• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

147افرادکو PNILپر ڈالنے کی سفارش،172کو ECLمیں ڈال دیاگیا

کراچی(اسدابن حسن)جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں 147 کو PNIL(پرویژنل نیشنل آئی ڈینٹی فکیشن لسٹ) جوکہ ECLسے مختلف ہوتی ہے، ڈالنے کی سفارش کی۔ PNILماضی کی طرح ابتدائی طور پر Lookout اور بعد میں Check Listبھی کہا جاتا رہا ہے، جس میں کسی بھی فرد کوجس کا نام مذکورہ لسٹ پر ہو، روکا جاتا ہے پھر اس حوالے سے اعلیٰ افسران سے بات کرکے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ جانے دیا جائے یا آف لوڈ کردیا جائے، مگر حکومت نے 147کے بجائے 172افراد کو PNILکے بجائے ECLپر ڈال دیا۔جے آئی ٹی نے تحریر کیا ہے کہ ٹیم نے میوچل لیگل اسٹیٹس (MLA)کے تحت بین الاقوامی اداروں سے معاونت حاصل کی تھی جس کی مکمل تفصیلات اور شواہد انوسٹی گیشن رپورٹ نمبر 25میں موجود ہیں، لہٰذا اس کو کانفیڈینشل مارک کیا گیا ہے اور اس تک رسائی کسی کو نہ دی جائے۔حیران کن بات یہ رہی کہ جے آئی ٹی کی ECLکی تحقیقات کے لیے 8 ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں، ٹیم 5/6افسران پر مشتمل تھی مگر ان ٹیموں میں آپس کے رابطے کا فقدان رہا کہ ایک ٹیم میں ایک شخص گواہ ہے تو دوسری ٹیم کے کیس میں وہی شخص ملزم بنا دیا گیا۔ ECLفہرست میں جن گواہوں کے نام بھی شامل کیے گئے ہیں ان میں اسلم قریشی، جگدیش، محمد عمیر اور خدابخش کاریتو شامل ہیں۔ سابق ایم ڈی پی آئی اے اعجاز ہارون اور ان کی اہلیہ کا نام اس لیے شامل ہوا کہ اُنہوں نے اپنا قطعہ اراضی اومنی گروپ کو فروخت کیا اور اس عوض رقم اومنی گروپ سے وصول کی۔ ایک اور شخص اشرف مغل جس نے انور مجید کے گھر کنسٹرکشن کا کام کیا اور صرف تین لاکھ کا بل وصول کیا، اس کا نام بھی ای سی ایل میں موجود ہے۔رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے اس تحقیقات کی شروعات 2015ء میں ایک سورس رپورٹ پر اینٹی کرپشن سرکل کراچی میں ہوئی جب سمٹ بینک کی دو برانچوں میں موجود 4 اکاؤنٹس میں بھاری ٹرانزیکشن ہوئی جبکہ اکاؤنٹ ہولڈر کے پروفائل بہت کمزور اور طلبی پر جب حاضر ہوئے تو انتہائی غریب لگے۔ ایک اکاؤنٹ میں 4ارب 40کروڑ، ایک میں 3ارب، تیسرے میں 2ارب 80کروڑ اور چوتھے میں 6ارب 30کروڑ کی ٹرانزیکشن ہوئی۔ اس تحقیقات میں تاخیر ہوتی رہی اور 2017ء میں فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے بے نامی 29 اکاؤنٹس بشمول مندرجہ بالا چار کی نشاندہی کی۔ جس کے بعد یہ انکوائری اسٹیٹ بینک سرکل کو منتقل کردی گئی اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد علی ابڑو نے تحقیقات مکمل کرتے ہوئے مقدمہ نمبر 4/2018درج کیا۔ ان نامزد ملزمان میں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید، عبدالغنی مجید، اسلم مسعود، محمد عارف خان، نورین سلطان، کرن امان، عدیل شاہ راشدی، طحٰہ رضا، حسین لوائی، نصیر عبداللہ، مسز فریال تالپور اور آصف علی زرداری شامل تھے۔ 29جون 2018ء کے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد ایف آئی اے کی ایک انٹرنل جے آئی ٹی کو تحقیقات کا حکم دیا گیا جس کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نجف قلی مرزا تھے مگر ملزمان کے اعتراض کے بعد ایک اعلیٰ پیمانے کی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس کے سربراہ احسان صادق رہے۔جے آئی ٹی نے دوران تحقیقات 32 بے نامی اکاؤنٹس پکڑے جن میں سمٹ بینک کے 5 اکاؤنٹس (ٹرانزیکشن 26ہزار 590ملین روپے) یو بی ایل کے 8 اکاؤنٹس (ٹرانزیکشن 7ہزار 930ملین)، سندھ بینک کے 7اکاؤنٹس (ٹرانزیکشن 6ہزار 186 ملین)، ایم سی بی ایک اکاؤنٹ (ٹرانزیکشن 905ملین) اور فیصل بینک ایک (ٹرانزیکشن 761 ملین) مجموعی رقم 42ارب 37 کروڑ 30 لاکھ روپے۔جے آئی ٹی رپورٹ میں جعلی اکاؤ نٹس میں 313ٹرانزیکشن کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جوکہ سرکاری ٹھیکیداروں نے کک بیکس کی رقوم منتقل کیں جن کی مالیت ایک ارب 32 کروڑ تھی اور ان ٹھیکیداروں کی تعداد 19تھی۔ یہ معلومات بھی دی گئیں ہیں کہ ان ٹھیکیدار وں کو کتنے کتنے کنٹریکٹ دیئے گئے۔جے آئی ٹی میں شامل افسر ا ن کا ماننا ہے کہ جس طرح مراد علی شاہ کے والد مرحوم عبداللہ شاہ اپنے اوپر مقدمات جن میں زمینوں سے تعلق اور مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں نامزد ہونے کے بعد 1997ء میں بیرون ملک فرار ہوگئے تھے، اسی طرح مراد علی شاہ بھی بیرون ملک چلے جائیں گے اور پھر اپنے والد کی طرح واپس نہیں آئیں گے۔ والد کے ساتھ بھی آصف علی زرداری کا نام جڑا ہوا تھا اور اب اس کیس میں بھی مراد علی شاہ اُن کے ساتھ موجو د ہیں۔ رپورٹ کے والیوم 1کے 129سے 153صفحات پر وہ لسٹ ہے جس میں تحقیقات سے متعلق افراد کو طلب کیا گیا اور کتنے پیش ہوئے اور کتنے نہیں۔ 154سے 156 پر ان 147افراد کے نام ہیں جن کو پرویژنل نیشنل آئی ڈینٹی فکیشن لسٹ میں شامل کیا گیا۔ 184سے 193تک مختلف افراد کے بیانات کی کاپی، والیوم IIصفحہ 213 اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے این او سی کی کاپی جس میں مائی بینک کو سمٹ بینک میں ضم کرنا، 321اور 322پر سابق وزیر خزانہ سندھ مراد علی شاہ کا ٹھٹھہ شوگر مل کو فروخت سے متعلق دستاویزات، 348اور 349پر سندھ بینک کے سی ای او کا مسز فریال تالپور کو جواب بابت ان کی ہدایت پر بینک میں 4اعلیٰ افسران کی تعیناتی، 353سے 382 پارک لین کے آرٹیکل آف میمورنڈم اور آرٹیکل آف ایسوسی ایشن کی کاپیاں 397 سے 400ٹرانزیکیشن جس کا تعلق نوڈیرو صدر ہاؤس کے انچارج ندیم بھٹو کی کاپیاں، والیوم IIIمیں صفحہ 401سے 404جعلی اکاؤنٹس سے درآمد شدہ گاڑیوں کی کسٹم کلیئرنس کی ادائیگی، 405سے 414آصف علی زرداری کی نامزدگی کے کاغذات، 415سے 428وزیراعظم کی سمری کا مراسلہ جس میں آصف علی زرداری کو تحفے میں ملی گاڑیاں رکھنے کی اجازت، 434سے 439اسلام آباد ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی خط و کتابت 458سے 482اومنی ایوی ایشن سے سفری دستاویزات، 490سے 495 نیویارک میں پراپرٹی کی دستاویزات، 496سے 512آصف علی زرداری کی توسیع شدہ ویلتھ کے کاغذات 513سے 516عبدالغنی مجید کے 2014کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ کی کاپیاں، 524سے 531آصف علی زرداری گروپ کی 2010کی آڈٹ رپورٹ، 559سے 567آصف علی زرداری اور مشتاق احمد کی سفری تفصیلات، 568سے 570ایان علی کی سفری تفصیلات، 587سے 623فریال تالپور کے اندرون سندھ زمینوں کی ملکیت کے کاغذات، والیوم IVصفحہ 593سے 743مختلف افراد کے بیانات کی کاپیاں، 744اور 745پر پاکستان اسٹیل مل کی زمین کی مشروط فروخت کی کاپی، 750سے 823مختلف رقوم کی ٹرانزیکشن ریکارڈ اور پنک سٹی کے حوالے سے دستاو یز ا ت۔

تازہ ترین