• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات کی اڑتی ہوئی راکھ سے بوجھل ہے نسیم

یوں عصا ٹیک کے چلتی ہے کہ رحم آتا ہے

سانس لیتی ہے درختوں کا سہارا لے کر

اور جب اس کے لبادے سے لپٹ کر کوئی

پتہ گرتا ہے تو پتھر سا لڑھک جاتا ہے

شاخیں ہاتھوں میں لیے کتنی ادھوری کلیاں

مانگتی ہیں فقط اک نرم سی جنبش کی دعا

ایسا چپ چاپ ہے سنولائی ہوئی صبح میں شہر

جیسے معبد کسی مرجھائے ہوئے مذہب کا

سر پہ اپنی ہی شکستوں کو اٹھائے ہوئے لوگ

اک دوراہے پہ گروہوں میں کھڑے ہیں تنہا

یک بیک فاصلے تانبے کی طرح بجنے لگے

قدم اٹھتے ہیں تو ذرے بھی صدا دینے لگے

درد کے پیرہن چاک سے جھانکو تو ذرا

مردہ سورج پہ لٹکتے ہوئے میلے بادل

کسی طوفان کی آمد کا پتا دیتے ہیں! 

تازہ ترین