہ، جنوبی سوڈان، شام، افغانستان، یمن، سوڈان، لیبیا، شمالی کوریا، گنی بسائو، اور گنی کا نمبر آتا ہے۔

عالمی پیمانے پر کرپشن کی مختلف تعریفیں کی جاتی ہیں مگر جو باتیں مشترک ہیں ان میں رشوت ستانی اور خرد برد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مخصوص سیاسی قوتوں کو فائدے پہنچانا بھی کرپشن میں آتا ہے۔ رشوت ستانی اور خرد برد کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ رشوت سے ہرشخص متاثر ہوتا ہے مثلاً آپ اپنے کسی جائز کام کے لئے کسی کو رقم دیتے ہیں تو یہ رشوت ہے۔ اس طرح کی کرپشن سے تقریباً ہر شخص متاثر ہے۔ آپ گاڑی لے کر سڑک پر آتے ہیں تو ٹریفک پولیس کسی بھی بہانے رشوت طلب کرسکتی ہے۔ آپ مکان کی خرید و فروخت یا تعمیر کرتے ہیں تو افسر شاہی کو رشوت دینی پڑتی ہے اس طرح کی کرپشن کا ہر کوئی سامنا کرتا ہے۔ خرد برد ذرا مختلف چیز ہے، جس میں سرکاری وسائل کو ہڑپ کرلیا جاتا یا اس کا الزام لگایا جاتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے زیادہ تر ریاستی ادارے خرد برد پر تو، توجہ دیتے ہیں لیکن عام آدمی کی زندگی میں پیش آنے والے روزمرہ کرپشن کے واقعات پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اصل میں خرد برد کے الزامات کا زیادہ تر نشانہ سیاست دان ہوتے ہیں اور عام رشوت ستانی کا فائدہ افسرشاہی کو ہوتا ہے اسی لئے خرد برد کے اصل یا مفروضہ واقعات کا خوب واویلا مچایا جاتا ہے لیکن عام آدمی کی زندگی میں رشوت کے منفی کردار پر کوئی بات نہیں کی جاتی۔

اسی طرح جمہوریت میں خرد برد کا زیادہ شور مچایا جاتا ہے لیکن آمریت میں اس پر بات نہیں کی جاتی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جمہوری حکومتیں زیادہ بدعنوان ہوتی ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت بھی شروع میں بدعنوان ضرور ہوتی ہے مگر بتدریج اس میں کمی آتی ہے۔ مثلاً انیسویں صدی میں برطانیہ اور امریکا جیسے ممالک میں بھی پارلیمان کی نشستیں بیچی جاتی تھیں، مگربعد میں وہاں جمہوریت نے اس طرح کی کرپشن پر قابو پالیا اور اب وہاں جمہوریت مستحکم ہے۔

یہاں پر اصل کرپشن اور کرپشن کے تاثر کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے کیوں کہ اکثر تاثر اصل سے زیادہ موثر ہوتا ہے۔ اس لئے کوشش یہ کی جاتی ہے کہ تاثر قائم رکھا ہے اور اس کے لئے ہر طرح کے سچ اور جھوٹ کا بھی سہارا لیاجائے۔ اسی لئے دنیا میں لوگوں سے پوچھا جائے تو سیاسی جماعتوں کو سب سے زیادہ بدعنوان قرار دیا جاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر تقریباً تمام ممالک میں پولیس کو کرپٹ سمجھا جاتا ہے جب کہ تیسرے نمبر پر افسرشاہی آتی ہے اور چوتھے نمبر پر نجی شعبہ ،اس کے بعد میڈیا اور ملٹری کا نمبر آتا ہے جب کہ اس تاثر میں غیرسرکاری تنظیمیں سب سے کم بدعنوان سمجھی جاتی ہیں۔

بعض ممالک کرپشن پر شدید اور سخت سزائیں دیتے ہیں۔ جیسے ایران اور چین میں کئی بدعنوان افسروں کو سزائے موت دی جاچکی ہے۔ مخالفین الزام لگاتے ہیں ان ممالک میں اپنے حریفوں کو زیر کرنے کے لئے یہ ہتھیار آزمایا جاتا ہے اور اگر ایران یا چین میں مقتدر حلقے چاہیں تو کسی کو بھی کرپشن کا الزام لگاکر پھانسی چڑھا سکتے ہیں۔ ان الزامات کی صداقت کا اندازہ لگانا مشکل ہے مگر ایک بات واضح ہے کہ سخت سزائیں کہیں بھی جرائم کا خاتمہ نہیں کرتیں اس کے لئے نظام کا بہتر ہونا ضروری ہے۔ چین کے موجودہ صدر شی جن پھنگ نے کرپشن کو اپنا بڑا ہدف قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں کئی بڑے افسروں کو سخت سزائیں بھی دی گئیں ہیں۔ اسی طرح خود سعودی عرب میں ولی عہد محمد بن سلمان درجنوں شہزادوں کو اغوا کرکے ان سے بھتے وصول کرکے رہا کیا۔ اب کیا یہ سب کرپشن میں نہیں شمار کیا جائے گا مگر اس مسئلے پر زیادہ بات نہیں کی جاسکتی۔

بھارت بھی دنیا کے بدعنوان ترین ملکوں میں شمارہوتا ہے اور 2018ء میں اس کا اسکور صرف 43تھا یاد رہے کہ 50سے کم اسکور کے ملک انتہائی بدعنوان سمجھے جاتے ہیں۔ اگر پورے جنوبی ایشیا پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں بھارت پھر بھی سب سے بہتر نظر آتا ہے اس کے بعد سری لنکا کا نمبر ہے جس کا اسکور 38ہے جب کہ مالدیپ 33 اور پاکستان 32کے اسکور کا حامل ہے۔ جنوبی ایشیا میں بنگلا دیش سب سے زیادہ بدعنوان ہے جہاں کا اسکور صرف 28ہے۔

بھارت کے کرپٹ ترین لوگوں میں وجے مالیہ کا شمار ہوتا ہے ،جو شراب بنانے والی کمپنی یونائیٹڈ بروریز کے مالک تھے اور مشہور کنگ فشر بیئر بناتے تھے مگر یہ اربوں روپے کے قرضے لے کر فرار ہوگئے۔

اسی طرح ملائشیا اور جنوبی کوریا میں کرپشن کے اسکینڈل منظرعام پر آتے رہے ساتھ ہی برما یا میانمار کوبھی انتہائی بدعنوان ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے، جہاں پولیس کے ساتھ عدلیہ کو بھی کرپشن میں ملوث پایا گیا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ 2018ء میں دنیا بھر میں کرپشن کی کہانیاں گردش کرتی رہیں اور مجموعی طور پر صورت حال وہی رہی جو پہلے تھی۔ کرپشن کے خلاف جنگ میں پورے نظام کی بہتری بہت ضروری ہے صرف چند سیاست دانوں کو کرپٹ قرار دے کر سزا دینے کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ مجموعی ریاستی اخراجات کو شفافیت کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرنا بہت ضروری اور کرپشن کے بہانے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا، نہ صرف قابل مذمت ہے بل کہ اس سے معاشرے پر اور جمہوریت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ہر سال دنیا میں26کھرب ڈالر کرپشن کی نذر ہوتے ہیںـ،اقوام متحدہ

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں 26کھرب ڈالر سالانہ کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیںجبکہ 10کھرب ڈالر رشوت کی شکل میں ضائع ہوجاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ڈیولپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی)کی رپورٹ کے مطابق عالمی جی ڈی پی کا 5 فیصد سالانہ کرپشن کی نذر ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں امداد سے 10 گنازیادہ رقم کرپشن کا شکار ہوجاتی ہے۔اقوام متحدہ نے ممبر ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ کرپشن سے لڑنے کے لیے اقدامات کو مزید مستحکم کریں،کیوں کہ یہ ایک سنگین جرم ہےجس سے معاشرے کی سماجی اور اقتصادی ترقی پر ضرب لگتی ہے۔

کرپشن کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے ہر فرد کو آگے آنا ہوگا،مختارسومرو

چیئرمین انکوائریزاینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سندھ مختارسومورو کے بیان کے مطابق صرف اینٹی کرپشن کی کارروائی سے بدعنوانی کو ختم کرنا مشکل ہے،اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو آگے آنا ہوگا۔ اینٹی کرپشن کے جن قوانین میں ترمیم کی ضرورت محسوس کی گئی اس پر قانون سازی کے لیے کام جاری ہے،اب جرم ثابت ہونے کی صورت میں سزا اور کرپشن کی مد میں لیے گئے پیسے بھی واپس لیے جائیںگے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے پریس کلب کراچی میں انسداد بدعنوانی کے سلسلےمیں محکمے کی جانب سے منعقدہ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقعے پر ڈائریکٹر اینٹی کرپشن فیاض حسین عباسی نے کہا کہ بدعنوانی جس طرح معاشرے کے ہر فرد پر اثر اندازہورہی ہے اس سے نوجوان زیادہ متاثر ہورہے ہیں،ہمیں باضمیر ہوکر سوچنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین