• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شگفتہ بلوچ، ملتان

سال 2018ء حکومتی سطح پر خواتین کے لیے مایوس کُن، لیکن انفرادی سطح پر خاصا خوش کُن رہا کہ اس برس انھوں نے’’ اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت مُلک اور بیرونِ مُلک بے شمار کام یابیاں اپنے نام کیں۔ گزشتہ برس کے پہلے پانچ ماہ کے دَوران وفاق میں نون لیگ کی حکومت رہی اور اس عرصے میں خواتین کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں ہوئے۔ کوئی ترقّیاتی اسکیمز متعارف کروائی گئیں اور نہ ہی اُن کے بہتر تحفّظ کے لیے کوئی قانون منظور ہوا۔ تاہم، پنجاب اسمبلی نے کم عُمری کی شادی کے خلاف ایک ترمیمی بِل منظور کیا، جس کے تحت کم عُمری کی شادی پر نکاح خواں، ولی یا سرپرست کو 50 ہزار روپے جرمانہ اور چھے ماہ تک قید یا دونوں سزائیں دینے کا فیصلہ ہوا۔ نیز، گزشتہ برس دو بجٹ پیش ہوئے، ایک نون لیگ کی حکومت نے اپریل 2018ء اور دوسرا، ستمبر میں عمران خان کی حکومت نے’’ مِنی بجٹ‘‘ کے نام سے پیش کیا۔ نون لیگ کی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ماہانہ امدادی رقم 3000 سے سے بڑھا کر 4843 روپے کی، جب کہ بیوائوں کے لیے قرضوں کی مَد میں رقم 6 لاکھ روپے تک بڑھائی، جس سے خواتین کو بالواسطہ اور بلاواسطہ فائدہ ہوا، تاہم تحریکِ انصاف کے مِنی بجٹ میں خواتین کو نظرانداز کر دیا گیا۔ البتہ میک اَپ کا سامان خاصا مہنگا ہوا، جسے صنفِ نازک نے اپنے ساتھ ظلم قرار دیا۔

الیکشن کمیشن نے 2018ء کے انتخابات میں حصّہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کو خواتین کو 5 فی صد نمائندگی دینے کا پابند کیا تھا، لیکن بیش تر نے اس پر عمل نہ کیا اور جن جماعتوں نے اس فیصلے کی پاس داری کی، وہاں بھی خواتین کو پارلیمان کا حصّہ بنانے کے لیے کوئی خاص گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آئی۔ عام انتخابات میں مُلک بھر سے 1691خواتین امیدوار میدان میں اُتریں، جن میں سے 436 نے قومی اور 1225 نے صوبائی اسمبلیوں کے لیے کاغذاتِ نام زَدگی جمع کروائے، تاہم اُن میں سے صرف8 خواتین قومی اور 7 صوبائی اسمبلیوں کی رُکن منتخب ہو سکیں۔ اس معاملے میں پنجاب سرِ فہرست رہا، جہاں سے 5 خواتین منتخب ہوئیں، جب کہ سندھ سے 2 خواتین ایم پی اے منتخب ہوئیں، تاہم بلوچستان اور خیبر پختون خوا سے کوئی خاتون جنرل نشست پر ایم پی اے منتخب نہ ہوسکی۔ قومی اسمبلی کی نشست پر کام یاب ہونے والی خواتین میں مہناز عزیز، غلام بی بی بھروانہ، زرتاج گل، نفیسہ شاہ، شازیہ مَری، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، شمس النساء، زبیدہ جلال شامل ہیں، جب کہ صوبائی نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین میں پنجاب سے حمیدہ میاں، سلیم بی بی، آشفہ ریاض فتیانہ، جگنو محسن، نغمہ مشتاق لانگ شامل ہیں۔ سندھ سے فریال تالپور اور عذرا افضل ایم پی اے منتخب ہوئیں، جو سابق صدر آصف زرداری کی بہنیں ہیں۔ فہمیدہ مرزا کو مسلسل پانچویں بار ایک ہی حلقے سے الیکشن جیتنے والی پہلی خاتون رُکن ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔ شکست کھانے والی خواتین رہنمائوں میں فردوس عاشق اعوان، سائرہ افضل تارڑ، سمیرا ملک، تہمینہ دولتانہ، شہلا رضا اور عائشہ گلالئی شامل ہیں۔ وزیرِاعظم، عمران خان نے اپنی کابینہ میں 4 خواتین کو شامل کیا، جب کہ پنجاب اور سندھ حکومت میں دو، دو خواتین کو وزارت دی گئی، تاہم بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں کوئی خاتون صوبائی وزیر نہ بن سکی۔ وفاقی کابینہ میں زبیدہ جلال دفاعی پیداوار، شیریں مزاری انسانی حقوق، فہمیدہ مرزا بین الصوبائی رابطے اور زرتاج گل موسمیاتی تبدیلیوں کی وزیر ہیں۔ پنجاب کابینہ میں شامل یاسمین راشد کو صحت اور آشفہ ریاض فتیانہ کو خواتین کی ترقّی و بہبود کی وزارت دی گئی۔ سندھ میں شہلا رضا خواتین کی بہبود اور ڈاکٹر عذرا افضل صحت اور بہبودِ آبادی کی وزیر بنائی گئیں۔ خواتین کے سیاسی کردار کی بات ہو رہی ہے، تو یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ گزشتہ برس کے نصف اوّل میں مریم نواز نے خود کو سیاست میں متحرّک رکھنے کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ اُنہیں جولائی 2018ء میں ایون فیلڈ ریفرنس میں 8 سال قید اور 335 ملین جرمانے کی سزا سُنائی گئی۔ وہ اُن دنوں والدہ کی تیمارداری کے لیے لندن میں تھیں، لیکن والد، میاں نواز شریف کے ہم راہ پاکستان آ کر گرفتاری دے دی۔ تاہم، ستمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سزا معطّلی کے بعد رہا کر دی گئیں۔

سال 2018ء خواتین کے تحفّظ اور قانون سازی کے حوالے سے مایوس کُن ہی رہا۔ خواتین کے خلاف جرائم کی شرح 2017 ء کی نسبت زیادہ رہی۔ پنجاب میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل میں کئی گُنا اضافہ ہوا اور اس حوالے سے ہونے والی قانون سازی ،خواتین کو تحفّظ دینے میں بُری طرح ناکام رہی، یہی وجہ ہے کہ قاتل دندناتے پِھرتے رہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، جون 2017ء سے اگست 2018ء تک737 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا اور قتل کی بیش تر وارداتوں میں قریبی عزیز ہی ملوّث تھے، جب کہ 2018ء کے ابتدائی 10ماہ میں مُلک بَھر میں خواتین کے خلاف جرائم کے 5660 واقعات ہوئے۔ پنجاب میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح باقی تینوں صوبوں سے زیادہ رہی اور 2018ء کے ابتدائی چھے ماہ کے دوران 3400 خواتین سنگین جرائم کا نشانہ بنیں، جب کہ خیبر پختون خوا میں باقی صوبوں کے مقابلے میں خواتین کے خلاف سب سے کم 202 جرائم ہوئے۔ سندھ میں 2018ء کے پہلے دس مہینوں میں 1704 اور بلوچستان میں 354 خواتین مختلف جرائم کا نشانہ بنیں۔ مذکورہ ڈیٹا صوبائی محکمۂ اطلاعات سے لیا گیا ہے۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ وزیرِاعظم، عمران خان خواتین کے تحفّظ اور اُن کے خلاف جرائم میں کمی کے لیے بھی ٹھوس پالیسی وضع کریں تاکہ خواتین’’ نئے پاکستان‘‘ میں خود کو محفوظ تصوّر کریں۔ اس ضمن میں نئے قوانین کی منظوری کے ساتھ، سابقہ ادوار میں بنائے گئے قوانین پر بھی اُن کی رُوح کے مطابق عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

سابقہ پنجاب حکومت اور سابق وزیراعلیٰ، شہباز شریف کی تمام تر کوششوں کے باوجود صوبے میں خواتین کی شرحِ خواندگی کو بہتر نہ بنایا جاسکا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، پاکستان تاحال لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع دینے میں ناکام ہے۔ یہاں صرف32 فی صد لڑکیاں پرائمری اور 13 فی صد نویں جماعت تک پہنچ پاتی ہیں۔ پھر صحت کے حوالے سے بھی خواتین کو زیادہ سہولتیں میّسر نہیں، بلکہ کئی علاقوں میں تو خواتین صحت کی بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہیں۔ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا محض0.8 فی صد صحت پر خرچ کرتا ہے، جو بنگلا دیش سے بھی کم ہے، جہاں صحت پر 1.2 فی صد خرچ ہوتا ہے۔ نیز، جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بھی صحت کے شعبے میں پاکستان سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار کے مواقع میں پاکستان کی خواتین آج بھی صنفی امتیاز کا شکار ہیں، اُنھیں ملازمتوں اور اجرتوں میں مَردوں کے مقابلے میں کم تر حیثیت دی جاتی ہے، تو اُن کے لیے ملازمت کے مقام بھی پوری طرح محفوظ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صنفی امتیاز رکھنے والے 142 ممالک میں پاکستان کا 141 واں نمبر ہے، جو مُلک کے لیے بدنامی کا باعث ہے۔ پاکستان میں 15 برس عُمر کی دو تہائی لڑکیاں لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں، جب کہ صحت کی ناکافی سہولتوں کے سبب ہر سال 20 ہزار خواتین دَورانِ زچگی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹرز، نرسز اور مڈ وائوز کی شدید قلّت ہے۔

حکومتی سطح پر ترقّی و بہبود کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ ہونے کے باوجود خواتین نے’’ اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت خاصی کام یابیاں حاصل کیں اور عالمی فورمز پر مُلک کا نام روشن کیا۔ نومبر میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر ہونے والے بزدلانہ حملے کو ناکام بنانے میں خاتون اے ایس پی، سہائے عزیز نے بھی کردار ادا کیا، جسے ہر سطح پر سراہا گیا اور اُنھیں خصوصی اعزاز سے نوازنے کے بھی مطالبات سامنے آئے۔ اسی طرح، 28 اکتوبر 2018ء کو عاصمہ جہانگیر کو انسانی حقوق کے لیے گراں قدر خدمات انجام دینے پر اقوامِ متحدہ کا’’ انسانی حقوق ایوارڈ‘‘ ملا، جو مُلک کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں، جب کہ پاکستان خواتین ٹیم کی سابقہ کپتان اور کرکٹر، ثنا میر نے آئی سی سی باؤلر رینکنگ میں پہلی پاکستانی خاتون کرکٹر بننے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما، شیریں رحمان سینیٹ میں پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر مقرّر ہوئیں۔ کشمالہ طارق نے ملازمت کے مقام پر خواتین کو ہراساں کرنے کی روک تھام کے لیے وفاقی محتسب کے طور پر حلف اٹھایا۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب، ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا نام دنیا کی5 کام یاب ترین خواتین سفارت کاروں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔نیز، ڈاکٹر ثنیہ نشتر، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن مقرّر ہوئیں۔ طاہرہ صفدر نے مُلک کی پہلی خاتون چیف جسٹس بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ اُنھیں چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس ثاقب نثار نے بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرّر کیا۔ رحمت جہاں، لوئر دیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون محرّر تعیّنات ہوئیں۔ یاد رہے ضلع چترال سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ رحمت جہاں، 2012 ء میں لوئر دیر پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہوئی تھیں۔ ان لینڈ ریونیو سروس گروپ کی گریڈ22 کی افسر، رخسانہ یاسمین، چیئرپرسن ایف بی آر مقرّر ہوئیں۔ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی بتول اسدی، بلوچستان کی پہلی خاتون اسسٹنٹ کمشنر تعیّنات ہوئیں۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر، سیّد مظہر علی ناصر نے معروف فیشن ڈیزائنر اور فیشن آرگنائزر، تسنیم صدف کو فیشن ڈیزائننگ میں ان کے وسیع تجربے کے پیشِ نظر ایف پی سی سی آئی کی مجلس قائمہ برائے لائف اسٹائل کا چیئرپرسن مقرّر کیا۔ تسنیم صدف عالمی سطح پر ہونے والے فیشن شوز میں پاکستانی کلچر کو پروموٹ کرتی ہیں اور اُنہیں اس ضمن میں بے شمار مُلکی اور عالمی اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔ معروف خاتون کوہ پیما، ثمینہ بیگ، پاکستان کے لیے یواین ڈی پی کی خیرسگالی سفیر مقرّر ہوئیں۔ پاکستانی وومن ٹیم کی بلّے باز، جویریہ خان نے ٹی 20 انٹرنیشنل کرکٹ میں تیز ترین نصف سنچری بنا کر نیا مُلکی ریکارڈ قائم کیا، تو ہنزہ کی انیتا، پاکستان کی پہلی خاتون مکسڈ مارشل آرٹس فائٹر بننے میں کام یاب رہیں۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی، نرگس حمید، ایشین گیمز کے کرّاٹے ایونٹ میں میڈل جیتنے والی پہلی پاکستانی خاتون بن گئیں۔ اُنہوں نے 68پلس کلو گرام کیٹیگری میں نیپال کی، ریٹا کار کی کو تین ایک سے ہرا کر کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا۔ شرمین عبید چنائے نے 2018ء میں بھی اعزازات حاصل کیے۔ وہ’’ گلوبل لیڈر شپ ایوارڈ‘‘ حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی بنیں۔ دو مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ جیتنے والی فلم ساز، صحافی اور سرگرم سماجی کارکن، شرمین عبید چنائے کو غیرمعمولی قائدانہ صلاحیتوں کے پیشِ نظر نیویارک کی’’دی تالبرگ فائونڈیشن‘‘ نے اپنے بہت ہی معتبر اعزاز ’’دی ایلیسن گلوبل لیڈر شپ 2018ء‘‘ سے نوازا۔ عطیہ بتول پہلی پاکستانی خاتون ہیں، جنھیں بم ڈسپوزل اسکواڈ میں شامل کیا گیا۔ اُنھیں پولیس لائن راول پنڈی میں دھماکا خیز مواد کی شناخت، خودکُش جیکٹس سمیت مختلف نوعیت کے بم ڈی فیوز کرنے کی تربیت دی جائے گی۔ پاکستان کی پہلی خاتون میکینک بننے کا اعزاز ملتان کی عظمیٰ نواز نے حاصل کیا۔ 24 برس کی عظمیٰ، میکینکل انجینئرنگ کی تعلیم کے بعد گاڑیوں کی ایک ورکشاپ میں ملازمت کر رہی ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی، ڈاکٹر مصباح راٹھور نے مُلک کی پہلی سویلین فلائٹ سرجن کا اعزاز اپنے نام کیا۔ پاکستان کی 5 سالہ عنایہ، دنیا کی کم عُمر ترین مائیکرو سافٹ انجینئر بننے میں کام یاب ہوگئیں۔ عنایہ فرّخ نے اپنی قابلیت اور ذہانت سے’’ گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں اپنا نام لکھوایا۔ پاکستانی نژاد، روبینہ شاہ گریٹر مانچسٹر کی ہائی شیرف مقرّر ہوئیں۔ اُنھیں ملکۂ برطانیہ نے اس عُہدے پر تعیّنات کیا اور وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہیں۔ سونیا مجید، متحدہ عرب امارات میں’’ انٹرنیشنل پیس ایوارڈ‘‘ حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی گلوکارہ بن گئیں۔ پاکستانی طالبہ، اریجہ صدیقی نے کینیڈا کے شہر، ٹورنٹو میں منعقدہ’’ پارلیمنٹ آف ورلڈ ریلیجن ایونٹ‘‘ میں مُلک کی نمائندگی کی۔ اُنہوں نے آن لائن مضمون نویسی کے مقابلے میں حصّہ لیتے ہوئے مغربی تہذیب و ثقافت پر مضمون لکھا تھا، جس کی بنیاد پر اُنہیں فائنلسٹ قرار دے کر تقریب میں مدعو کیا گیا۔ پاکستانی طالبہ، دانیہ نے’’ ایمرجنگ ینگ لیڈر ایوارڈ‘‘ جیتا۔ دانیہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی پاکستان کی کم عُمر ترین لڑکی ہے۔ دانیہ کو یہ ایوارڈ تعلیم، امن اور مفادِ عامّہ کے لیے کام کرنے پر دیا گیا۔ فوربز کی ’’30 انڈر 30‘‘ ایشیا فہرست میں 9 پاکستانی شامل ہوئے، جن میں مومنہ مستحسن کو موسیقی اور29 سالہ سعدیہ بشیر کو ٹیکنالوجی کے شعبے کے لیے منتخب کیا گیا۔فلم کے شعبے میں بھی پاکستانی خواتین نے عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اداکارہ ماہرہ خان نے سال 2018ء میں کینز میلے میں شرکت کی۔ اس سے قبل ارمینہ رانا خان بھی اس میلے میں شرکت کرچُکی ہیں۔ علاوہ ازیں، ماہرہ خان نے 2018ء کی ایشیائی پُرکشش خواتین میں چوتھا نمبر حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ نوبیل انعام یافتہ، ملالہ یوسف زئی نے 2018ء میں بھی ایوارڈ جیتنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اُنہیں تعلیم کے شعبے میں جدوجہد پر ہارورڈ یونی ورسٹی کے لیڈر شپ ایوارڈ سے نوازا گیا۔

سال 2018ء میں سیاست اور سماجی شعبے میں نمایاں کردار ادا کرنے والی کئی اہم خواتین دنیا سے رخصت ہوئیں۔ اُن میں سابق خاتونِ اوّل بیگم کلثوم نواز، انسانی حقوق کی سرگرم کارکن، عاصمہ جہانگیر، ترقّی پسند شاعرہ فہمیدہ ریاض، افسانہ نگار پروین عاطف نمایاں ہیں۔

تازہ ترین