پانچویں جماعت میں زیر تعلیم ہماری صاحبزادی نے فرمائش کی کہ انہیں ہیر ی پوٹر فلم دیکھنی ہے، میں نے شرط رکھ دی کہ پہلے آپ پوری کتاب پڑھیں گی پھر فلم دیکھنے کو ملے گی۔ کتاب پڑھنے کے بعد صاحبزادی نے فلم دیکھی اور گویا ہوئیں کہ کتاب فلم سے زیادہ دلچسپ تھی۔ لازمی امر ہے، اس نے یہ کتاب دو سے تین دن میں مکمل کی جبکہ فلم دو گھنٹے میں ختم ہوگئی۔ ہم جب کتاب پڑھتے ہیں تو ہما را تخیل وسیع ہوتاہے، نت نئے پیرائے سمجھ میں آتے ہیں، الفاظ کا ذخیرہ بڑھتاہے جبکہ خیالات کو ربط دینے اور اسی طرز پر لکھنے میں مدد ملتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ سوشل میڈیا کی سرگرمیاں، سنیما، ٹی وی اور تھیٹر جیسے تفریح کے ذرائع ہمارا خاصا وقت نگل لیتے ہیں، تاہم پیشہ ورانہ مصروفیات اور زندگی کی تیزرفتاری کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مطالعے کے رجحان میں کمی کی ایک اور اہم وجہ ان کی خریداری پر آنے والے اخراجات کے ساتھ ساتھ انھیں پڑھنے کے لیے درکار صبر اور یکسوئی ہے۔ ایسے میں آڈیو بکس یا صوتی کتب اس مسئلے کا جامع حل پیش کرتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے طفیل اب آپ ڈرائیورنگ کرتے ہوئے، کھانا پکانے کے دوران، یہاں تک کہ کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے کتابیں پڑھنے کے بجائے سن سکتے ہیں۔ورزش کرتے ہوئے جین آسٹن کی’پرائیڈ اینڈ پریجوڈس‘، بس میں سفر کرتے ہوئے گبریئل گارشیا مارکوئیزکی ’ون 100ایئرز آف سالیٹیوڈ‘ اور استری کرتے ہوئے اورحان پامک کی ’مائی نیم اِز ریڈ‘ جیسی آڈیو بکس سنی جاسکتی ہیں۔ یہ ان لوگوں کیلئے ہے جن کے پاس مطالعہ کا بالکل بھی ٹائم نہیں ہے،لیکن طلبہ کے پاس مطالعہ کا وقت کیوں نہیں ہوتا؟ کیا انہیں ہر چیز اسکرین پر دستیاب ہے؟ یا پھر سوشل میڈیا کی فنکاریاں انہیں اس قدر مصروف رکھتی ہیں کہ وہ کتابوں،رسالوں اور اخبار ات کے مطالعے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
کہتے ہیں جن اقوام میں کتاب کی تخلیق، اشاعت اور مطالعے کا عمل رک جاتا ہے، تو اس کے نتیجے میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل ہی رک جاتا ہے۔ کتاب شخصیت سازی کا ایک کارگر ذریعہ ہی نہیں، بلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں ان کی ہم سفرہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ گذشتہ کچھ دہائیوں سے کتب بینی سے دور ہوتا جارہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں کتب بینی کے فروغ نہ پانے کی وجوہات میں کم شرح خواندگی، صارفین کی کم قوت خرید، حصول معلومات کے لئے موبائل، انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال، ڈیجیٹل انفارمیشن کی ترویج، کمرشلائزیشن، تیزرفتار طرزِ زندگی، اچھی کتابوں کا کم ہوتا رجحان اور لائبریریوں کیلئے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ خاندان اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں کتب بینی کے رجحان میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ ہے کیونکہ کتب بینی کی جگہ اب انٹرنیٹ نے لے لی ہے۔ لوگ اب کتب خانوں میں جا کر کتابیں، رسائل و ناول پڑھنے کے بجائے انٹرنیٹ پر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لوگوں کو گھر میں بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے تمام نئی اور پرانی کتابیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ طالب علم کمپیوٹر پر یونیورسٹی و کالج کی اسائنمنٹس بناتے ہیں اور پھر ای میلز یا دیگر انٹرنیٹ ذرائع سے ایک دوسرے کوایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے پہنچادیتے ہیں۔ یوں تعلیم سے متعلق تبادلہ خیال میں بھی آسانی ہوتی ہے اور طلبہ کا اساتذہ سے رابطہ بھی رہتا ہے، مگر انٹرنیٹ کے باعث آج کل کا طالب علم صرف کورس کی کتابوں کے علم تک ہی محدود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالب علم انٹرنیٹ چیٹنگ (Chatting)اور سماجی روابط کی ویب سائٹس میں اپنا وقت ضائع کر دیتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق ایک طالبعلم اسکول اور اس کے بعد کے اوقات ملا کے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، خود کوانٹرٹین کرنے ، ویڈیو اسٹریمنگ ، میوزک سننے اور گیمز کھیلنے کے حوالے سے 9گھنٹے اسکرین کے سامنے گزارتا ہے جبکہ8سے 12سال کی عمر کے طلبہ6گھنٹے اسکرین کے سامنے گزارتے ہیں، اب24گھنٹوں میں اتنے گھنٹے آنکھوں کے سامنے اسکرین رہےگی تو مطالعہ کا کس کا دل چاہے گا۔
آج ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل کے زمانے میں بچوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا کٹھن کام بن گیا ہے۔ حالانکہ موجودہ دور میں بڑھتے نفسیاتی مسائل سے بچنے کیلئےماہرین نفسیات بچوں کے لئے مطالعہ کو لازمی قرار دے رہے ہیں کیونکہ اچھی کتابیں شعور کو جِلا بخشنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بہت سے فضول مشغلوں سے بھی بچاتی ہیں۔ بچوں میں مطالعے کا ذوق و شوق پیدا کرنے میں والدین اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، جونہی بچہ سیکھنے اور پڑھنے کی عمر کو پہنچے ، والدین کو چاہئے کہ اسے اچھی اور مفید کتابیں لا کر دیں۔ شروع میں یہ کتابیں کہانیوں کی بھی ہو سکتی ہیں، کیونکہ بچے کہانی سننا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے بچے کو مطالعے کی عادت پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ والدین بچوں کے سامنے اپنی مثال بھی قائم کرسکتے ہیں۔ فارغ اوقات میں ٹی وی دیکھنے یا فون سننے کے بجائے وہ کسی کتاب یا رسالے کی ورق گردانی کر کے بچے کو بھی اس طرف مائل کرسکتے ہیں۔ جب بچہ والدین کو مطالعہ کرتے دیکھے گا تو لاشعوری طور پر اسے یہ ادراک ہوگا کہ فارغ اوقات میں مطالعہ ہی کرنا بہتر ہوتا ہے۔ ہوسکے تو بچے کو لائبریری بھی لے جایا کریں۔ کہتے ہیں کہ لائبریری بچے کے دماغ کی بہترین میزبان ہوتی ہے۔ ڈھیر ساری کتابیں دیکھ کر بچہ خوش بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنی مرضی، مزاج اور پسند کے مطابق کتابوں کا انتخاب کر کے اپنی دماغی صلاحیتوںمیں اضافہ کرسکتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ کامیاب آدمی بنے تو اسے مطالعہ کی عادت ڈالیں ۔