کراچی (ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہاہے کہ سندھ میں گورنرراج لگے گا نہ ہی 18ویں ترمیم کو چھیڑاجائے گا‘ بس بدلے میں سندھ حکومت یہ کرے کہ آصف زرداری کے کیس میں شفاف ٹرائل ہونے دے‘سب جانتے ہیں کہ زرداری اور نواز شریف نے کیا کیا ہے‘ پیپلز پارٹی اور نون لیگ شفاف تحقیقات کی حمایت کریں ‘پیپلزپارٹی مراد علی شاہ کی جگہ کسی اور شخص کو وزیراعلیٰ سندھ بنا لے تو ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہو گا جبکہ بلاول بھٹوکے ترجمان مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہناہے کہ سینیٹ الیکشن کے حوالے سے ہم پر ایسا دھبہ لگاہے جسے ہم دھونا چاہتے ہیں ‘ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس دھبے کو دھونے کے لئے بہت جلد صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاکر ان کو چیئرمین شپ سے ہٹادیں گے اس کے لئے بس ن لیگ ہمارے ساتھ دے تو یہ ممکن ہوسکے گا جس پر مصدق ملک نے کہا جو بھی جمہوری عمل اور تقاضے ہوں گے اس میں اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن جماعتیں مل کر فیصلہ کریں گی تو اس کو آگے بڑھایا جائے گا تاہم فیصلہ پارٹی لیول پر ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوارکو جیونیوزکے پروگرام ’’جرگہ ‘‘میں میزبان سلیم صافی سے گفتگوکرتے ہوئے کیا ۔فواد چوہدری نے کہا کہ مرادعلی شاہ کو استعفیٰ دینا چاہئے ‘ہمارا گورنر راج کا کوئی ارادہ نہیں ‘پیپلزپارٹی کسی اوروزیراعلیٰ بنادے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا جبکہ رہنما پیپلز پارٹی مصطفی نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ اگر یہی منطق ہے تو وزیراعظم عمران خان کو بھی مستعفی ہونا چاہئے کیونکہ ہیلی کاپٹر کیس میں ان کا نام ہے ‘وزیردفاع پرویز خٹک کو بھی استعفیٰ دینا چاہئے کیونکہ مالم جبہ کیس میں ان کا نام ہے‘ فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان اور دیگر پر ایسے کوئی الزامات فارملائز نہیں ہیں ‘سب کو پتہ ہے کہ ان مقدمات میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ جس پر مصطفی نواز کھوکھر کا کہنا تھاکہ مالم جبہ کیس ریفرنس کے قریب آگیا ہے جس کی فوری طور پر فواد چوہدری نے یہ کہہ کر تردید کی کہ دونوں کیس ریفرنس اسٹیج پر نہیں پہنچے ۔ رہنما ن لیگ مصدق ملک نے کہا اگر یہ مان لیں کہ ان کیسز میں معاملہ ریفرنس اسٹیج تک نہیں آیا ہے اور انویسٹی گیشن ہورہی ہے تو استعفیٰ نہ دینے کا یہ کوئی جواز نہیں ہے ‘پی ٹی آئی حکومت نے تو انکوائری اور انویسٹی گیشن اسٹیج پر لوگوں کو گرفتار کیا ہے ‘ ای سی ایل میں ان کے نام ڈالے ہیں‘ اگر ملک میں رائج قوانین سب کے لئے یکساں ہیں تو پھر حکومتی لوگوں پر بھی وہی قانون لاگو ہونا چاہئے‘ میں مزید اس لئے کچھ نہیں کہنا چاہتا کہ ہمیں کچھ فواد چوہدری سے خوف بھی ہے‘ پیپلز پارٹی کا موقف تو یہ ہے کہ ہم پر دباؤ اٹھارویں ترمیم کو بدلنے اور گورنر راج لگانے کے لئے ڈالا جارہا ہے جس پر فواد چوہدری نے کہا میں یہاں بیٹھ کر آپ کو بطور حکومتی ترجمان اور وفاقی وزیر یہ یقین دلاتا ہوں کہ یہ دونوں کام نہیں ہوں گے تاہم میں بھی یہ خواہش رکھوں گا کہ آپ لوگ زرداری صاحب کے خلاف فری اینڈ فیئر احتساب میں ہماری حمایت کریں گے جس پر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا بالکل ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ احتساب فری اینڈ فیئر ہو لیکن اس وقت آپ خود نیب کے ترجمان بنے ہوئے ہیں تو فری اینڈ فیئر کیسے احتساب ہوگا ۔ فواد چوہدری کاکہنا تھا کہ مریم نواز اور نواز شریف کو انکوائری اسٹیج پر گرفتار نہیں کیا گیا‘ شہبا ز شریف اور سعد رفیق کی گرفتاری کی وجہ یہ ہے کہ وہ شواہد کو ختم کررہے تھے ‘مصدق ملک نے کہاکہ یہ ابھی تک کنٹینر پر ہی سوار ہیں اور سمجھ یہ رہے ہیں کہ ان کی حکومت ہے ۔ بہتر ہوگا کہ آپ ہمیں حکومت واپس دیدیں جو کہ ہمارا حق ہے جس پر فواد چوہدری نے برجستہ کہا چھوٹی چھوٹی خواہشیں ‘ جے آئی ٹی رپورٹ پر بات کرتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ اس وقت کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کا ذکر جے آئی ٹی میں کہیں موجود نہیں ہے جبکہ وہ آصف زرداری کے خاص دست راست تھے اس کے علاوہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو آصف زرداری کا اصل بندہ ظاہر کیا جاتا تھا لیکن پوری جے آئی ٹی میں ان کا نام بھی کہیں موجود نہیں ہے ۔جبکہ ان ہی اکاؤنٹس سے بلوچستان میں سینٹروں کی خریداری کی گئی جس کا ذکر بھی جے آئی ٹی میں موجود نہیں ہے جب ان لوگوں کا ذکر رپورٹ میں موجود نہ ہو جو کھیل کی دوسری طرف موجود ہوں تو پھر رپورٹ کچھ مشکوک نہیں ہوجاتی جس کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا آپ کی باتیں ہوسکتا ہے درست ہوں تاہم میں اس پر کچھ کمنٹ نہیں کروں گا‘ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 32 فیک اکاؤنٹ تھے جس میں سے ایک فالودے والا کا اکاؤنٹ اور دیگر کے اکاؤنٹس تھے جن میں 54 ارب روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی اور اس کا ایک بڑا حصہ بلاول ہاؤس کے اخراجات میں استعمال ہوا ‘ ایان علی کا ٹکٹ جس اکاؤنٹ سے خریدا گیا اسی اکاؤنٹ سے بلاول بھٹو اور بختاور کے ٹکٹ بھی خریدے گئے ۔جس فیک اکاؤنٹ سے بلاول ہاؤس لاہور کی پیمنٹ ہوئی اسی اکاؤنٹ سے بختاور بھٹو کا کیک خریدا گیا ۔ جس کا جواب دیتے ہوئے مصطفی نواز نے کہا ڈینشا نامی شخص نے جو آئیکون ٹاور کا کراچی میں پلاٹ خریدا وہ 1956 میں خریدا گیا جبکہ زرداری صاحب کی پیدائش 1958ء کی ہے ۔جب پہلی ٹرانزیکشن ہوئی ہے کمپنی کی اس وقت بلاول کی عمر ایک سال اور دوسری ٹرانزیکشن کے وقت عمر 6 سال تھی۔ اس کا جواب فواد چوہدری نے اس طرح دیا کہ جب 2007ء میں زرداری صاحب نے صدر بننے کا فیصلہ کیا تو اس وقت انہوں نے پاک لینڈ کمپنی کے جس کے وہ ڈائریکٹر تھے اس سے وہ مستعفی ہوئے اور اپنے بیٹے بلاول بھٹو کو ڈائریکٹر بنادیا ۔ علیمہ خان پر بات کرتے ہوئے فواد چوہد ری نے کہا ان کا دبئی میں ان کا ساڑھے تین کروڑ روپے مالیت کا اپارٹمنٹ تھا انہوں نے پوری منی ٹریل جمع کرائی ہے جس پر مصدق ملک اور مصطفی نواز کھوکھر نے کہا منی ٹریل نہیں دی جرمانہ ادا کیا ہے اب یہ بتایا جائے کہ وہ پیسہ کہاں سے آیا جس کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا انہوں نے ڈیڑھ کروڑ روپیہ اپنی کمپنی کے اکاؤنٹ سے ادا کیا باقی 50 فیصد انہوں نے بینک سے لون لے کر ادائیگی کی ۔ انہوں نے اس غلطی فہمی کی بنیاد پر کہ یہ میری باہر کی آمدنی ہے اس میں پاکستان کا ٹیکس نہیں بنتا اسی سبب سے ڈیکلیئر نہیں کیا وہ پاکستان میں نہیں ‘دبئی سے یو ایس اے میں ایکسپورٹ کا کام کررہی تھیں ۔تاہم انہوں نے کہا ہم دونوں جماعتوں کو آج بھی گلے لگانے کو تیار ہیں کیونکہ زرداری اور نواز شریف اپنا آخری الیکشن لڑچکے ہیں اب آگے دیکھنے کی بات ہے ۔