سپریم کورٹ نے تمام صوبائی ہائیکورٹس اورسول عدالتوں کوریلوے کے کیسز 2 ماہ میں نمٹانے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ریلوے کی زمینوں پر ناجائز قبضوں کے متعلق کیس سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی ۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا رائل پام کنٹری کلب کا چارج فرگوسن نے سنبھال لیا ہے۔
انبہوں نے عدالت کو بتایا کہ تمام ریکارڈ فرگوسن کو دے دیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ رائل پام کنٹری کلب کا آڈٹ فرگوسن نہیں بلکہ آڈیٹر جنرل پاکستان کرے گا، رائل پام کی لیز کی قانونی حیثیت کا معاملہ اسلام آباد میں سنیں گے ۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے رائل پام میں غیر قانونی سینما گھربنایا، شادی گھر بنا دیئے جس کی اجازت نہیں تھی رائل پام کی سابق انتظامیہ کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہوگا ۔
شیخ رشید نے کہا کہ ملک کی مختلف عدالتوں میں ریلوے کے اربوں روپے کے کیسز زیر التواء ہیں جس پر عدالت نے تمام کیسز کی لسٹ فراہم کرنے کا حکم دیا ۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ ریلوے کی قانونی ٹیم کو میں اپنی مرضی سے تبدیل نہیں کرسکتے ۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کیوں نہیں کرسکتے ؟کون ہے ریلوے کی قانونی ٹیم کا سربراہ؟
شیخ رشید نے بتایا کہ طاہر پرویز ایڈووکیٹ سربراہ ہیں، انہوں نے ہائیکورٹ سے حکم امتناعی لے رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے طاہر پرویز ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ آپ کو ریلوے والے نہیں رکھنا چاہتے تو کیوں آپ رہنا چاہتے ہیں؟ جس پر طاہر پرویز نے موقف اختیار کیا کہ ان کی تعیناتی پراسس کے تحت ہوئی اور کنٹریکٹ باقی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کیسے ملی ہے یہ ملازمت ؟کیا میں اوپن کورٹ میں بتائوں آپ کے ایسے رویے سے کسی کیخلاف جوڈیشل مس کنڈکٹ کا کیس بھی بن سکتا ہے ۔
طاہر پرویز نے کہا کہ پاکستان ریلوے شیخ رشید کے اختیار سے نہیں چلے گی ،شیخ رشید مجھے نوکری سے نہیں نکال سکتے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو نکال سکتے ہیں، حد ہے، قوم کیساتھ ناانصافی نہ کریں۔
عدالت نے ریلوے کی قانونی ٹیم کے سربراہ طاہر پرویزکو ہٹانے کیخلاف حکم امتناعی کا ریکارڈ کل طلب کرلیا۔