• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پاکستان ہاکی ٹیم کے فارمیٹ میں تبدیلی کی ضرورت ہے

شہناز شیخ (سابق اولمپئن)

بھارتی سرزمین پر بیلجیم نےہالینڈ کی ہاکی ٹیم کو شکست دے کر پہلی بار ہاکی کا ور لڈ کپ جیتا ، پاکستان کیخلاف ایونٹ میں12گول ہوئے اور اسکی پوزیشن بھی12ویں رہی، ہالینڈ کی ٹیم فائنل جیت جاتی تو وہ بھی پاکستان ہاکی کا چار مرتبہ جیتنے کا ریکارڈ برابرکردیتی، پاکستان ہاکی ٹیم کی خراب کارکردگی گزشتہ 3 سال کے تسلسل کا نتیجہ ہے جس میں کامن ویلتھ گیم، ورلڈ لیگ، چیمپئنز ٹرافی، ایشیاء کپ، ایشین گیم، ایشین چیمپین ٹرافی شامل ہیں جس کی وجہ سے پانچ مرتبہ ٹیم مینجمنٹ اور دوسلیکشن کمیٹی کو تبدیل کرنا پڑا۔اسکے علاوہ کھلاڑیوں کی ڈیلی الاؤنس نہ ملنے پر بغاوت اور ٹیم مینجمنٹ کے آپس کے اختلافات یہ وہ عوامل ہیں جوورلڈکپ میں برے نتائج کا پیش خیمہ بنے۔ پاکستان میں ان 3 سال کے عرصے میں تقریباً52 میچ کھیلے جس میں سے 15 میچ جیتے 28 میچ ہارے اور 9 میچ برابر رہے۔ ورلڈ کپ میں شکت کے بعد ٹیم انتظامیہ کے بعد سکریٹری شہباز احمد نے حکومت سے ناراض ہوکر اور اس پر عدم تعاون کا الزام لگاکر اپنے عہدے سے استعفی دے دیا، جدید ہاکی اور حالیہ ورلڈکپ میں تقریباً 157 گول اسکور ہوئے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کھیل کی رفتار اور ہاکی کتنی جارحانہ ہوگئی ہے مطلب یہ بنتا ہے کہ اس رفتار کو ہینڈ ل کرنے کیلئے کھلاڑی اور ٹیم مینجمنٹ کی رفتار میں برابری ہونی چاہیئے یعنی پہلے اس رفتار کو محسوس کیا جائے اور پھر عمل درآمد کیونکہ مصنوعی گھاس اور فائبراسٹیک سے لیکر ہاکی گیمز اور رولز نے کھیل میں بجلی کی سی تیزی آگئی آپ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ پرانی ہاکی میں گیند کھلاڑی کے حکم کا محتاج تھیلیکن جدید ہاکی میں کھلاڑی گیند کے تابع ہے ، اب 60منٹ کے کھیل میں جس ٹیم نے تھوڑی سے سستی د کھائی اس کا حشرہاتھی کاگھاس کو مسلنے کے برابر ہوتا ہے، اگر ہم پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس کا جائزہ لیں تو جس فار میٹ سے کھیلی ہے اس میں کئی کھلاڑی ان فٹ نظر آتے ہیں۔موجودہ پاکستان ہاکی ٹیم کیلئے 1+1 پمپنگ فارمیٹ زیادہ بہتر ہے ۔ جبکہ ورلڈکپ میں 1x1 فارمیٹ استعمال ہوا جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہیں، ایونٹمیں پاکستان کے صرف دوگول اور اس کیخلاف 12 گول اس کے علاوہ لاتعداد کاؤنٹر اٹیک ،یہ فارمیٹ پائے کے کھلاڑیوں کیلئے مناسب ہے جو کہ ایک یا دو کھلاڑیوں کو بیٹ کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتے جیسے ماضی کے کھلاڑی کرتے تھے، موجودہ کھلاڑیوں میں یہ کوالٹی موجود نہیں، سب سے بڑی تکنیکی خرابی یہ ہے کہکھلاڑی انفرادی کھیل کھیلنے سے تھکاوٹ کا شکار ہوئے جس کی وجہ سے گول بھی کم ہوئے اور کھلاڑیوں کی فنٹس بھی متاثر ہوئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم اولمپک 2020 میں رسائی حاصل کرسکیں گے ، موجودہ ٹیم میں کچھ کھلاڑی اپنی حدتک پہنچ چکے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اس تھوڑے سے عرصے میں آپ ایسی ٹیم تیار کرسکتے ہیں جوکوالیفائی مرحلے کوعبور کرسکتے ہیں، ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں ایسا کوئی کھلاڑی نہیں جو اتنی جلدی جگہ پرکرسکے کیونکہ وہی پرانے کھلاڑی نمایاں نظرآتے ہیں ، فیڈریشن نے کچھ اکیڈمیزبنائی ہوتی توشاید مناسب کھلاڑی نکل آتے، میں وزیراعظم عمران خان سے اپیل کرتا ہوں کہ قومی گیمز میں بہتری کیلئے ہنگامی سطح پر اقدامات کئے جائے۔

تازہ ترین
تازہ ترین