• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاق اور وفاقیت پھر نشانے پہ ہیں۔ آٹھویں اور سترھویں آمرانہ ترامیم کی حامی مرکزیت پسند قوتیں اٹھارہویں ترمیم کی جمہوری منشا اور وفاقی اکائیوں کی صوبائی خود مختاری پہ حملہ آور ہو گئی ہیں۔ پہلے ہی تین صوبے مرکز سے ریموٹ کنٹرول یا پھر پراکسیوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں اور سندھ پہ شب خون مارنے اور گورنر راج نافذ کرنے کی تیاریاں ہیں۔ وفاق اور وفاقی اکائیوں کے مابین اختیارات و وسائل کی تقسیم کے سوال پر جمہوری اور نوآبادیاتی دور کی آمرانہ قوتوں کے مابین کشمکش کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ گورنر جنرل، مطلق العنان صدور اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز کے جدید نوآبادیاتی نوکرشاہانہ مرکزیت پسند شکنجے سے آئینی طور پر جان چھڑوانے میں 63برس لگے اور کہیں جا کر19 اپریل 2010ء میں اَٹھارہویں ترمیم صدر آصف علی زرداری کے دستخط سے آئین کا حصہ بنی۔ صدر کے اختیارات وزیراعظم کو منتقل ہوئے۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف کی آئین میں داخل کی گئی زیادہ تر ترامیم کو آئین سے خارج کیا گیا (گو کہ جنرل ضیاالحق کی بہت سی رجعتی نشانیاں ابھی بھی آئین کا منہ چڑاتی نظر آتی ہیں)۔ آئین کو توڑنے اور اس کے لیے عدالتی جواز کو بھی غداری کے زمرے میں شامل کرنے سے پی سی او عدلیہ کا قصہ پارینہ ہوا۔ اسمبلیوں کو توڑنے کا صدارتی اختیار ختم اور پارلیمنٹ کی بالادستی مضبوط کی گئی۔ آمرانہ مرکز کے پیٹے سے دو طرفہ فہرست (Concurrent List) نکال کر وفاقی اکائیوں کو اختیار و اقتدار کی منتقلی (Devolution of Power) کی گئی۔ وفاقی ادارے جیسے کونسل آف کامن انٹرسٹ (CCI) کو مضبوط کیا گیا، قدرتی ذرائع پہ وفاقی اکائیوں کا حق اور عوام کی بیشتر سماجی و معاشی ضروریات و خدمات کی ذمہ داری صوبوں کو تفویض کر دی گئی۔ عدلیہ کی خودمختاری، انصاف کے عمل کو یقینی بنانے اور حقِ اظہار سمیت سماجی حقوق کو تحفظ اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنایا گیا۔ پختونوں کو ان کی شناخت دی گئی۔ مرکز اور صوبوں اور وفاقی اکائیوں کے مابین ذرائع و وسائل کی تقسیم کے پرانے جھگڑے کو ساتویں نیشنل فنانس کمیشن کے ایوارڈ (30دسمبر 2009) کے ذریعے13 برس بعد اہم پیمانوں پہ طے کیا گیا۔ قابلِ تقسیم ٹیکسوں کا 57.5فیصد صوبوں میں مختلف پیمانوں پہ تقسیم کیا گیا۔ جس میں پنجاب کو 51.74 فیصد، سندھ کو 24.55 فیصد، خیبر پختون خوا کو 14.62 فیصد اور بلوچستان کو 9.09 فیصد حصہ دیا گیا۔ جبکہ مزید ایک فیصد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ناتے خیبرپختون خوا کو دیا گیا۔ یہ تقسیم آبادی (82 فیصد)، پسماندگی (10.03 فیصد)، ٹیکس وصولی (5 فیصد)، آبادی کا معکوس اجتماع (2.7 فیصد) کے پیمانوں پہ کی گئی اور یوں پنجاب اور باقی صوبوں کے مابین مالیاتی ناہمواری کے مسئلے کا حل نکالا گیا۔ صوبوں کے حصے میں کمی بیشی کا تعین آبادی کی شرح اور ٹیکسوں کی بڑھتی گھٹتی مقدار سے کیا گیا۔ آخرکار مرکز اور صوبوں کے مابین ذرائع کی تقسیم اور صوبوں کے حصے کے تعین سے اُفقی اور عمودی تضادات کا سب کے لیے قابلِ قبول حل تلاش کر لیا گیا۔

درحقیقت 1940 کی قراردادِ لاہور میں جو اساسی اُصول پیش کیے گئے تھے، اٹھارہویں ترمیم نے کافی حد تک اُن پر پورا اُترنے اور نوآبادیاتی ورثے سے خلاصی پانے کی کوشش کی ہے۔ 1940 کی قرارداد میں برصغیر کے مسلم اکثریتی شمال مغرب اور مشرقی خطوں کے علاقوں کو ملا کر آزاد ریاستیں تشکیل دی جانی تھیں جن میں اکائیاں خودمختار اور اقتدارِ اعلیٰ کی مالک قرار دی گئیں۔ قراردادِ لاہور کی اسی منشا کی بنیاد پر 1946ء میں قانون سازوںکے کنونشن میں قراردادِ پاکستان کے باوجود کوشش کی گئی کہ متحدہ بنگال کی علیحدہ ریاست قائم ہو جس کے لیے سہروردی اور دوسرے لیگی لیڈر آخری وقت تک کوشش کرتے رہے۔ قائداعظم نے مائونٹ بیٹن سے آخری لمحے تک پنجاب اور بنگال کو تقسیم نہ کرنے کی جستجو جاری رکھی۔ جب تقسیمِ ہند ناگزیر ہو گئی اور خونخوار فرقہ ورانہ فسادات کے جلو میں دو نئی ریاستیں وجود میں آ گئیں، پاکستان میں گورنر جنرل اور 1935ء کا گورنمنٹ آف انڈیاایکٹ دس برس تک جاری رہا۔ آئین سازی میں سب سے بڑا سوال ہی وفاق اور صوبوں کے مابین اختیارات کی تقسیم کا تھا۔ ایک ایوانی مقننہ ہو یا دو ایوانی اور ان کے مابین کیا نسبت ہو، قومی زبان ایک ہو یا دو ہوں، مرکز کے پاس کتنے محکمے ہوں جبکہ بنگالیوں کا اصرار تھا کہ فقط دفاع، خارجہ پالیسی اور کرنسی مرکز کے پاس ہوں، جداگانہ یا مخلوط انتخابات ہوں وغیرہ۔ 9 برس تک آئین سازی ان سوالات کے باعث تعطل کا شکار رہی جبکہ اصل راج گورنر جنرل کا تھا جو برطانوی وائسرائے کی طرح طاقتور ترین تھا۔ پہلے پہل تو ریڈ شرٹ حکومت ختم کی گئی۔ اور اگر غلام محمد کے ہاتھوں پہلی آئین ساز اسمبلی فارغ ہوئی تو اسکندر مرزا کے ہاتھوں مشرقی پاکستان کی جگتو فرنٹ کی پہلی منتخب حکومت ختم ہوئی۔ اسکندر مرزا نے تو پانچ وزرائے اعظم فارغ کیے اور مشرقی پاکستان کی سات حکومتیں ختم کیں۔ تاآنکہ جنرل ایوب خاں نے اقتدار سنبھال لیا۔ ایوب خان نے نہ صرف بالغ حقِ رائے دہی کو ختم کیا بلکہ بالواسطہ انتخابی ادارہ بنا کر صدارتی نظام مسلط کر دیا اور جمہوریت و صوبائی خودمختاری کو تلپٹ کر دیا۔ پھر بھی 1964ء کے صدارتی انتخاب میں وہ محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی کے ذریعے ہرا سکا۔ یہ 1968-69 کی پُرزور عوامی تحریک تھی جس نے حقِ بالغ رائے دہی اور پارلیمانی وفاقی جمہوریہ کی بحالی اور وَن یونٹ کو ختم کر کے وفاقی اکائیوں کو بحال کروایا۔ تب تک مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی زمین تیار ہو چکی تھی۔ جنرل یحییٰ خان نے انتخابات تو کروا دیئے لیکن اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کی بجائے فوج کشی کا راستہ اختیار کر کے ملک کو دو لخت کر دیا۔ آمرانہ ٹولے کی شکست کے بعد ہی 1973 کا جمہوری وفاقی آئین بن سکا۔ لیکن 1973 کے آئین کو بھی تین بار توڑا گیا۔ اور جتنی بار بھی اسمبلیاں توڑی گئیں یا آئین، اعلیٰ عدلیہ نے نظریۂ ضرورت کے تحت انہیں جلا بخشی اور خود بھی پی سی او زدہ ہو کر اپنی خودمختاری کھو بیٹھیں۔

1973 کے آئین میں جو صوبائی خودمختاری طے کی گئی تھی، اُس پر 10 برس کے بعد پھر غور کیا جانا تھا۔ لیکن جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے طویل مارشل لائوں کے باعث جمہوریت، آئین کی حکمرانی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ صوبائی خودمختاری کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ گورنر جنرل کا جدید نوآبادیاتی طرز کا راج ہو یا پھر صدارتی بالادستی اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، یہ سبھی ایک ہی طرح کی نوکر شاہانہ و آمرانہ اور وحدانی طرزِ حکمرانی کے غماز تھے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے قومی تعمیر (Nation Building)، مذہبی ایکتا (جو فرقہ پرستی کے ہاتھوں کب کی معدوم ہو چکی تھی)، ایک قومی زبان، مضبوط مرکز اور آمرانہ طرزِ حکمرانی سے عبارت رہی ہے۔ جبکہ جمہوری قوتیں عوام کی حکمرانی، وفاقی اکائیوں کی مساویانہ شراکت داری اور مستحکم جمہوریہ میں پارلیمان کی بالادستی، عدلیہ کی خودمختاری، انسانی و شہری حقوق کے تحفظ اور میڈیا کی آزادی کے لیے مسلسل جدوجہد کرتی رہی ہیں۔ آمرانہ، وحدانی اور عدم شراکتی، سیاسی و معاشی نظام کے ہاتھوں پاکستان ٹوٹا اور اب جو موجود ہے اُسے بھی انہی قوتوں سے خطرہ ہے۔ بجائے اس کے کہ مرکزی یا وفاقی نوکرشاہی ڈھانچے، اختیار و اقتدار کی صوبائی سطح پہ منتقلی کے باعث اپنے خرچے آدھے کرتے، وہ اُلٹا اب صوبوں کے حقوق اور حصے پہ ڈاکہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اختیارات و ذرائع کی صوبوں تک منتقلی میں چھ دہائیاں لگ گئیں، اب ضرورت ہے کہ یہ انتقالِ اقتدار ضلعوں اور نچلی سطح پہ عوام کو منتقل ہو۔ عوام کی حکمرانی، اچھی حکومت اور لازوال جمہوری وفاق ہی پاکستان کی سلامتی کی بنیاد بن سکتا ہے۔ پاکستان کی ترقی اور جمہوری مستقبل کے لیے آئین کے آرٹیکل 6 کی طرح اٹھارہویں ترمیم بھی کافی نہیں، اس کے لیے طاقت کے مرکز کو غیرمنتخب اداروں سے پارلیمنٹ کی جانب منتقل کرنا ہوگا، وگرنہ ڈھاک کے وہی تین پات۔

تازہ ترین