• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اردو کا کالم نگار ہوں اور کئی برس سے بہتر سے بہتر زبان میں لکھنے کی کوشش کرتا آ رہا ہوں۔ اس سے پہلے میں کم از کم پچیس سال انگریزی اخباروں اور رسالوں میں لکھتا رہا ہوں۔ میں کئی سال ایک آن لائن ویب سائٹ کے لئے پنجابی میں بھی روزانہ کالم تحریر کرتا رہا ہوں۔ جنگ میں اردو کالم لکھنے میں میری مصلحت یہ ہے کہ اب تک کے موجود ذرائع کے مطابق اس سے عوام تک اپنے خیالات بہترانداز میں پہنچائے جا سکتے ہیں جو انگریزی میں ممکن نہیں:انگریزی لکھنے سے اشرافیہ اور سرکاری و عالمی حلقوں تک تو رسائی ہو جاتی ہے اور انا کو بھی کافی تسکین ملتی ہے لیکن عوا م الناس سے رابطہ ممکن نہیں ہوتا جو میری اولین ترجیح ہے۔ میں نے زندگی میں شاید سب سے زیادہ وقت اردو پڑھنے پر صرف کیا ہے۔ جب میں کالج کے فرسٹ ایئر میں تھا تو میں نے اردو فاضل (بی اے آنرز کے برابر) کا امتحان پاس کیا تھا۔ میں کالج کے رسالہ ’ساہیوال‘ کا نائب مدیر اور مدیر بھی رہا ہوں ۔ یونیورسٹی کے فلسفہ ڈیپارٹمنٹ میں،میںپہلا طالب علم تھا جس نے سارے پرچے اردو میں دئیے اور اس کیلئے اردو اکیڈمی نے تین سو روپیہ انعام بھی دیا تھا۔ میں نے اتنی لمبی تمہید اپنی فاضلیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لئے باندھی ہے کہ میں کسی بھی زبان کے سلسلے میں متعصب نہیں ہوں لیکن یہ سمجھتا ہوں کہ افراد اور قوموں کی مادی اور ذہنی نشو و نما میں مادری زبانیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔

اب متعدد محققین نے طویل ریسرچ کے بعد یہ بات ناقابل تردید حد تک ثابت کردی ہے کہ اگر بنیادی تعلیم مادری زبان میں ہو تو بچے کے سیکھنے کی رفتار تیز تر ہوتی ہے اور اس کی دوسری زبانیں سیکھنے کی استعداد بھی زیادہ ہوتی ہے۔ معاشی سطح پر بھی پچھلی کئی دہائیوں میں یہ ثابت ہوا ہے کہ جن ممالک نے اپنی مادری زبانوں کو ترویج دے کر خواندگی میں اضافہ کیا ،وہ کافی آگے نکل گئے ہیں۔ چین، جاپان، جنوبی کوریااور ویت نام اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ اب تو بنگلہ دیش بھی اپنی مادری زبان میں تعلیم دے کر پاکستان سے آگے نکل گیا ہے۔ ہندوستان جیسے وہ ملک جن میں کسی ایک زبان کو سرکاری سطح پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن تمام قومی زبانوں کو استعمال کرتے ہوئے بنیادی تعلیم مادری زبانوں میں دینے کی سہولت موجود ہے معاشی طور پر بہتر نتائج حاصل کر رہیں ہیں۔اگر آپ مزید غور کریں تو ہندوستان کی بیشتر ترقی جنوبی ریاستوں میں ہوئی ہے جہاںمادری زبانیں باقی ماندہ ملک سے زیادہ مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں پائے جانے والے خدشات کے برعکس ہندوستان قومی زبانوں کے تسلیم کرنے کی وجہ سے جغرافیائی انتشار کا شکار نہیں ہوا۔ مسئلہ یہ ہے کہ تمام تر سائنسی حقائق سیاسی بیانئے کے تابع ہوتے ہیں:ضروری نہیں کہ سماجی زندگی میں سائنسی حقائق کو تسلیم کر لیا جائے۔ تمام تر شہادتوں اور سائنسی تجزیات کے باوجود پاکستان میں مادری زبانوں کو پذیرائی نہیں ملی۔ لیکن قارئین جانتے ہیں کہ میں ہر سماجی مظہر کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور عومی اعتقادات کی بجائے ان ابھرتے ہوئے رجحانات کی کھوج میں ہوتاہوں جو بقول علامہ اقبال ابھی ۔حقیقت منتظرـ‘ ہے اور ابھی ’لباس مجاز‘ میں نہیں آئے۔ میرا پچھلا کالم ’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ پاکستان میں مادری زبانوں کے احیاء کے بارے میں بھی میرا نقطہ یہ ہے کہ ایک خاموش انقلاب آرہا ہے اور لسانی ترجیحات بدل رہی ہیں۔

پاکستان میں ستر کی دہائی سے شروع ہونے والا معاشی انقلاب بنیادی سماجی تبدیلیوں کا باعث بنا ہے۔پاکستان میں پیپلزپارٹی کے تحت آنے والی معاشی اورسیاسی تبدیلوں کے ساتھ ساتھ لسانی سطح پر بھی تغیر و تبدل ہوا۔ سندھ میں سندھی زبان کو بحال کردیا گیا اور وہاں عام تعلیم مادری زبان میں شروع ہو گئی۔ سندھ میں مادری زبان کے احیاء سے معاشی اور فکری سطح پر کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی کیونکہ زبان کے علاوہ بھی بہت سے عناصر کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مادری زبانوں میں تعلیم دینے سے کوئی جادوئی عمل ہو جاتا ہے اور ترقی کے راستے خود بخود کھل جاتے ہیں۔ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں مادری زبانوں میں تعلیم دینا محض ایک بنیادی شرط ہے جس کے ساتھ اور کچھ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔

صوبہ پنجاب میں مادری زبان کا احیاء بڑے پر اسرار انداز میں ہو رہا ہے۔ پتہ نہیں کیا وجوہات تھیں کہ ساٹھ کی دہائی کے اواخر کے عوامی ابھار کے دنوں میں علامہ علاؤالدین کی وائس چانسلری کے زمانے میں پہلی مرتبہ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے پنجابی کی کلاسز شروع کی گئیں۔ ستر کے انتخابات کے نتیجے میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو پنجاب کے پانچ درجن بڑے کالجوں میں ایف اے اور بی اے کی سطح پر پنجابی پڑھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب بہت سی یونیورسٹیوں اور جدید اداروں میں کسی نہ کسی صورت میںپنجابی اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ستر کی دہائی کے زمانے میں لاہور کے ایک پبلشنگ ہاؤس واقع مال روڈ پر پنجابی کی صرف تین کتابیں (موہن سنگھ کی ساوے پتر، امرتا پریتم کی نویں رت اور احمد راہی کی ترنجن) دستیاب ہوتی تھیں لیکن اب متعدد پبلشنگ ہاؤسز صرف پنجابی کتابیں چھاپ کر معاشی طور پر خود کفیل ہیں۔

اس سلسلے میں ایک اور دلچسپ تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ جب میں ساٹھ کی دہائی میں ساہیوال کالج کا طالب علم تھا تو شہر میں نئی نظم کے سب سے بڑے شاعر مجید امجد اور ایک اور بزرگ حاجی بشیر احمد بشیرؔ کے ارد گرد اردو کی ادبی محفلوں کا انعقاد ہوتا تھااور پنجابی ادب کا دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ شہر میں کتابوں کی دو بڑی دکانوں کا نام (استاداں دی ہٹی اور رحمت دی ہٹی) پنجابی میں تھا اگرچہ وہ پنجابی کتابیں فروخت نہیں کرتی تھیں۔ لیکن اب اسی شہر ساہیوال میںاردو کے بجائے پنجابی کی ترویج کے لئے متعدد تنظیمیں فعال ہیں۔ اس طرح کے رجحانات کسی بنیادی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ ستر کی دہائی کے بدلتے ہوئے رجحان کی وجہ سے ہی فیض احمد فیضؔ اور احمد ندیم قاسمی کو بھی پنجابی میں شاعری کرنا پڑی۔

تاریخ میں لسانی تبدیلیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں اگرچہ یہ عمل سست روی سے چلتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ تقریباً پورے ہندوستان میںصرف فارسی میں تحریریں تخلیق ہوتی تھیں ۔ پھر جب شہنشاہ اورنگ زیب نے سترہویں صدی میں فارسی ادب کی سر پرستی بند کردی تو اردو کو اٹھارہویں صدی میں عروج حاصل ہوا۔اب فارسی شعراء میں سے عبدالقادر بیدل ؔکے علاوہ کسی کا نام بھی باقی نہیں رہا۔ پاکستان میں اردو زبان کو درپیش ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس کی شاعری کو سمجھنے کے لئے تھوڑی بہت فارسی زبان سے آشنائی ضروری ہے۔ اسداللہ غالبؔ سے لے کر علامہ اقبالؔ، فیض ؔاحمد اور احمد فرازؔ تک کی شاعری کا فارسی ترکیبوں سے شناسائی کے بغیر لطف نہیں اٹھایا جا سکتا۔ پاکستان میں ہماری نسل آخری تھی جو کسی سطح پر فارسی زبان سے آگاہ تھی اس لئے اب اردو زبان کی کلاسیکل روایت کا زوال روکنا کافی مشکل نظر آتا ہے۔

معاشی سطح پر سب سے زیادہ تبدیلیاں وسطی پنجاب میں آئی ہیں اور مشینی نظام نے ڈھائی ہزار سال سے مروجہ پیداواری ڈھنگ کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ ان معاشی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر محسوس انداز میں سماج کے ہر ادارے کی تشکیل نو ہو رہی ہے۔ اس عظیم تبدیلی کے نتیجے میں لسانی سطح پر بھی بنیادی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ابھرتا ہوا رجحان کیا ہے، جو اگلے پچاس سالوں میں ’لباسِ مجاز‘ میں آئے گا۔ اٹھارہویں صدی کے آغاز میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ مغلیہ سلطنت اتنی زوال پذیر ہو جائے گی کہ چند ہزار سکھ سارے پنجاب پر قبضہ کر لیں گے۔ اس لئے ہمارے خیال میں حاکمانِ وقت کو سائنسی اور تاریخی حقیقتوں کا اداراک کرتے ہوئے عوام کی مادری زبانوں کےارتقا کی طرف توجہ کرنا چاہئے وگرنہ تاریخ کا جبر خود ہی اس کا حساب کر لے گا۔

تازہ ترین