کراچی (اسد ابن حسن) ایف آئی اے، ایف بی آر اور بعض حکومتی حلقے اس وقت سخت پریشانی اور تذبذب کا شکار ہیں ، تحقیقات کے حوالے سے ایک نیا رخ سامنے آیا ہے کہ اومنی گروپ کے جو 29اکاؤنٹس سامنے آئے تھے ان میں موجود کئی ارب روپے پر گروپ نے رضاکارانہ ایمنسٹی حاصل کرلی تھی۔ ڈی جی ایف آئی اے نے ایمنسٹی لینے کی تصدیق کی ہے ۔ تحقیقاتی افسران اس بات پر حیران ہیں کہ گروپ کے مالکان ایف آئی اے کی تحویل میں رہے مگر حیرت انگیز طور پر اُنہوں نے اس اہم بات کا ذکر نہیں کیا۔ مذکورہ ایمنسٹی اومنی گروپ نے دبئی سے فائل کی اور منظورشدہ رقم دے کر رقم کو ’’وائٹ‘‘ کروا لیا۔ اس حوالے سے جب ایف آئی اے نے تفصیلات حاصل کرنے کیلئے ایف بی آر سے رابطہ کیا تو وہاں سے جواب ملا کہ ایمنسٹی قانون میں ایک یہ شق موجود ہے کہ ایمنسٹی حاصل کرنے والے فرد کی تفصیلات آشکار نہیں کی جاسکتیں۔ کسی بھی ادارے کو سوائے اگر سپریم کورٹ تفصیلات طلب کرے۔ موجودہ صورتحال میں جے آئی ٹی اور حکومتی حلقے گومگوں کی کیفیت میں مبتلا ہیں، اس حوالے سے قانونی ماہرین اور ایف آئی اے کے سابق اعلیٰ افسران کا مؤقف تھا کہ شاید اس سے کوئی فرق نہ پڑے کیونکہ ایمنسٹی اسکیم میں منی لانڈرنگ کی رقوم پر اطلاق نہیں ہوتا اور یہ تو اسی وقت معلوم ہوگا کہ ایف بی آر نے کس مد میں اومنی گروپ کو ایمنسٹی دی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ ایف بی آر ایمنسٹی ڈکلیئریشن کو مخفی رکھنے کی پابند ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجوزہ آرڈیننس 2018ء دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک والینٹری ڈکلیئریشن آف ڈومیسٹک اسیسٹ آرڈیننس اور دوسرا فارن اسیسٹ (ڈکلیئریشن اینڈ ری پیٹریشن) آرڈیننس 2018ء جبکہ دو اور حصے انکم ٹیکس اور پروٹیکشن آف اکنامک ری فارمز (امینڈمنٹ) آرڈیننس 2018ء شامل ہیں۔ اس اسکیم کا اطلاق سرکاری عہدہ رکھنے والوں پر نہیں ہوتا۔ سابق مشیر وزیراعظم ہارون اختر خان نے اپریل 2018ء کو کہا تھا کہ ایمنسٹی اسکیم رازداری کی شقیں جوکہ او ای سی ڈی (آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ) کو فالو کرنے کی پابند ہے اور اس اسکیم میں کرپشن کے پیسے، منشیات یا ٹیرر فنانسنگ کی رقوم کو ایمنسٹی نہیں دی جائے گی۔ اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن نے نمائندہ ’’جنگ‘‘ کو استفسار پر بتایا کہ ان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ عدالت میں ایف آئی اے نے جن معروف وکیل فیصل صاحب کی خدمات حاصل کی ہیں، اُنہوں نے بتایا کہ اومنی گروپ نے ان 29اکاؤنٹس پر ایمنسٹی حاصل کر رکھی ہے۔ اب اس اہم انکشاف کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اومنی گروپ کا یہ ڈکلیئریشن اقبال جرم کے زمرے میں آئے گا کیونکہ بے نامی، سرکاری افسروں اور ٹھیکیداروں اور عوامی نمائندوں کے پیسے اومنی گروپ کے اکاؤنٹس میں آنے ثابت ہوچکے ہیں۔